قانون بناتا کون ہے؟ دائمی حل کیا ہے؟
بھارت کے مسلمانوں کو پھر ایک زمینی آفت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔بھارت کی پانچ بھاجپائی ریاستوں میں"لو جہاد"سے متعلق قانون بنائے جانے کی خبر ملک بھر میں گشت لگا رہی ہے۔تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہو گا۔
اگر کسی مسلمان نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کر لی تو اس پر یہ قانون نافذ ہو گا اور اگر کسی ہندو نے مسلمان لڑکی سے شادی کر لی تو یہ قانون اس پر نافذ نہیں ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ قانون بناتا کون ہے؟
جواب بالکل سادہ سا ہے کہ پارلیامنٹ و اسمبلی میں جو حکمراں پارٹی ہوتی ہے,وہی قانون بناتی ہے اور وہی پارٹی حکمراں ہوتی ہے جس کے پاس ممبروں کی تعداد زیادہ ہو۔
اگر کوئی قانون ملکی دستور کے خلاف بنایا جاتا ہے تو ملکی دستور کی روشنی میں اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے,لیکن یہ عارضی دفاع ہے۔
دائمی دفاع یہی ہے کہ آپ خود ہی پارلیامنٹ و اسمبلی میں اپنی حکمرانی کی کوشش کریں۔یا تو آپ اکثریتی پارٹی ہوں,یا حکمراں پارٹی میں کثیر ممبران کے ساتھ شریک ہوں۔
اس نیک مشورہ پر مسلم قوم جبڑے پھاڑ کر جواب دے گی کہ ہماری تعداد کم ہے تو نہ ہم اتنی سیٹ جیت سکتے ہیں,نہ ہماری حکم رانی قائم ہو سکتی ہے۔
جواب یہ ہے کہ جب برہمن ساڑھے تین فی صد ہو کر پورے ملک پر قابض ہو سکتے ہیں تو مسلمان پندرہ فی صد ہو کر اپنی حکم رانی قائم کیوں نہیں کر سکتے۔عقل و شعور اور ہمت و حوصلہ چاہئے۔
برہمن قوم ساڑھے تین ہزار سال تک مول نواسی قوموں کو اپنا غلام بنائے رکھی اور ان پر سخت ظلم و ستم کرتی رہی,بلکہ آج بھی مول نواسیوں پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری ہے اور ان کو شودر اور غلام ہی سمجھا جاتا ہے۔
مول نواسی قومیں حقیقت میں ہندو نہیں ہیں,لیکن برہمنی تھنک ٹینک زبردستی ان کو ہندو بنا کر ان کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
جھاڑ کھنڈ کی آدی واسی حکومت نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آدی واسی قوم کو ہندو کے خانے سے الگ کر کے ان کو اپنے اصلی دھرم یعنی سرنا دھرم کا کوڈ دیا جائے۔
اسی طرح دیگر مول نواسی قومیں بھی اپنے ہندو ہونے کا مسلسل انکار کرتی رہی ہیں۔
برہمن قوم بھارت میں ساڑھے تین فی صد ہے اور مول نواسی قوموں کو ہندو بنا کر آزادی کے بعد سے آج تک مرکز میں بر سر اقتدار ہے۔کبھی پنجہ کا جھنڈا اٹھا کر اور کبھی جھنڈے پر کنول کا نشان لگا کر۔
مول نواسی قوموں کی پارٹیوں کے وجود سے قبل تمام ریاستوں میں بھی برہمنی پارٹیوں کی حکومت قائم رہی ہے۔
بھارت میں چند فی صد آرین قوموں کو چھوڑ کر تمام لوگ مول نواسی ہیں۔قوم مسلم بھی مول نواسی قوموں میں شامل ہے۔
جب برہمن قوم غیر ہندؤں کو زبردستی ہندو بنا کر ان کے ووٹ بٹور سکتی ہے تو قوم مسلم مول نواسی کا رشتہ بتا کر مول نواسی قوموں کے ووٹ کیوں نہیں حاصل کر سکتی ہے۔
جب کوئی آفت آتی ہے تو مسلم لیڈران اس موضوع پر آواز بلند کرتے ہیں,لیکن آفت کی اصل وجہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
جب جمہوری ملک میں ہر شہری کو ووٹ دینے,سیاسی پارٹی بنانے,اپنے امیدوار نامزد کرنے,الیکشن لڑنے اور ووٹرس کو اپنی طرف مائل کرنے کے واسطے صحیح وسائل اختیار کرنے کی اجازت ہے تو پھر آپ بھی مشقت و جاں فشانی کریں۔
آپ جس خداوند قدوس کی عبادت کرتے ہیں,اس پروردگار کا حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہونا,پھر آپ نے امیدوں کا دامن کیوں چھوڑا اور ناامیدی کی چادر اوڑھ کر کیوں سو گئے؟
جب تک اسمبلی و پارلیامنٹ میں آپ کو قوت حاصل نہیں ہو گی,تب تک آپ کے خلاف قانون سازی ہوتی رہے گی۔کانگریس ہو یا بی جے پی۔ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
بی جے پی کی پانچ ریاستیں لو جہاد کے خلاف قانون بنانے جا رہی ہیں اور راجستھان کی کانگریسی حکومت سرکاری اسکولوں سے اردو زبان کو نکالنے کی سازش کر رہی ہے۔
لو جہاد کوئی حقیقی چیز نہیں,محض ایک فرضی ایشو ہے۔ایک فرضی بات کے خلاف قانون سازی کر کے مسلم نوجوانوں کو جیل بھیجا جائے گا,تاکہ مسلمانوں کو آفت و مصیبت میں مبتلا دیکھ کر مخالفین کا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا رہے,اور بی جے پی کا ہندو ووٹ بینک محفوظ رہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:23:نومبر 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں