Header Ads

دیابنہ نے مفسرکی تاویل کیسے کی؟

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

دیابنہ نے مفسرکی تاویل کیسے کی؟

سوال :جب اشخاص اربعہ کی عبارتیں کفری معنی میں مفسرہیں توپھر دیابنہ ان عبارتوں کی تاویل کیسے کرتے ہیں ؟

جواب: یہ بات یقینا قابل تعجب ہے کہ دیابنہ کفریہ معنی میں مفسر عبارتوں کی بھی تاویل کرتے ہیں ،جس کے سبب لوگوں کوغلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اگر یہ عبارتیں ناقابل تاویل ہیں تو پھر دیوبندیوں نے تاویل کیسے کی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دیوبندی لوگ اشخاص اربعہ کی کفری عبارتو ں کی باطل تاویل کرتے ہیں اور تاویل باطل ہر عبارت کی ہوسکتی ہے ،لیکن تاویل باطل فقہا ومتکلمین کسی کے یہاں مقبول نہیں ،اس لیے اس تاویل کے سبب حکم کفر ختم نہیں ہوسکتا ۔ہاں ،تاویل پیش کرنے والا ضرورکافر قرار پائے گا۔

کفرکلامی کی تاویل کرنے والا کافر

قال ابن نجیم المصری الحنفی:(وَمَنْ حَسَّنَ کَلَامَ اَھْلِ الْاَھْوَائِ اَوْ قَالَ مَعْنَوِیٌّ اَوْ کَلَامٌ لَہٗ مَعْنًی صَحِیْحٌ-اِنْ کَانَ ذٰلِکَ کُفْرًا مِنَ الْقَائِلِ کَفَرَ المُحَسِّنُ)
(البحرالرائق جلد پنجم ص 209)

 قال النووی الشافعی:(وَاَنَّ مَنْ لَمْ یُکَفِّرْ مَنْ دَانَ بِغَیْرِ الْاِسْلَامِ کَالنَّصَارٰی اَوْ شَکَّ فِیْ تَکْفِیْرِہِمْ اَوْ صَحَّحَ مَذْہَبَہُمْ فَہُوَ کَافِرٌ-وَاِنْ اَظْہَرَ مَعَ ذٰلِکَ الْاِسْلَامَ وَاِعْتَقَدَہ)

(روضۃ الطالبین جلدہفتم ص290)

قال الہیتمی الشافعی ناقلًا عن الشفاء:(وَاَنَّ مَنْ لَمْ یُکَفِّرْ مَنْ دَانَ بِغَیْرِ الْاِسْلَامِ کَالنَّصَارٰی اَوْ شَکَّ فِیْ تَکْفِیْرِہِمْ اَوْ صَحَّحَ مَذْہَبَہُمْ فَہُوَ کَافِرٌ-وَاِنْ اَظْہَرَمَعَ ذٰلِکَ الْاِسْلَامَ وَاِعْتَقَدَہ)
(الاعلام بقواطع الاسلام ص378)

توضیح:کفرکلامی کی تاویل کرنے والا ،یا اس کو صحیح بتانے والا ،یا مرتکب کو مومن بتانے والا کافر ہے۔

اشخاص اربعہ کا کفر ایک بڑی آزمائش

حقیقت یہ ہے کہ اشخاص اربعہ کا کفر برصغیر کے مسلمانوں کے واسطے ایک بڑی آزمائش ہے۔اگر انہیں کافرمانتے ہیں تو بہت سے رشتے اور تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں مومن کہتے ہیں تو اسلام وایمان سے رشتہ اور تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا بڑاامتحان ہے۔

ایمان کی کمزوری کی علامت یہی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے ایمان کی فکر نہیں کرتے اور محض دنیاوی تعلقات یا اہل دنیا کی نظر میں میاں مٹھو بننے کے واسطے حکم شرعی سے روگردانی کرتے ہیں۔

 افہام وتفہیم کے بعد بہت سے لوگ حق کی طرف آ جاتے ہیں اور بعض کی تقدیر میں کفر ہی ہوتا ہے۔

 احتمال کا مفہوم

قال السید الشریف الجرجانی الحنفی:(الاحتمال:مَا لَا یَکُوْنُ تَصَوُّرُطَرْفَیْہِ کَافِیًا-بَلْ یَتَرَدَّدُ الذِّہْنَ فِی النِّسْبَۃِ بَیْنَہُمَا-وَیُرَادُ بِہِ الْاِمْکَانُ الذِّہْنِیُّ)

(کتاب التعریفات ص14-دارالفکر بیروت) 

توضیح:احتمال کا مفہوم یہ ہے کہ جانب موافق وجانب مخالف دونوں مترددہوں۔نہ جانب موافق یقینی ہو،نہ جانب مخالف یقینی ہو،بلکہ دونوں جانب کا امکان ذہنی ہو۔

قطعی بالمعنی الاخص میں جانب مخالف کا بالکل احتمال نہیں ہوتا ہے،نہ احتمال بالدلیل ہوتا ہے،نہ احتمال بلا دلیل۔

 قطعی بالمعنی الاخص احتمال سے ماورا ہوتا ہے۔ 

قطعی بالمعنی الاخص کی دوقسمیں ہیں :(۱)قطعی الثبوت (۲)قطعی الدلالت۔

قطعی الدلالت بالمعنی الاخص کومفسر اور صریح متعین کہا جاتاہے۔

قطعی الثبوت بالمعنی الاخص کی تین قسمیں ہیں:

(1)قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام
 (2)خبرمتواتر 
(3)بدیہی عقلی

احتمال بالدلیل اوراحتمال بلا دلیل کی تفہیم 

احتمال بالدلیل کا لفظ ہی ظاہر کر رہا ہے کہ وہاں احتمال پر کوئی دلیل ہوگی،او ر احتمال بلا دلیل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی احتمال ذہن میں آ رہاہو،لیکن اس احتمال پر کوئی دلیل نہ ہو،اس لیے فقہا اس کا لحاظ نہیں کرتے۔

جہاں احتمال بالدلیل ہو،وہ ظنی ہوگا ،کیوں کہ اس احتمال پر دلیل موجود ہے۔

جہاں احتمال بلا دلیل ہو،وہ قطعی ہوگا,کیوں کہ اس احتمال پر کوئی دلیل نہیں،لیکن یہ قطعی بالمعنی الاعم ہوگا ،کیوں کہ یہاں احتمال موجود ہے،گرچہ اس احتمال پر دلیل نہیں۔

 قطعی بالمعنی الاخص میں احتمال بلادلیل کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔وہاں جو احتمال پیش کیا جاتا ہے،وہ احتمال باطل ہوتا ہے۔اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں کی تاویل،تاویل باطل ہے۔
  
قال الامام احمد رضا القادری:(اِذَا اَذْعَنَّا بِشَیْئٍ-فَاِنْ لَمْ یَحْتَمِلْ خِلَافَہ اَصْلًا کَوَحْدَانِیَّۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَحَقَّانِیَّۃِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیقین بالمعنی الاخص-وان احتمل اِحْتِمَالًا نَاشِئًا لَا عَنْ دَلِیْلٍ کَاِمْکَانِ اَنْ یَکُوْنَ الَّذِیْ نَرَاہُ زَیْدًا جِنِّیًّا تَشَکَّلَ بِشکلہ فبالمعنی الاعم-ومثل الاحتمال لَا نَظْرَاِلَیْہِ اَصْلًا وَلَا یَنْزِلُ الْعِلْمُ عَنْ دَرَجَۃِ الْیَقِیْنِ-اَمَّا النَّاشِیْئُ عَنْ دَلِیْلٍ فَیَجْعَلُہ ظَنًّا وَالْکُلُّ دَاخِلٌ فِی الْاِذْعَانِ)

(حاشیہ فتاویٰ رضویہ جلداول ص6-رضااکیڈمی ممبئ)

توضیح: احتمال بلا دلیل قطعیت کو ختم نہیں کرسکے گا اور احتمال بالدلیل قطعیت سے مانع ہوگا اور محتمل کو ظنی بنا دے گا۔

امام احمد رضا قادری نے احتمال بلادلیل کی مثال یہ رقم فرمائی کہ یہ ممکن ہے کہ زید جسے ہم دیکھ رہے ہیں،وہ زید نہ ہو،بلکہ کوئی جن زید کی شکل اختیار کرلیا ہو۔

یہ احتمال بالدلیل قطعیت سے مانع نہیں ہوگا،لیکن قطعیت بالمعنی الاخص سے مانع ہوگا۔

احتمال بلادلیل کے سبب محتمل قطعی بالمعنی الاخص نہ ہوسکے گا۔

حضرت صدرالشریعہ بخاری قدس سرہ العزیز کی مندرجہ ذیل عبارت میں احتمال باطل کی یہ مثال پیش کی گئی کہ مثلا زید جسے ہم دیکھ رہے ہیں،ممکن ہے کہ وہ زید نہ ہو،بلکہ وہ فنا ہوچکا ہو، اور اس کی جگہ کوئی دوسرا زید اسی کے ہم شکل پیدا ہو گیاہو۔

 یہ باطل احتمال ہے،اورباطل احتمال کا بالکل لحاظ نہیں ہوتا۔

یہ باطل احتمال قطعیت بالمعنی الاخص سے مانع نہیں ہوتا،بلکہ باطل احتمال کا اعتقاد ایمان واسلام سے خروج کا سبب ہوتا ہے۔

قال صدر الشریعۃ فی بحث الامر:((ہٰذَا الْاِحْتِمَالُ یُبْطِلُ الْحَقَائِقَ)یُمْکِنُ اَنْ یُرَادَ بِہَا حَقَائِقَ الْاَشْیَائِ-فانہ لواُعْتُبِرَ مِثْلُ ہٰذِہِ الْاِحْتِمَالَاتِ-یجوز اَنْ لَا یَکُوْنَ زَیْدٌ زَیْدًا-بَلْ عُدِمَ الشَّخْصُ الْاَوَّلُ وَخُلِقَ مَکَانَہٗ شَخْصٌ اٰخَرَ-وہو عین مذہب السوفسطائیۃ النافین حقائق الاشیاء-ویمکن ان یراد حقائق الالفاظ-اِذْ مَا مِنْ لَفْظٍ اِلَّا وَلَہٗ اِحْتِمَالٌ قَرِیْبٌ اَوْ بَعِیْدٌ اَوْ خُصُوْصٌ اَوْ اِشْتِرَاکٌ اَوْ مَجَازٌ-فَاِنْ اُعْتُبِرَتْ ہٰذِہِ الْاِحْتِمَالَاتُ مَعَ عَدَمِ الْقَرِیْنَۃِ- تَبْطُلُ دَلَالَاتِ الْاَلْفَاظِ عَلَی الْمَعَانی الموضوع لہا)

(التوضیح جلداول ص153)

توضیح:صدرالشریعہ کا قول(ہٰذَا الْاِحْتِمَالُ یُبْطِلُ الْحَقَائِقَ) کہ یہ احتمال ثابت شدہ حقائق کو باطل کر دیتا ہے ۔مفہوم یہ ہے کہ اگر اس احتمال باطل کا اعتبار کیا جائے تو تمام حقائق باطل ہوجائیں گے،پس اس قسم کے احتمال کا کوئی اعتبار نہیں۔

اس طرح کے احتمالات سوفسطائیہ پیش کرتے ہیں جو اشیائے موجودہ کی حقیقتوں کا انکار کرتے ہیں۔ان کے باطل احتمالات کا لحاظ کیا جائے تو موجودبھی غیر موجود قرار پائے،جیسے یہ ممکن ہے کہ زید جسے ہم دیکھ رہے ہیں،وہ زید نہ ہو،بلکہ وہ فنا ہوچکا ہو، اور اس کی جگہ کوئی دوسرا زید اسی کے ہم شکل پیدا ہو گیاہو۔ یہ باطل احتمال ہے ،اورباطل احتمال کا بالکل لحاظ نہیں ہوتا۔

دیابنہ کے پیش کردہ احتمالات بھی سوفسطائیہ کے باطل احتمالات کی طرح ہیں ،اسی لیے ان احتمالات وتاویلات کے سبب حکم کفر قائلین سے جدا نہیں ہوتا،بلکہ تاویل کرنے والوں پر حکم کفر عائد ہوجاتا ہے۔

فقہائے احناف اوراقسام تاویل

احتمال کے سبب تاویل ہوتی ہے۔اگر کہیں احتمال قریب ہو تو وہاں تاویل قریب ہو گی۔اگر احتمال بعید ہو تو تاویل بعید ہو گی۔اگر احتمال متعذر ہو تو وہاں تاویل متعذر ہو گی۔اسی کو تاویل باطل بھی کہا جاتا ہے۔
 
 فقہا ئے ثلاثہ کے یہاں تاویل کی تین قسمیں ہیں:(۱)تاویل صحیح یعنی تاویل قریب(۲)تاویل فاسد یعنی تاویل بعید (۳)تاویل باطل یعنی تاویل متعذر۔

فقہائے احناف تاویل کی دوقسموں کوتسلیم کرتے ہیں اور تاویل باطل چوں کہ تحریف وتبدیل ہے،اس لیے تاویل باطل کوتاویل کی قسموں میں شمار نہیں فرماتے۔

قال المحقق بحر العلوم الفرنجی محلی:((الفصل الاول:اَلتَّاوِیْلُ مِنْہُ قَرِیْبٌ)الی الفہم(فَیَتَرَجَّحُ الْمَرْجُوْحُ بِمُرَجِّحٍٍ مَّا)وَہُوَ الْقَرِیْنَۃُ(وَمِنْہُ بَعِیْدٌ)عن الفہم(فَلَا یصارالیہ الابباعث قوی)فیترجح وینساق الی الذہن -والشافعیۃ ثَلَّثُوا القسمۃ-وقالوا:التاویل قریب ویعبد ومتعذر-ولایخفٰی ما فیہ-وہل ہذا الاکقسمۃ الانسان الی الرجل والمرأۃ والنقش المنقوش علی اللوح)

(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت جلددوم ص22)

توضیح:جس طرح مفسر میں اختلاف ہوتا ہے،اسی طرح بدیہی میں بھی اختلاف ہوتا ہے ،اوربعض امور کے بدیہی ہونے میں بھی اختلاف ہوتا ہے،لیکن اس قسم کا اختلاف غیر معتبرہوتا ہے۔اس اختلاف کے باوجود مخالف پر شرعی حکم عائد ہوتا ہے۔

کم عقلی ،عناداور تعصب و ہٹ دھرمی کے سبب یہ اختلاف ہوتا ہے۔
بدیہی میں اختلاف کا سبب 

علامہ سعدالدین تفتازانی نے رقم فرمایا :(الضروری قد یقع فیہ خلاف-اما لعناد او لقصور فی الادراک فان العقول متفاوتۃ بحسب الفطرۃ باتفاق من العقلاء)

(شرح عقائد نسفیہ ص 41-مجلس برکات مبارک پور)

توضیح:بدیہی امور میں بھی کبھی اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کا دو سبب علامہ ممدوح نے بیان فرمایا : (الف ) عناد کے سبب اختلاف (ب)کم عقلی اور قصورفہم کے سبب اختلاف۔

یہ واضح ہے کہ دیوبندیوں نے اشخاص اربعہ کی مفسر عبارتوں میں محض اہل سنت کے عناد کے سبب کفر کو تسلیم نہیں ،ورنہ دیابنہ کو معلوم ہے کہ یہ عبارتیں کفری معنی میں مفسر ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ بعض انصاف پسند دیوبندی علما دیوبندیت سے تائب ہوکر اہل سنت وجماعت میں شامل ہوگئے۔

محدث دیابنہ انور شاہ کشمیری نے ختم نبوت کے دیوبندی نظریہ کے خلاف لکھا اور حق گوئی کے سبب دارالعلوم دیوبند کے منصب شیخ الحدیث سے اسے معزول کردیا گیا۔

متواتر کے بدیہی ہونے میں اختلاف  

علامہ سعدالدین تفتازانی نے رقم فرمایا :( فان قیل:الضروریات لا یقع فیہا التفاوت و الاختلاف-ونحن نجد العلم بکون الواحد نصف الاثنین اقوٰی من العلم بوجود اسکندر -والمتواتر قد انکرت افادتہ العلم جماعۃ من العقلاء کالسمنیۃ والبراہمۃ۔
 قلنا:ہذا ممنوع-بل قد یتفاوت انواع الضروری بواسطۃ التفاوت فی الالف والعادۃ والممارسۃ والاخطار بالبال وتصورات اطراف الاحکام -وقد یختلف فیہ مکابرۃ وعنادا کالسوفسطائیۃ فی جمیع الضروریات)

(شرح عقائد نسفیہ ص 36-مجلس برکات مبارک پور)

توضیح:بھارت کے برہمن اور گجرات کے سومناتھ مندر کے پجاری خبرمتواتر کے ذریعہ حصول یقین کا انکار کرتے تھے۔

دراصل خبر متواتر سے یقین بدیہی حاصل ہوتا ہے اور بھارت میں برہمنوں کی آمد یعنی 1500:قبل مسیح سے حضور اقدس نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جلوہ گری تک کسی نبی کی آمدکا پتہ نہیں چلتا۔ہاں،قبل خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃوالسلام کسی نبی ورسول کی آمدکا امکان ضرور ہے ،لیکن محض امکان سے آمدکا ثبوت فراہم نہیں ہوتا۔

برہمن قوم1500 :قبل مسیح میں وسط ایشیا (یوریشیا)سے بھارت آئی اور ان لوگوں نے اپنی شاطرانہ چالوں سے بھارتی حکومتو ں پر قبضہ جما لیا۔

اپنی حکومتوں کی مضبوطی کے واسطے ویدک دھرم (سناتن دھرم/ہندو دھرم)ترتیب دیا۔

دھارمک کتابوں (وید،اُپنشد،اسمرتی وغیرہ)میں بھارت کے اصل مقامی باشندوں کو شودر یعنی برہمنوں کا غلام قراردیا,تاکہ کبھی ان کے دلوں میں حکومت وسلطنت کی خواہش پیدا نہ ہو سکے۔

عہد بعثت انبیا میں خبر متواتر کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک میں حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت وجلوہ گری کی خبریں آتی رہیں،لیکن برہمنوں اور سومناتی پنڈتوں نے ان خبروں کونہ قبول کیا اور نہ ہی اپنے مذہب سے خود دستبردار ہوئے۔اسی طرح شودروں کوبھی ان مذاہب کی طرف مائل ہونے نہ دیا۔سب کو جھوٹی خبر بتایا,تاکہ ان کی سلطنت وحکومت قائم رہے۔یہودی قبیلہ یہودی فطرت کی طرف پلٹا۔

 برہمنوں نے شودروں کو حصول تعلیم سے محروم کررکھا تھا،اس لیے وہ اس لائق نہیں تھے کہ صحیح وغلط میں فرق کرسکیں اوربرہمن وپنڈت لوگ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی آمدکی متواتر خبروں کوجھٹلاتے رہے۔

انہیں خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ جب لوگ دیگر مذاہب کی طرف منتقل ہوجائیں گے تو نہ وہ خود کوشودر مانیں گے،نہ ہی وہ خودکو برہمنوں کا پیدائشی غلام مانیں گے،پھر وہ ہم سے اختلاف پر آمادہ ہوجائیں گے۔

مسلم سلاطین ہند کا نام سن کر برہمنوں کا کلیجہ اسی لیے ریزہ ریزہ ہونے لگتا ہے کہ مسلم حکومتوں کے سبب بھارت میں مذہب اسلام کوقدم جمانے کا موقع ملا اور شودروں کی ایک بڑی تعداد برہمنوں کی غلامی سے نجات پاکر ان کے مدمقابل کھڑے ہوگئی۔

اسی طرح مذہب اسلام کا نام سن کر برہمنوں کے تن بدن میں سخت شعلوں والوں آ گ بھڑک اٹھتی ہے،پھر وہ پاکستان کا نام لے کر مسلمانوں پر برسنے اور اپنے دانت چبانے لگتے ہیں۔

تمام بدیہیات میں سوفسطائیہ کااختلاف

علامہ سعدالدین تفتازانی نے رقم فرمایا :((حقائق الاشیاء ثابتۃ-والعلم بہا متحقق خلافًا للسوفسطائیۃ)فان منہم:من ینکر حقائق الاشیاء-ویزعم انہا اوہام وخیالات باطلۃ وہم العنادیۃ-ومنہم:من ینکر ثبوتہا ویزعم انہا تابعۃ للاعتقاد حتی ان اعتقدنا الشیء جوہرًا فجوہر-اوعرضًا فعرض-او قدیما فقدیم-او حادثًا فحادث،وہم العندیۃ-ومنہم:من ینکر العلم بثبوت شیء ولا ثبوتہ ویزعم انہ شاک،وشاک فی انہ شاک-وہلم جرًّا وہم اللاادریۃ)

(شرح عقائد نسفیہ ص 31-مجلس برکات مبارک پور)

توضیح:فرقہ سوفسطائیہ تمام بدیہیات وموجودات کا انکار کرتا ہے،حتی کہ وہ اپنے وجود کا بھی انکار کرتے ہیں ۔یہ ان کی حماقت اور ہٹ دھرمی ہے۔فرقہ سوفسطائیہ کے متعدد طبقات ہیں ،مثلاً عنادیہ ،عندیہ ،لاادریہ۔

  دیابنہ بھی فرقہ سوفسطائیہ کا ایک طبقہ ہے جو اپنے اکابرین کی کفری معنی میں مفسر عبارتوں کو مفسرنہیں مانتے۔ 

بعض سوفسطائیہ اشیائے موجودہ کوموجود ہی نہیں مانتے۔وہ کہتے ہیں کہ اشیا موجود نہیں،بلکہ یہ اوہام وخیالات ہیں۔یہ فرقہ عنادیہ ہے۔

بعض سوفسطائی اشیائے موجودہ کے وجود وثبوت کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ سب کچھ اعتقاد کے تابع ہے۔اگر ہم نے کسی کو جوہرمان لیا تووہ جوہر ہے،اور عرض مانا تووہ عرض ہے۔یہ فرقہ عندیہ ہے۔

 بعض سوفسطائیہ اشیائے موجودہ کے وجود وعدم وجود میں شک کرتے ہیں ،اور اس میں بھی انہیں شک ہے کہ وہ شک میں مبتلا ہیں ۔یہ فرقہ لاادریہ ہے۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا کہ ان کے ساتھ بحث ومناظرہ کی راہ نہیں۔ان کو سمجھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کوآگ میں ڈال دیا جائے۔جب آگ ان کوجلائے گی اوروہ تڑپیں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ آگ جلانے والی چیز ہے اور اشیا کا حقیقی وجود ہے۔وہ دلائل سے کچھ ماننے والے نہیں۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(والحق انہ لا طریق الی المنظرۃ معہم خصوصا مع اللاادریۃ,لانہم لا یعترفون بمعلوم لیثبت بہ مجہول۔بل الطریق تعذیبہم بالنار لیعترفوا او یحترقوا)
(شرح عقائد نسفیہ ص 31)

توضیح:جو حال سوفسطائیہ کا ہے,وہی حال دیابنہ کا ہے۔دیوبندی گروپ بھی سوفسطائیہ کا ایک قبیلہ ہے۔

طارق انور مصباحی 
جاری کردہ:03:نومبر2020
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے