مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما
غیرمقلد وہابیہ اور کفر کلامی
قسط اول
غیر مقلدوہابیہ اورمقلد وہابیہ (دیابنہ)کی چارقسمیں ہیں۔
(1)جو مقلد وہابی(دیوبندی) اور غیر مقلد وہابی کسی ضروری دینی کا منکر ہے،وہ کافر کلامی ہے۔
(2)اگرکوئی مقلدوہابی وغیرمقلد وہابی کسی ضروری دینی کا منکر نہیں،لیکن ضروری دینی کے منکر کو مومن کہتا ہے تووہ بھی کافر کلامی ہے۔
(3)جو مقلد وہابی اورغیر مقلدوہابی نہ کسی ضروری دینی کا منکر ہے،نہ ضروری دینی کے کسی منکر کو مومن کہتا ہے،بلکہ اسے کافر ہی مانتا ہے تو دونوں مذاہب میں بہت سے کفر فقہی ہیں،اگر ان کفریات فقہیہ کومانتا ہے تو کافر فقہی۔اگر ان کفریات فقہیہ کا انکار کرتا ہے،لیکن ان کے قائلین کو کافر فقہی نہیں کہتا ہے تو یہ بھی کافر فقہی ہے۔
(4)جو مقلد وہابی اورغیر مقلدوہابی نہ کسی ضروری دینی کا منکر ہے،نہ ضروری دینی کے کسی منکر کو مومن کہتا ہے،بلکہ اسے کافر ہی مانتا ہے تو دونوں مذاہب میں بہت سے کفر فقہی ہیں،اگر ان کفریات فقہیہ کومانتا ہے تو کافر فقہی۔اگر ان کفریات فقہیہ کا انکار کرتا ہے، اور ان کے قائلین کو کافر فقہی کہتا ہے تو یہ محض گمراہ ہے۔
ان چاروں طبقات کا تفصیلی بیان گزشتہ مضمون میں مرقوم ہوچکا ہے۔
غیرمقلد وہابیہ اور مقلد وہابیہ
وہابیہ کا ابتدائی طبقہ کافر فقہی تھا،جیسے ابن عبد الوہاب نجدی اور اسماعیل دہلوی وغیرہ۔ اس عہد میں وہابیہ کے عقائد میں کفر کلامی نہیں تھا۔
بعد کے وہابیہ نے ختم نبوت کے بارے میں ایسا عقیدہ اختیار کیا جو کفر کلامی تھا تو جو اس کفریہ عقیدہ کو مانے،وہ کافر کلامی اور جواس عقیدہ کو نہ مانے،لیکن ایسے عقیدہ والوں کو مومن کہے، وہ بھی کافر کلامی ہے۔ چوں کہ عام طورپر بعد کے غیر مقلد وہابیہ ایسے عقیدہ والے وہابیہ کو کافر نہیں مانتے،اس لیے مجموعی طورپر غیر مقلد وہابیہ کو بعد میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی نے کا فر کلامی قرار دیا۔
وہابیہ کا ایک طبقہ فرقہ دیوبندیہ ہے۔ اس کے بنیادی عقائد میں کفر کلامی شامل ہے،کیوں کہ اس طبقہ کے اکابر یعنی نانوتوی،گنگوہی،انبیٹھوی اور تھانوی کافر کلامی ہیں اور دیوبندی فرقہ ان کواپنا پیشوا مانتا ہے، اور کافر کلامی کو مومن ماننا کفر کلامی ہے۔
جو دیوبندی ان اکابرکے کفریہ عقائد کو بھی مانتے ہوں،ان پر کفر کلامی کا حکم ان کفریہ عقائد کے ماننے کے سبب بھی وارد ہوگا۔
غیر مقلد وہابیہ کا ابتدائی طبقہ جوکافر فقہی ہے:
غیر مقلد وہابیہ کے ابتدائی طبقہ سے میری مراد وہ طبقہ ہے،جس پر کفر کلامی کا حکم نہیں،لیکن انکار تقلید کے سبب گمرہی کا حکم ہے اور بہت سے دیگر غلط عقائد کے سبب کفر فقہی کا حکم ہے۔
ان احکام کی تفصیل(۱)النہی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید (۵۰۳۱ھ) (۲) الامن والعلی لناعتی المصطفیٰ بدافع البلاء(۱۱۳۱ھ)(۳) الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیہ (۲۱۳۱ھ) (۴)سل السیوف الہندیۃ علی کفریات بابا النجدیہ(۲۱۳۱ھ) و دیگر فتاویٰ میں ہے۔
غیر مقلد وہابیہ کا طبقہ مابعدجو کافرکلامی ہے:
بعد کے بھارتی وہابیوں نے ختم نبوت کا انکار کیا۔اگر دیگر وہابیہ اس عقیدہ کونہ بھی مانتے ہوں تو اس عقیدہ کے سبب کافر کلامی ہوجانے والے وہابیہ کو کافر نہیں مانتے ہیں،پس یہ لوگ بھی کافر کلامی ہوئے۔
اسی طرح یہ لوگ دیوبندیوں کوبھی کافر کلامی نہیں مانتے۔ ان دونوں اسباب کی بنیادپر امام احمد رضا قادری نے بعد کے وہابیہ کو کافر کلامی قرار دیا۔
فتاویٰ رضویہ کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔
”وہابی ہو یا رافضی جو بد مذہب عقائد کفریہ رکھتا ہے جیسے ختم نبوت حضور پر نور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انکار یا قرآن عظیم میں نقص ودخل بشری کا اقرار،تو ایسوں سے نکاح با جماع مسلمین بالقطع والیقین باطل محض وزنائے صرف ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العارص:377-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح:مذکورہ بالا عبارت میں دوفرقوں کا ذکر ہے اور دو وجہ کفر کا بیان ہے۔ روافض کے کفر کا سبب قرآن مجید کو ناقص قرار دینا ہے اور وہابیہ(غیرمقلدوہابیہ) کے کفر کا سبب ختم نبوت کا انکار ہے۔
حضرت محدث سورتی قدس سرہ العزیز نے غیرمقلدوہابیہ کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے رقم فرمایا:
”سوم یہ کہ آں حضرت کے خاتم النبیین ہونے سے انکار کرتے ہیں،چناں چہ یہ مضمون صفحہ ۲ و۶ ۱: نصرالمومنین مصنفہ اخوند صدیق پشاوری شاگرد مولوی نذیر حسین سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ”خاتم النبیین“کے الف لام کو عہد خارجی کا لکھا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ بعض کے خاتم ہیں،نہ سب کے،حال آں کہ آپ کل انبیاکے خاتم اور نبی آخر الزماں ہیں کہ بعد آپ کے کوئی نبی نہ ہوگا“۔(جامع الشواہد ص10-ادارہ معارف نعمانیہ لاہور)
رسالہ:ازالۃ العار میں امام احمد رضا قادری نے وہابیہ کے چار اقسام بیان فرمائے۔ان میں سے دوقسموں کوکافر کلامی،ایک کو کافر فقہی اور ایک قسم کومحض گمراہ قرار دیا۔
اس وقت بعض وہابیہ ختم نبوت کے منکر تھے تووہ کافرکلامی تھے اورجو ختم نبوت کے منکر کی تکفیر کے منکر تھے،وہ بھی کافر کلامی تھے۔
جب اسماعیل دہلوی نے رسالہ یک روزہ میں امکان نظیر کا نظریہ لکھا تو علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ القوی نے تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ میں اس کارد فرمایا۔اس کے بعد ایک مفصل کتاب بنام ”امتناع النظیر“تحریر فرمائی۔
ایک مدت بعد پھر یہ مسئلہ موضوع بحث بن گیا۔سال ۸۸۲۱ھ مطابق ۱۷۸۱ء میں شیخوپور (بدایوں: یوپی)میں امکان نظیر وامتناع نظیر کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ اہل سنت وجماعت کی جانب سے تاج الفحول علامہ عبد القادر بدایونی تھے اور وہابیوں کی طرف سے امیر احمد سہسوانی۔اس کی روداد نذیر سہسوانی وہابی نے مناظرۂ احمدیہ کے نام سے شائع کی۔
اس میں اثر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے حوالے سے لکھا گیا کہ زمینیں سات ہیں اور ہر زمین میں نبی ہوئے۔اسی اثر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو دلیل بنا کر وہابیوں نے مختلف قسم کا قول کیا۔
بعد میں جب اسی انکار ختم نبوت کے سبب اور اللہ ورسول (عزوجل وعلیہ الصلوٰۃ والسلام)کی بے ادبی کے سبب وہابیہ کے مقلدفرقہ یعنی دیوبندیوں پر کفرکلامی کا حکم عائد ہوا تو غیرمقلدوں نے دیوبندیوں کوکافر تسلیم نہ کیا،بلکہ ان کو مومن قراردیتے اور ایک ساتھ رہتے۔
چند سالوں قبل سعودیہ عربیہ میں تقلیدکے سبب دیوبندیو ں کوگمراہ کہا جانے لگا،اورامدادی رقم بند کردی گئی،تب بھارت میں دیابنہ اور اہل حدیث میں اختلاف ہوا۔
غیر مقلد وہابیہ کے کفر کلامی کا سبب اول:انکار ختم نبوت
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے غیر مقلد وہابیہ کے انکارختم نبوت کی تفصیل اپنے رسالہ:”المبین ختم النبیین“(۶۲۳۱ھ)میں بیان فرمائی ہے۔
منقولہ ذیل اقتباس میں ضروری تفصیل مرقوم ہے۔
اما م احمدرضاقادری نے رقم فرمایا:”بالجملہ آیہ کریمہ:(ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین) مثل حدیث متواتر (لانبی بعدی) قطعاً عام اور اس میں مراد استغراق تام اور اس میں کسی قسم کی تاویل وتخصیص نہ ہونے پر اجماعِ امت خیرالانام علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔
یہ ضروریات دین سے ہے اور ضروریاتِ دین میں کوئی تاویل یا اس کے عموم میں کچھ قیل وقال اصلاً مسموع نہیں، جیسے آج کل دجال قادیانی بک رہاہے کہ خاتم النبیین سے ختم نبوت شریعت جدیدہ مراد ہے، اگر حضور کے بعد کوئی نبی اسی شریعت مطہرہ کا مروج وتابع ہوکر آئے،کچھ حرج نہیں،اور وہ خبیث اس سے اپنی نبوت جمانا چاہتا ہے۔
یا ایک اور دجال نے کہا تھا کہ تقدم، تاخرزمانی میں کچھ فضیلت نہیں۔خاتم بمعنی آخر لیناخیال جہال ہے،بلکہ خاتم النبیین بمعنی نبی بالذات ہے،اور اسی مضمون ملعون کو دجال اول نے یوں ادا کیا کہ خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہے۔
ایک اور مرتدنے لکھا:خاتم النبیین ہونا حضرت رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہ نسبت اس سلسلہ محدودہ کے ہے،نہ بہ نسبت جمیع سلاسل وعوالم کے، پس اور مخلوقات کا اورزمینوں میں ہونا ہرگز منافی خاتم النبیین کے نہیں۔جموع محلی باللام امثال اس مقام پر مخصوص ہوتی ہیں۔
چند اور خبیثوں نے لکھا کہ الف لام خاتم النبیین میں جائز ہے کہ عہد کے لیے ہو، اور برتقدیر تسلیم استغراق جائز ہے کہ استغراق عرفی کے لیے ہو، اور برتقدیر حقیقی جائز ہے کہ مخصوص البعض ہو، اور بھی عام کے قطعی ہونے میں بڑا اختلاف ہے کہ اکثر علماظنی ہونے کے قائل ہیں۔
ان شیاطین سے بڑھ کراور بعض ابلیسیوں نے لکھا کہ اہل اسلام کے بعض فرقے ختم نبوت کے ہی قائل نہیں اور بعض قائل ختم نبوت تشریعی کے ہیں نہ مطلق نبوت کے۔
الیٰ غیرذٰلک من الکفریات الملعونۃ والارتدادات المشحونۃ بنجاسات ابلیس وقاذورات التدلیس لعن اللّٰہ قائلھا وقاتل اللّٰہ قابلیھا۔
یہ سب تاویل رکیک ہیں، یا عموم واستغراق”النبیین“ میں تشویش وتشکیک۔ سب کفر صریح وارتداد قبیح۔ اللہ ورسول نے مطلقاً نفی نبوت تازہ فرمائی۔
شریعت جدیدہ وغیرہا کی کوئی قید کہیں نہ لگائی اور صراحۃً خاتم بمعنی آخر بتایا۔ متواتر حدیثوں میں اس کا بیان آیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اب تک تمام امت مرحومہ نے اسی معنی ظاہر ومتبادر وعموم واستغراق حقیقی تام پر اجماع کیا،اور اسی بنا پر سلفاً وخلفاً ائمہ مذاہب نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد ہر مدعی نبوت کو کافر کہا۔ کتبِ احادیث و تفسیر عقائد و فقہ ان کے بیانوں سے گونج رہی ہیں۔
فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اپنی کتاب”جزاء اللہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ(۷۱۳۱ھ)“ میں اس مطلب ایمانی پر صحاح وسنن و مسانید ومعاجیم و جوامع سے ایک سو بیس حدیثیں اور تکفیر منکر کہ ارشادات ائمہ وعلمائے قدیم وحدیث و کتب عقائد واصول فقہ وحدیث سے تیس نصوص ذکر کیے:وللہ الحمد۔
تو یہاں عموم واستغراق کا انکار خواہ کسی تاویل و تبدیل کا اظہار نہیں کرسکتا، مگر کھلا کافر،خد اکا دشمن، قرآن کا منکر،مردودوملعون،خائب وخاسر، والعیاذ باللہ العزیز القادر۔
ایسی تشکیکیں تو وہ اشقیا،رب العٰلمین میں بھی کرسکتے ہیں کہ جائز ہے لام عہد کے لیے ہو، یا استغراق عرفی کے لیے، یا عام مخصوص منہ البعض، یا عالمین سے مراد عالمین زمانہ:کقولہ تعالیٰ: وانی فضلتکم علی العالمین۔
اور سب کچھ سہی، پھر عام قطعی تو نہیں خدا کا پروردگار جمیع عالم ہونا یقینی کہاں،مگر الحمد للہ مسلمان نہ ان ملعون ناپاک وسائس کو رب العالمین میں سنیں،نہ ان خبیث گندے وساوس کو خاتم النبیین میں۔الالعنۃ اللّٰہ علی الظالمین-ان الذین یؤذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ واعدلھم عذابًا مھینا۔
یہ طائفہ خائفہ خارجیہ جن سے سوال ہے۔ اگر معلوم ہو کہ حضور پر نور خاتم الانبیا ومرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیہم اجمعین کے خاتم ہونے کوصرف بعض انبیا سے مخصوص کرتا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روز بعثت سے جب، یا اب،یاکبھی کسی زمانے میں کوئی نبوت، اگرچہ ایک ہی،اگرچہ غیر تشریعی، اگرچہ کسی اور طبقہ زمین، یا کنج آسمان میں، اگرچہ کسی اور نوع غیرانسانی میں واقع مانتا، یاباوصف اعتقاد عدم وقوع محض بطور احتمال شرعی وامکان وقوعی جائز جانتا یہ بھی سہی،مگر جائز ومحتمل ماننے والوں کو مسلمان کہتا،یا طوائف ملعونہ مذکورہ، خواہ ان کے کبرا، یا نظرا کی تکفیر سے باز رہتا ہے، تو ان سب صورتوں میں یہ طائفہ خائفہ خود بھی قطعا یقینا اجماعاً ضرورۃً مثل طوائف مذکورہ قادیانیہ وقاسمیہ وامیریہ ونذیریہ وامثالہم لعنہم اللہ تعالیٰ کافر ومرتد ملعون ابد ہے۔ قاتلھم اللّٰہ انی یؤفکون-کہ ضروریات دین کا جس طرح انکار کفر ہے،یونہی ان میں شک و شبہہ اور احتمال خلاف، ماننا بھی کفر ہے۔یونہی ان کے منکر یا ان میں شاک کو مسلمان کہنا اسے کافر نہ جاننا بھی کفر ہے۔
بحرالکلام امام نسفی وغیرہ میں ہے: من قال بعد نبینا نبی یکفر لانہ انکر النص وکذٰلک لوشک فیہ۔درمختار وبزازیہ ومجمع الانہروغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔
ان لعنتی اقوال، نجس ترازابوال، کے ردمیں اواخرصدی گزشتہ میں بکثرت رسائل ومسائل علمائے عرب وعجم طبع ہوچکے اور وہ ناپاک فتنے غار مذلت میں گر کر قعرِ جہنم کو پہنچے: والحمدللہ رب العالمین۔
اس طائفہ جدیدہ کو اگر طوائف طریدہ کی حمایت سوجھے گی تو اللہ واحد قہار کا لشکر جرار، اسے بھی اس کی سزائے کردار پہنچانے کو موجود ہے۔
قال تعالٰی: الم نھلک الاولینoثم نُتْبِعُھُمُ الاٰخرینo کذلک نفعل بالمجرمینoویل یومئذ للمکذبین۔
اور اگر اس طائفہ جدیدہ کی نسبت وہ تجویز واحتمال نبوت،یا عدم تکفیر منکران ختم نبوت، معلوم نہ بھی ہو، نہ اس کا خلاف ثابت ہوتو اس کا آیہ کریمہ میں افادۂ استغراق سے انکار،اور ارادہ بعض پر اصرارکیا اسے حکم کفر سے بچالے گا کہ وہ صراحۃً آیہ کریمہ کی اس تفسیر قطعی یقینی اجماعی ایمانی کا منکر ومبطل ہے جو خود حضور پر نورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی اور جس پر تمام امت مرحومہ نے اجماع کیا اور بنقل متواتر ضروریاتِ دین سے ہوکر ہم تک آئی“۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص58تا60-رضا اکیڈمی ممبئ)
مذکورہ بالا اقتباس کے ابتدائی حصے میں سب سے پہلے قادیانی کی عبارت کا خلاصہ ہے،اس کے بعد بالترتیب قاسم نانوتوی کی تحذیرالناس،غلام احمدقادیانی کی کتاب: مواہب الرحمن،امیرحسن سہسوانی غیر مقلد وہابی(م۱۹۲۱ھ)کے بیٹے،امیراحمد سہسوانی غیر مقلدوہابی(م۶۰۳۱ھ)کے مناظراتی مباحث کے مجموعہ: مناظرہ احمدیہ(مرتبہ: نذیر احمد سہسوانی) اور امیراحمدسہسوانی کی کتاب: نصرالمومنین اورصدیق پشاوری غیر مقلد وہابی کی کتاب:تحریر اسمی کی عبارتوں کے خلاصے ہیں۔
اس میں ایک مقلد وہابی (نانوتوی)اور تین غیر مقلد وہابی کی ختم نبوت سے متعلق تحریروں کا ذکر ہے۔یہ تمام عبارتیں کفر کلامی کی ہیں،کیوں کہ ان کی عبارتیں ختم نبوت کے انکارکے مفہوم میں مفسر ومتعین ہیں۔اب جو غیر مقلدوہابیہ اسی اعتقادپر ہیں،وہ بھی کافر کلامی ہیں اورجوایسے عقیدہ والوں کومومن سمجھتے ہیں،وہ بھی کافر کلامی ہیں۔
غیر مقلدوہابیہ اسی عقیدۂ ختم نبوت کے انکار کے سبب کافر کلامی قرار پائے۔قائلین کی نشاندہی کے ساتھ عبارتوں کے خلاصے دوبارہ نذرقارئین ہیں۔
(1)جیسے آج کل دجال قادیانی بک رہاہے کہ خاتم النبیین سے ختم نبوت شریعت جدیدہ مراد ہے، اگر حضور کے بعد کوئی نبی اسی شریعت مطہرہ کا مروج وتابع ہوکر آئے،کچھ حرج نہیں،اور وہ خبیث اس سے اپنی نبوت جمانا چاہتا ہے۔
(غلام احمد قادیانی کے قول کا خلاصہ)
(2)یا ایک اور دجال نے کہا تھا کہ تقدم، تاخرزمانی میں کچھ فضیلت نہیں۔خاتم بمعنی آخر لیناخیال جہال ہے ، بلکہ خاتم النبیین بمعنی نبی بالذات ہے،اور اسی مضمون ملعون کو دجال اول نے یوں ادا کیا کہ خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہے۔
(قاسم نانوتوی کی تحذیرالناس کی عبارت کا خلاصہ)
(3)ایک اور مرتدنے لکھا:خاتم النبیین ہونا حضرت رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہ نسبت اس سلسلہ محدودہ کے ہے،نہ بہ نسبت جمیع سلاسل وعوالم کے، پس اور مخلوقات کا اورزمینوں میں ہونا ہرگز منافی خاتم النبیین کے نہیں۔جموع محلی باللام امثال اس مقام پر مخصوص ہوتی ہیں۔
(امیراحمدسہسوانی کے مناظراتی مباحث کا مجموعہ:”مناظرہ احمدیہ“کی عبارت کا خلاصہ)
(4)چند اور خبیثوں نے لکھا کہ الف لام خاتم النبیین میں جائز ہے کہ عہد کے لیے ہو، اور برتقدیر تسلیم استغراق جائز ہے کہ استغراق عرفی کے لیے ہو، اور برتقدیر حقیقی جائز ہے کہ مخصوص البعض ہو، اور بھی عام کے قطعی ہونے میں بڑا اختلاف ہے کہ اکثر علماظنی ہونے کے قائل ہیں۔
(امیر احمد سہسوانی کی کتاب”نصر المومنین فی رد قول الجاہلین“کی عبارت کاخلاصہ)
(5)ان شیاطین سے بڑھ کراور بعض ابلیسیوں نے لکھا کہ اہل اسلام کے بعض فرقے ختم نبوت کے ہی قائل نہیں اور بعض قائل ختم نبوت تشریعی کے ہیں نہ مطلق نبوت کے۔
(صدیق پشاوری کی کتاب”تحریر اسمی“ کی عبارت کا خلاصہ)
مولانا حافظ بخش بریلوی نے ”تنبیہ الجہال بالہام الباسط المتعال“(ص ۳تاص۴۱ - مطبع بہارستان کشمیر لکھنو)میں جو رقم فرمایا،اس سے واضح ہوتا ہے کہ غیرمقلد وہابیہ پہلے حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیش نظر پہلے شش امثال کے قائل تھے،پھرحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علاوہ زمین کے دیگر طبقات میں چھ خاتم النبیین کے قائل ہو گئے۔
محمداحسن نانوتوی نے قاسم نانوتوی کو ایک سوال نامہ بھیجا۔اس نے جواب میں تحذیر الناس لکھی،اس طرح اب مقلد وہابیہ بھی اس معاملہ میں شریک ہوگئے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:جنوری 2021
٭٭٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں