کفریہ عبارتوں کا علم اور تکلم ومتکلم میں احتمال ‏

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

کفریہ عبارتوں کا علم اور تکلم ومتکلم میں احتمال 

سوال:امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے اشخاص اربعہ سے متعلق کہیں مطلقاً تحریر فرمایا کہ جو ان کے کفر میں شک کرے،وہ کافر ہے۔

کہیں تحریرفرمایا کہ جو ان کی کفریہ عبارات پر مطلع ہوکر کافر نہ کہے،وہ کافر ہے، حالاں کہ کفریہ عبارات پر مطلع ہوجانے کے بعد بھی تکلم ومتکلم میں احتمال باقی رہتا ہے،پھر محض کفریہ عبارات پر مطلع ہونے کے سبب کوئی کافرکیسے اعتقاد کرسکتا ہے؟

جواب:کفریہ عبارت پر مطلع ہونے سے کیا مراد ہے،وہ مفہوم ان شاء اللہ تعالیٰ رقم کیا جائے گا۔

دراصل جو فتویٰ تکفیر کے اہل نہیں،ان کو علما کے فتویٰ پر عمل کرناہے،کیوں کہ وہ کفری عبارت دیکھ کربھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے،جیسے مقلدین آیات قرآنیہ واحادیث طیبہ دیکھ کربھی اجتہاد نہیں کرسکتے۔جو فتویٰ تکفیر کے اہل ہیں،وہ بھی محض عبارت دیکھ کر کچھ فیصلہ نہیں کرسکتے، کیوں کہ اگرعبارت کفری معنی میں مفسر بھی ہوتو بھی تکلم ومتکلم میں احتمال ہوگا۔

قول امام کی تشریح

امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے یہ نہیں فرمایا کہ جو اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں پرمطلع ہوکر ایسے اقوال کے قائلین کو کافر اعتقاد نہ کرے،وہ کافر ہے،بلکہ یہ فرمایا کہ جوان عبارتوں کے ان خاص قائلین یعنی اشخاص اربعہ کوکافر اعتقاد نہ کرے تو وہ کافر ہے۔

 اس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ان عبارتوں سے متعلق اوران عبارتوں کے قائلین سے متعلق ساری تحقیق مکمل ہوچکی ہے اور حکم عائد کیا جاچکا ہے۔ا ب وہ لوگ کافر کلامی ہیں او ر کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے، اورکافر کلامی کومومن ماننا یا اس کے کفر کلامی میں شک کرنا کفر کلامی ہے۔

اب جس کو ان لوگوں پر عائد کردہ حکم کفر کا علم ہو، وہ ان کوکافر مانے اور جن لوگوں کو ان کی کفریہ عبارتوں کا علم ہو، تووہ بھی کافر مانے،کیوں کہ ان لوگوں پرعائد کردہ حکم کفر مسلمانان ہندوپاک کے یہاں تواتر کے ساتھ مروی ہے۔ 

عوام وخواص کومعلوم ہے کہ اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی بے ادبی کے سبب دیوبندیوں پر عرب وعجم کے علما نے حکم کفر دیا ہے،پس جب کسی کو ایسی صریح کفریہ عبارتوں کاعلم ہوجائے تو اس پر بحکم شرع تفتیش وتحقیق لازم ہوگی،اور توقف کی صورت میں کفرکا حکم ہوگا۔

اگروہ علما سے دریافت کرے گا تو اسے اشخاص اربعہ کے کفر کا علم ہوجائے گا، کیوں کہ ان لوگوں پر عائدہ کردہ حکم کفر کی خبر مشہور ومتواتر ہے۔

اگر وہ کتابوں میں تلاش وجستجو کرے گا تواشخاص اربعہ کا حکم کفر کتابوں میں بھی مرقوم ومسطور ہے۔کتابوں سے بھی اس کو ان لوگوں کا حکم کفر معلوم ہوجائے گا۔

ان لوگوں کے کفرکا علم ہونے کے بعد اگر وہ ان لوگوں کوکافر نہ مانے تو کافر ہوگا۔اسی طرح اگروہ تحقیق ودریافت نہ کرے،بلکہ توقف کرے اور انہیں کافرنہ مانے تو اس توقف کے سبب وہ کافرہوگا۔

قول امام کا ماخذ 

اگر کسی کوکسی اعتقادی مسئلہ میں اشکال ہوگیاتواگر وہ تحقیق وتفتیش کا اہل ہے تو تحقیق کرے۔عہد تحقیق میں یہ اجمالی عقیدہ رکھے کہ جو عند اللہ حق ہے،وہی ہمارا اعتقاد ہے۔ اگروہ تحقیق کا اہل نہیں تو اہل علم سے سوال کرے۔ 
آیت مقدسہ:(فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)میں یہی حکم دیا گیا کہ عدم علم کے وقت اہل علم سے سوال کیا جائے۔ایسا نہیں کہ توقف کو اپنا عقیدہ بنالے اوریہ کہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں،یا میرے لیے حقیقت ظاہر نہیں ہوسکی۔

باب فقہیات میں عدم علم کے وقت توقف کی اجازت ہے،لیکن باب عقائد میں تلاش حق کا حکم ہے۔جب تک وہ تلاش وتحقیق کررہاہے،اس وقت تک یہ عقیدہ رکھے کہ جوعند اللہ حق ہے،وہی ہمارا عقیدہ ہے۔ 

ضروریات دین میں شبہہ ہونے پرتحقیق ودریافت ترک کرکے خاموش بیٹھ گیا اور توقف کو اپنا عقیدہ بنا لیا تو یہ کفرہے۔ کافر کلامی کوکافرمانناضروریات دین میں سے ہے۔
 
(1)قال العلامۃ البدایونی:(اذا اشکل ای التبس علی الانسان من اہل الایمان شَیءٌ من دقائق علم التوحید(1) یَجِبُ عَلَیہِ اَن یعتقد فی الحال(2)بما ہو الصوابُ عِندَ اللّٰہِ تَعَالٰی بطریق الاجمال اِلٰی اَن یَجِدَ عَالِمًا فَیَساَلُہٗ وَلَایَسَعُہٗ تَاخِیرُالطَّلَبِ-وَلَایُعذَرُ بِالوَقفِ عَلَیہِ اَی بِتَوَقُّفِہ فی معرفۃِ ہذہ الاحوال-وعدم تفحصہ بالسوال ویَکفُر(3)فِی الحَالِ اِن تَوَقَّفَ عَلٰی بَیَانِ الاَمرِ فِی الاِستِقبَالِ -لِاَنَّ التَّوَقُّفَ مُوجِبٌ(4)لِلشَّکِّ وہوفیما یَفتَرِضُ اِعتِقَادُہ کَالاِنکَارِ -وَلِذَا اَبطَلُوا قَولَ الثَّلجِی من اَصحَابِنَا(5)حیث قَالَ، اَقُولُ(6)-بِالمُتَّفَقِ(7)وَہُوَ اَنَّہ کَلَامُہ تَعَالٰی-وَلَا اَقُولُ:مَخلُوقٌ اَو قَدِیمٌ۔

ہٰذَا-المرادُ بِدَقَاءِقِ عِلمِ التَّوِحِیدِ اَشیَاءٌ یَکُونُ الشَّکُّ وَالشُّبہَۃُ فِیہَا مُنَافِیًا لِلاِیمَانِ وَمُنَاقِضًا لِلاِیقَانِ بِذَاتِ اللّٰہِ وَصِفَاتِہ وَمَعرفۃ کیفیۃ المُومَنِ بِہ (8)بِاَحوَالِ اٰخِرَتِہ(9)فَلَا ینافی اَنَّ الاِمَامَ تَوَقَّفَ فی بعض الاحکام (10)لانہا فی شرائع الاسلام-فالاختلافُ فی علم الاحکام رَحمَۃٌ (11) والاختلاف فی علم التوحید والاسلام ضَلَالَۃٌ وَبِدعَۃٌ-والخطاءُ فی علم الاحکام مغفورٌ بل صاحبُہ فیہ ماجورٌ-بخلاف الخطاء فی علم الکلام فانہ کفرٌ(12)وزورٌ(13) وصاحبہ ما زورٌ(14)ہٰذَا مَا اَفَادَہ الاِمَامُ الاَعظَمُ فِی الفِقہِ الاَکبَرِ والقاری فی شرحہ)
(المعتقد المنتقد ص 238-المجمع الاسلامی مبارک پور)

(2)قال الامام احمد رضا القادری فی حاشیتہ:(1)المرادُ بہ عِلمُ العَقَاءِدِ مُطلَقًا فَاِنَّ الحُکمَ کذلک فی جمیع المعتقدات(2)فیقول فی نفسہ اِعتَقَدتُ بما ہو الحَقُّ عِندَ اللّٰہِ تَعَالٰی فی ہذہ المسألۃ(3)اِن کانت المسئلۃ من ضروریات الدین(4)اَی مُثبِتٌ لِلشَّکِّ اِنًّا وَاِن کَانَ مُوجَبًا بِالفَتحِ لِمًّا-وَلَایَنبَغِی اَن یُجعَلَ فی المتن بالفتح-لان مُوجَبَ الشَّیءِ بالفتح لا یستلزم وجودُہ وجودَ الشَّیءِ لِجَوَازِتَعَدُّدِ المُوجِبَاتِ۔
(5) من اصحابنا اَیِ الحَنفِیَّۃِ فُرُوعًا لَا اُصُولًا-لاَِنَّہ مَعدُودٌ فی المعتزلۃ(6) فی القُراٰنِ(7) عَلَیہِ بَینَ الائمۃ(8)علٰی صیغۃ المفعول ای مَا یُومَنُ بِہ کذا فی شرح القاری-وَلَعَلَّ البَاءَ بمعنٰی مِن -اَی بِمَعرفۃ کیفیۃ ما یُومَنُ بِہ من احوال المعاد(10) کَوَقتِ الخِتَانِ وَغَیرِہ مِمَّا بَلَغَ سَبعًا وَقَد عُدَّت فی رد المحتار(11)لِجَوَازِ تَقلِیدِ الغَیرِ عند الضرورۃِ بِشَرطِہ المعروف فَہٰذَا الیُسرُ عِندَ العُسرِ اِنَّمَا جَاءَ مِن اِختِلَافِ عُلَمَاءِ الاُمَّۃِ(12) تَارَۃً(13)اُخرٰی(14)مُطلَقًا
(المعتمد المستند ص238 -المجمع الاسلامی مبار ک پور)

توضیح:مومن کومومن ماننا اور کافر کلامی کوکافر مانناضروری ہے،کیوں کہ یہ امر ضروریات دین میں سے ہے۔

توقف کی اجازت نہیں،بلکہ اجمالی اعتقاد کی جوشکل منقولہ بالا عبارتوں میں بیان کی گئی،صرف اس کی اجازت ہے،یعنی جب تک وہ معاملہ حل نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ اس باب میں جو عند اللہ حق ہے، میرا عقیدہ وہی ہے،اور اس پر لازم ہے کہ حق کی جستجو کرتا رہے،یعنی کسی عالم سے دریافت کرے،اورپھر جو صحیح عقیدہ بیان کیا جائے، اس کوتسلیم کرے۔تلاش حق میں تاخیر نہ کرے۔ مذکورہ شرط کے مطابق مدت تحقیق تک اجمالی اعتقاد کی اجازت ہے۔ظہورحقیقت کے بعداس عقیدہ کوماننا لازم ہے۔

 کافر کوکافر اور مومن کومومن ما ننا ضروریات دین میں سے ہے۔کافرکلامی کے کفر میں توقف اور شک بھی کفر ہے۔ حق کی تلاش کو ترک کرکے محض یہ اعتقادرکھ لینا کہ جوعند اللہ حق ہے،وہی میرا عقیدہ ہے،یہ بھی توقف ہے، اور اعتقادیات میں توقف کفر ہے۔

اسی طرح اس مسئلہ کو یہ کہہ کر نظر انداز کرنا کہ یہ مولویوں کا جھگڑا ہے،اور مرتدین کو مومن قرار دینا یہ بھی کفر ہے۔شرعی احکام علما ہی بیان کرتے ہیں،نہ کہ عوام الناس۔

اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارت پرمطلع ہو کر کافر ماننے کی جو بات امام اہل سنت نے بیان فرمائی ہے،امید ہے کہ اس کا ماخذ مذکورہ بالا عبارت ہو کہ جب کسی کو کسی قطعی اعتقادی مسئلہ میں کوئی شبہہ لاحق ہو تووہاں توقف کرنا کفر ہے اور اس کی تحقیق وتفتیش لازم ہے۔

چوں کہ اشخاص اربعہ کا کلام کفری معنی میں مفسر ہے تو لامحالہ ایسا کلام دیکھ کرایسے قائل کے کفر کا یقین ہوگا۔اب اگر اسے خاص اشخاص اربعہ کے کفرمیں جہت تکلم ومتکلم میں شک وشبہہ ہے تو اس کودور کرے۔وہ اگران قائلین کا حکم کتابوں میں تلاش کرنا چاہے تو بہت سی کتابوں میں اشخاص اربعہ کا حکم کفر مرقوم ومسطور ہے اور عالموں سے معلوم کرنا چاہے تو علمائے حق کو بھی اس کی اطلاع ہے۔ان کے ذریعہ اشخاص اربعہ کا حکم معلوم ہوجائے گا۔

امام اہل سنت کے مذکورہ قول کی یہی تشریح میرے لیے ظاہر ہوئی،ورنہ محض کفریہ کلام پرمطلع ہو کرکسی کی یقینی تکفیر نہیں کی جا سکتی،نہ کسی کویقینی طورپر کافر مانا جا سکتا ہے،کیوں کہ تکلم ومتکلم میں احتمال موجود ہے۔

خود امام اہل سنت نے قادیانی کی عبارت پرمطلع ہو نے کے باوجودفرمایا تھا کہ اگر اس نے ایسا کہا ہے،تب وہ کافر ہے، یعنی مشروط تکفیر فرمائی۔ آپ نے مطلق تکفیر نہیں فرمائی، کیوں کہ متکلم وتکلم میں احتمال تھا۔

اگست ۲۰۹۱؁ء مطابق ۰۲۳۱؁ھ میں مولانا پیر عبد الغنی کشمیری امرتسری (م۸۳۳۱؁ھ) نے مرزاکی عبارات متفرقہ لکھ کر بریلی شریف بھیجا۔ امام اہل سنت نے ان عبارات کے پیش نظر رسالہ ((السوء والعقاب علی المسیح الکذاب))تحریرفرمایا،اورآپ نے لکھاکہ اس شہرمیں مرزا کا فتنہ نہیں آیا۔اس کی تحریرات یہاں نہیں ملتیں،اورآپ نے اس رسالہ میں لکھاکہ اگر یہ اقوال مرزا کی تحریروں میں اسی طرح ہیں تو واللہ واللہ وہ یقیناکافر،اورجواس کے ان اقوال یاان کے امثال پر مطلع ہوکر اسے کافرنہ کہے،وہ بھی کافر۔

اس فتویٰ کے بعد مرزاغلام احمدقادیانی کی کتابیں منگوائیں اور۰۲۳۱؁ھ/۲۰۹۱؁ء میں ((المعتمدالمستند))میں مرزاقادیانی کی بعض عبارات ذکرکرکے تکفیر فرمائی۔ ۳۲۳۱؁ھ میں ”قہر الدیان علیٰ مرتدبقادیان“تحریرفرمایا۔ ۳۲۳۱؁ھ/۴۲۳۱؁ھ مطابق ۶۰۹۱؁ء میں علمائے حرمین طیبین نے حسام الحرمین میں مرزاکے کافر ہونے کی تصدیق فرمائی۔

  چندقابل ذکر امور

(۱)کسی مفسرکفریہ عبارت کا علم یقینی ہوجائے تو بھی تکلم ومتکلم میں احتمال کے سبب قائل پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا۔امام اہل سنت کے قول کی تشریح ہم نے رقم کردی ہے۔ اگر کوئی دوسری تشریح بھی کسی کی نظر میں ہوتو پیش کریں۔ان شاء اللہ تعالیٰ اس پر غور کیا جائے گا۔

(۲)کسی پرکفر کلامی کا حکم عائد ہوچکا ہوتو اس کو کافر ماننے کے لیے اس کے کفریہ قول کا علم ہونا ضروری نہیں،بلکہ اس پر لگائے گئے حکم کفر کا علم ہونا ضروری ہے۔

تمام مدعیان نبوت کو ہم مرتد مانتے ہیں۔ان کے بارے میں اجمالی طورپر اتنا معلوم ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس عہد کے علما نے ان کو کافر کہا۔جس قول کے ذریعہ ان لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا،ان تمام کے ان اقوال کا ہمیں علم نہیں۔

یزید پلیدکے عہد میں مختار ثقفی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔اس کے دعوی نبوت کا ذکر ملتا ہے،لیکن وہ خاص جملہ جس کے ذریعہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا،وہ کیا ہے؟ اور کہاں منقول ہے؟تواتر کے ساتھ منقول ہے یاخبر واحد کے طورپر؟ یا منقول نہیں؟

(۳)کیااسلاف کرام نے کہیں یہ لکھا ہے کہ جس پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوچکا ہو، اس کو کافر ماننے کے لیے اس کے کفریہ کلام پر مطلع ہونا ضروری ہے؟اگر لکھا ہے تو پیش کیا جائے،نیز یہ بتایا جائے کہ جن مرتدین کے کفریہ اقوال تواتر کے ساتھ منقول نہیں،ان کو اب مومن مانا جائے یا کافر؟اگر مومن مانا جائے تو ایک ہی شخص کا مومن وکافردونوں ہونا لازم آئے گا۔ایمان وکفر ومتضاد صفت ہیں،دونوں کا اجتماع کیسے ہوگا؟

کفر فقہی کے ذریعہ اعتراض نہیں ہوسکتا،کیوں کہ بعینہ اسی کفر فقہی کو متکلمین ضلالت سے تعبیر کرتے ہیں،اس کفر فقہی اور اس ضلالت کا مفہوم یہ ہے کہ ملزم ایمان سے بالکل خارج نہیں،بلکہ اس کا خفیف تعلق اسلام سے باقی ہے،لیکن وہ کامل الایمان نہیں۔

(۴)کسی کی تکفیر کے لیے اس کے کلام پر مطلع ہونا ضروری ہے۔کسی کی تکفیر یہ ہے کہ اس کے قول پرشرعی اصول کی روشنی میں غور کیا جائے اورپھر اس پر حکم کفر عائد کیا جائے۔

جس پر کفر کلامی کا صحیح حکم عائد ہوچکا ہو، علما نے اس تکفیر کوصحیح قرار دیا ہو،اس کو کافر ماننے کے لیے اس کے کفریہ کلام پر مطلع ہونا ضروری نہیں،بلکہ اس پر عائد کردہ حکم کفر کا علم ہونا ضروری ہے۔حکم کفر کے ساتھ اجمالی طورپر وجہ کفر کا ذکر بھی ہوتا ہے۔

دونوں قول کا تعلق کس سے ہے؟

امام اہل سنت کی تحریروں میں تلاش کیا جائے کہ کیا ”المعتمد المستند“میں اشخاص اربعہ کی تکفیر سے قبل یا حسام الحرمین سے قبل مذکورہ دونوں قول کہیں تحریر فرمایا ہے۔ 

امام اہل سنت قدس سرہ القوی کے دونوں قول کا تعلق اس شخص سے ہوگا جس پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوچکا ہو۔کفر فقہی کا حکم عائد ہوا ہو تو یہ حکم نہیں، کیوں کہ کفر فقہی کفر اختلافی کا نام ہے۔

 متکلمین کفر فقہی کو ضلالت وگمرہی سے تعبیر کرتے ہیں۔

امام اہل سنت کاایک قول یہ ہے کہ جو اس کے کفر میں شک کرے،وہ کافر ہے۔

 اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس پر کفر کلامی کا حکم عائدہوچکا ہو،اس پر عائدکردہ حکم کفر پر جو مطلع ہو،وہ اگراس کے کفر میں شک کرے،یا اس کومومن مانے تووہ کافر ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ جو کفریہ عبارات پر مطلع ہو تو اس کے قائل کو کافرمانے۔

قائل کو اسی وقت کافر ماننے کا حکم ہوگا،جب علمائے کرام نے اسے کافر کلامی قرار دے دیا ہو۔اگر علمائے کرام نے حکم کفرنہ دیا ہوتو ہرشخص کفر کلامی کا فتویٰ نافذکرنے کا اہل ہی نہیں،پھرہر شخص کسی کوکافر کیسے مان سکتا ہے۔ 

اگر یہ حکم ان علما کے ساتھ خاص مانا جائے جو کفر کلامی کا فتویٰ دینے کے اہل ہیں تویہ حکم عام نہیں ہوگا،بلکہ علمائے متکلمین کے ساتھ خاص ہوگا،جب کہ ان عبارتوں میں عام حکم بیان کیا گیا ہے۔

 نیز محض قول پر مطلع ہوکر علمائے متکلمین بھی کفر کلامی کا حکم عائد نہیں کرسکتے،جب تک کہ جہات محتملہ یعنی کلام،تکلم ومتکلم سے متعلق بھی احتمال قریب واحتمال بعید معدوم نہ ہو جائیں۔

ہاں،عبارت پر اطلاع سے اطلاع کامل مراد ہوکہ تمام جہات سے ہر قسم کا احتمال معدوم ہوجائے تو علمائے متکلمین اس قول کے قائل کوکافرمانیں گے،لیکن دیگر مومنین کے لیے یہ حکم نہیں ہوگا،بلکہ جب علما ان کوبتائیں گے کہ یہ قائل کافرہے،تب اسے کافر مانیں گے۔
نیز امام اہل سنت نے کفریہ عبارات پر مطلع ہونے کا مفہوم جو بتایا ہے،اس سے اطلاع کی مذکورہ تشریح کی نفی ہوتی ہے۔کفریہ عبارات پر عدم اطلاع سے مراد یہ ہے کہ اس کو ان عبارتوں کا قطعی یاظنی کسی قسم کا علم ہی نہ ہو۔ظنی علم بھی ہوگیا تو یہ کافی ہے۔

”اگر واقع میں کوئی نو وارد یا نرا جاہل یا ناواقف ایسا ہو جس کے کان تک یہ آوازیں نہ گئیں اور وہ بوجہ ناواقفی محض انہیں کافر نہ سمجھا،وہ اس وقت تک معذور ہے جب کہ سمجھانے سے فورا ًحق قبول کر لے“۔(فتاوی رضویہ جلد نہم جز دوم:ص313۔رضا اکیڈمی ممبئی)

جن کو معذور نہیں سمجھا جائے گا،بلکہ کافر سمجھا جائے گا۔ان کا بھی ذکر متعددمقام پر ہے اور اس مقام پر منقولہ بالا عبارت سے پہلے یہ ہے:

''سائل صورت وہ فرض کرتا ہے جو واقع نہ ہو گی جو واقع نہ ہوگی۔دیوبندیوں کے عقائد کفر طشت ازبام ہو گئے۔منکر بننے والے اپنی جان چھڑانے کے لئے انکار کرتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں۔جو منکر ہو،اس سے کہئے۔فتاویٰ موجود وشائع ہیں۔دیکھو کہ کافروں کا کفر معلوم ہو،اور دھوکے سے بچے اور ان کے پیچھے نمازیں غارت نہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دشمنی فرض ہے۔اس فرض پر قائم ہو تو کہتے ہیں۔ہمیں کتابیں دیکھنے کی حاجت نہیں۔یہ ان کا کید ہے۔
ان کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت ہوتی تو جن کی نسبت ایسی عام اشاعت سنتے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دشنام دہندہ ہے،اس سے فوراً خود ہی کنارہ کش ہوتے اور آپ ہی اس کی تحقیق کو بے قرار ہوتے۔

کیا کوئی کسی کو سنے کہ تیرے قتل کے لیے گھات میں بیٹھا ہے،اعتبار نہ آئے تو چل تجھے دکھا دوں۔وہ یوں ہی بے پرواہی برتے گا۔اور کہے گا۔مجھے نہ تحقیقات کی ضرورت,نہ اس سے احتراز کی حاجت۔تو یہ لوگ ضرور مکار اور بباطن انہیں سے انفار۔یا دین سے محض بے علاقہ و بے زار ہوتے ہیں۔ان کے پیچھے نماز سے احتراز فرض ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم،جز دوم:ص 313۔رضا اکیڈمی ممبئی)

توضیح:مذکورہ دونوں اقتباس پر غورکرنے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کفری عقائد پر اطلاع کافی ہے۔ خاص کر کتابوں میں ان لوگوں کی عبارتیں دیکھنا ضروری نہیں۔جاہل مسلمان تو عبارت دیکھ کر بھی اسے پڑھ نہیں سکے گا۔جو عامی پڑھ لے،وہ بھی شرعی حکم بیان نہیں کرسکتا۔

یہاں کافرماننے کی بات ہے، کسی کی تکفیرکا مسئلہ نہیں۔تکفیر ہوچکی۔ تکفیر کے وقت مفتی کو عبارت دیکھنا اور پھر اس بارے میں یہ قطعیت حاصل کرنا ضروری ہے کہ یہ عبارت اسی مصنف کی ہے،اور اس کے علاوہ دیگر شرائط کے تحقق کے بعد حکم کفر نافذکرے گا۔

 طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:22:جنوری 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے