قرآن کریم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر جمیل_ 2

قرآن کریم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر جمیل_ 2
_________________________

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

*ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ•فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ•وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ•وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ•ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ•*
 (القرآن الکریم،الفاطر، آیت:32)
*ترجمہ:* پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے "چُنے ہوئے بندوں" کو کیا،تو ان میں کوئی اپنی جان پر "ظلم کرنے والا"ہے۔ اور ان میں کوئی "درمیانہ راستہ اختیار کرنے والا" ہے۔ اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے حکم سے "بھلائیوں میں سبقت لے جانے والا" ہے۔ یہ ہی بڑا فضل ہے۔

اس آیت مبارکہ میں سب سے پہلے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے"چنے ہوئے بندوں" کواپنی کتاب کا وارث بنایا۔

*"چنے ہوئے بندوں"سے مراد امت محمدیہ علیہ وعلیھم الصلوٰۃ والتحیہ ہے۔کہ امت محمدیہ کو اللہ تعالی نے تمام امتوں پر فضیلت دی ہے۔*

تفسیر خازن میں ہے:
*قال ابن عباس: يريد أمة محمد صلى الله عليه وسلم، لأن الله اصطفاهم على سائر الأمم واختصهم بكرامته بأن جعلهم أتباع سيد الرسل.*
(تفسیر الخازن،ج3،ص456،دارالکتب العلمیہ)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : 
چنے ہوئے بندوں سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نےانہیں تمام امتوں پر فضیلت دی اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ       کی غلامی و نیاز مندی کی کرامت و شرافت سے مشرف فرمایا ۔  

پھر اللہ تعالیٰ نے اس امت محمدیہ کی تین قسمیں فرمائیں۔

(1) *فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ*•ایک وہ جو خدا کی نافرمانیوں سے اپنی جانوں پر ظلم وستم کرتے ہیں۔ جیسے ہم گنہ گار،سیاہ کار۔

(2) *وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ•* دوسرے وہ میانہ رو *"خلطوا عملاً صالحًا و آخَر سیئًا*" جن کی حکایت حال ہے۔کہ اگر گناہ کرتے ہیں تو نیکیاں بھی کرتے ہیں۔

(3-) *وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ* اور تیسرے وہ اعلی درجے کے  مطیع وفرماں بردار ،سراپا اہتدا و رشاد جو نیکیوں کی طرف مسارعت کرتے ہیں اور میدان خیرات میں سبقت لے جاتے ہیں۔  

اور اس آخری گروہ  کے بارے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
*ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ•*
فضل کبیر ان ہی کے لیے ہے۔

تفسیر لباب التاؤیل فی معانی التنزیل معروف بہ تفسیر خازن  میں ہے:
*قال عقبة بن صهبان: سألت عائشة عن قول الله عز وجل { ثم أورثنا الكتاب الذين* *اصطفينا من عبادنا } الآية. فقالت: يا بني كلهم في الجنة۔*
*أما السابق فمن مضى على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وشهد له رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنۃ*
*وأما المقتصد فمن تبع أثره من أصحابه حتى لحق به۔*
*وأما الظالم لنفسه فمثلي ومثلكم، فجعلت نفسها معنا"*
(تفسیر الخازن،ج3،ص457،دارالکتب العلمیہ)

 عقبہ بن صھبان کہتے ہیں ،میں نے اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہا سےاس آیت کے بارے میں پوچھا ،توحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے فرمایا:        

*سبقت لے جانے والے عہدِ رسالت کے وہ مخلص حضرات ہیں،*   جن کے لیے رسولِ کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جنت اور رزق کی بشارت دی۔
 
*اور درمیانہ راستہ اختیار کرنے والے وہ اصحاب ہیں،* جو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے طریقہ پر عمل کرتے رہے۔

*اور اپنی جان پر ظلم کرنے والے* ہم تم جیسے لوگ ہیں ۔

(نوٹ:-یہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف سے انتہائی اِنکساری کا اظہار ہے،ورنہ یقیناً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا گروہ *وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ*  سے ہیں۔)
 
واضح رہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اسی تیسری قسم( *وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ*)  میں داخل ہیں۔اور صحابہ کرام ہی کے لیے "فضیلت عالیہ"ہے اور وہی حضرات، "سادات امت" ہیں۔ 
 کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
*"میری امت میں سب سے افضل میرے صحابہ ہیں۔*
(مسند الحارث، ج2،ص513،رقم835)

آیات کریمہ کی اس مختصر تفسیر کے بعد ،اور اس تصریح کے بعد کہ *وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ*  سے گروہ صحابہ مراد ہیں۔

اب آئیے اس ذات بابرکات کو جاننے کی کوشش کریں،جو جماعت صحابہ میں اس وصف عظیم سے نہ صرف یہ کہ  سرفراز ہیں،بلکہ گروہ صحابہ میں اس وصف عظیم کے ساتھ ممتاز وفائق ہیں۔ کہ بحکم آیت *"فضیلت کبری"*  اسی ذات کے لیے ہے۔
 
 احادیث نبویہ جو قرآن کی تفسیر بھی ہیں ان کے مطالعہ سے اس طرف رہنمائی ملتی ہے کہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات کو اس وصف( *سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ* ) میں پوری جماعت صحابہ پر تفوق و تقدم ہے۔ 
 اور آپ کی ذات مبارکہ دور صحابہ میں ہی اس وصف عظیم سے اتصاف کی وجہ سے *"سباق بالخیر"* سے معروف ومشہور  ہے۔

لہذا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہی *"جماعت سابق بالخیرات"* کے امیر وسردار ہیں۔
اور بحکم آیت *"فضیلت کبری"* حضرت صدیق اکبر ہی کے لیے ہے۔

*دلائل ملاحظہ ہوں:*

مسند ابی یعلی میں ہے:
*عن ابن مسعود رضي الله تعالى عنه،قال: كنت في المسجد أصلي فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبوبكر ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :سل تعط، ثم قال:من أحب أن يقرأ القرآن غضا فليقرأه كما يقرأ بن أم عبد.قال:فرجعت إلى منزلي، فأتاني أبو بكر ،فبشرني.ثم أتاني عمر ،فوجد أبا بكر خارجا قد سبقه. فقال:إن فعلت "إنك لسباق بالخير ".*
(مسند ابی یعلی،ج1،ص26،رقم17)

حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
 میں مسجد میں نماز پڑھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضور کے ہم راہ صدیق و فاروق تھے۔پس  حضور نے مجھے دعا کرتے پایا، فرمایا: مانگ تجھے دیا جائے گا۔پھر فرمایا:جو شخص قرآن کو تروتازہ پڑھنا چاہے وہ ابن ام عبد یعنی  عبداللہ بن مسعود کی قراءت پر پڑھے ۔ بعدہ میں اپنے گھر لوٹ آیا۔
صدیق آئے اور مجھے اس دولت عظمیٰ کے حصول اور حضور کے ان کلمات ارشاد کا مژدہ دیا، پھر فاروق آئے،تو ابوبکر کو نکلتے پایا کہ پہلے ہی خوش خبری دے چکے ہیں۔پس عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صدیق سے کہا:
بے شک آپ *"سباق بالخیر"* اور نیکیوں میں نہایت پیشی لے جانے والے ہیں۔

صحیح البخاری میں ہے:
*عن ابن عباس،عن عمر: ليس فيكم من تقطع الاعناق اليه مثل أبي بكر.*
(صحیح البخاری،ج2،ص613)
*قال في مجمع البحار: أي، ليس فيكم سابق الخيرات يقطع أعناق مسابقيه حتى يلحقه.* 


 حاصل یہ کہ تم میں یہ شان "سبقت بالخیرات"کی صدیق ہی  میں ہے کہ جو ان سے فضائل و حسنات میں مسابقت کرے ،پیچھے رہ جائے اور ان تک نہ پہنچنے پائے۔

تاریخ بغداد میں ہے:
*عن عبد الرحمن بن ابي بكر رضي الله تعالى عنهما،قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"حدثني عمر بن الخطاب انه ما سابق ابا بكر إلى خير إلا سبقه ابوبكر"*۔
(تاریخ بغداد،ج1ص761،رقم2463)

حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مجھ سے عمر بن خطاب نے بیان کیا کہ اس نے جب کسی خیر میں ابو بکر سے مسابقت کی ہے،ابو بکر اس پر سبقت لے گیا۔

امام طبرانی کی المعجم الاوسط  میں ہے:
*عن امير المؤمنين علي رضي الله تعالى عنه قال:والذي نفسي بيده مااستبقنا إلى خير قط إلا  سبقنا اليه ابو بكر.*
(المعجم الاوسط،ج4،ص421،رقم 7168)

حضرت مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے ہیں:
 قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ہم نے کبھی کسی خیر و نیکی کی طرف ایک دوسرے سے بڑھ جانا نہ چاہا، مگر یہ کہ ابوبکر ہم سے اس کی طرف سبقت و پیشگی  کر گئے۔

ان احادیث مبارکہ کو آپ بغور دوبارہ پڑھیں ،آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ:

"حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی  گروہ صحابہ میں سب سے پہلے نیکیوں کی طرف بڑھتے ،اور تمام صحابہ پر سبقت لے جاتے"
یہی نہیں بلکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو "سباق بالخیر" فرمایا،
اور اس قول کوخود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  محبت کے ساتھ نقل فرمایا:
*"حدثني عمر بن  الخطاب أنه ما سابق ابا بكر الى خير إلا سبقه ابو بكر."*
"ہم سے عمر بن الخطاب کہتا تھا ،ہمارا ابوبکر سباق بالخیر ہے۔"
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز ارشاد پر قربان جائیں۔ساری دنیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پاک کی روایت کرتی ہے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو دلیل و حجت بناتی ہے۔اور یہاں خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کس پیار سے فرماتے ہیں۔
*حدثنی عمر بن الخطاب.......*
(ہم سے عمر بن الخطاب کہتا تھا......)

*لہذا معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی "قافلہ سابق بالخیرات" کے امیر و سالار ہیں۔اور آپ ہی کے لیے تمغہ "فضیلت کبری" ہے۔*
*✍️ محمد شاہد رضا مصباحی۔ہزاری باغ*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے