_________________________
*ترتیب:* مولانا محمد امین الدین مصباحی،رام گڑھ۔مرکزی دار القراءت۔جمشید پور
_________________________
یار غار رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمیدہ وجلیلہ میں سے نمایاں وصف *تواضع و انکساری* اور خدمت خلق ہے -
*تواضع و خاکساری* کے حوالے سے بات کی جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اعلیٰ درجے کے متواضع اور خاک سار تھے , کسی کام سے آپ کوعار محسوس نہیں ہوتا تھا-
آپ کپڑے کی تجارت کرتےتھے ۔خلیفہ ہونے کے بعد بھی حسب معمول ایک مرتبہ کندھے پر کپڑوں کے تھان رکھ کر بازار کی جانب روانہ ہو ۓ, راستے میں حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو عبیدہ سے ملاقات ہوئی۔
انھوں نے کہا "اے خلیفہ رسو ل! کہاں "؟ .بولے "بازار"- انھوں نے کہا :
"اب آ پ مسلمانوں کے حا کم ہیں چلیے! ہم آ پ کے لیے کچھ وظیفہ مقرر کر دیں گے۔"(طبقات ابن سعد, ج:3,ص:98.)
لیکن بخاری کی روایت ہے کہ جب خلافت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ اپنا ذاتی کام نہ کر سکے ،تو صحابہ سے فرمایا میری قوم جانتی ہے کہ میرا پیشہ میرے اہل وعیال کا بار اٹھانے سے قاصر نہ تھا اور اب میں مسلمانوں کے کام میں مصروف ہو گیا ہوں, اب میں مسلمانوں کے لیے تجارت کروں گا اور آل ابوبکر اس مال سے کھائیں گے -صحابہ نے اسے منظور کر لیا -(مصدر سابق)
تواضع کی انتہا یہ تھی کہ لوگ جانشین رسول کی حیثیت سے تعظیم و توقیر کرتے تھے تو آ پ کو تکلیف ہوتی اورفرماتے :
"مجھے لوگوں نے بہت بڑھا دیا ہے۔"
کوئی مدح و ستائش کرتا تو فرماتے :
" اے اللہ تو میرا حال مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور میں اپنی کیفیت ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔خدایا! تو ان کے حسن ظن سے مجھ کو بہتر ثابت کر, میرے گناہوں کو بخش دے اور لوگوں کی بےجا تعریف کا مجھ سے مواخذہ نہ کر۔
(اسد الغابہ, ج:3,ص:323.)
غایت تواضع سے تکبر و غرور کی علامات سے بھی خوف زدہ ہوتے۔ایک روز رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
*"جوشخص تکبر سے اپنا کپڑا کھینچتے ہوئے چلتا ہے, قیامت کے روز خدا اس کی طرف نگاہ نہ فرمائےگا۔"*
حضرت ابوبکر نے عرض کی:
"میرا دامن بھی کبھی کبھی لٹک جا تا ہے۔
ارشاد ہوا:
*تم تکبر سے ایسا نہیں کرتے - "*
*خدمت خلق*
خدمت خلق کے حوالے سے بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نمایاں کردار کے حامل نظر آتے ہیں -
خلق خدا کی نفع رسانی اور خدمت گزاری میں ان کو خاص لطف حاصل ہو تا تھا, اکثر محلہ والوں کے کام کر دیا کرتے, بیماروں کی تیمارداری فرماتے اور اپنے ہاتھ سے ضعیف و ناتواں اشخاص کی خدمات انجام دینے میں ہمیشہ پیش پیش پیش رہتے تھے۔
اطراف مدینہ میں ایک ضعیف ونابینا عورت تھی۔حضرت عمر فاروق روز علی الصباح اس کےجھونپڑے میں جاکر ضروری خدمات انجام دیتے تھے، کچھ دنوں کے بعد انھوں محسوس کیا کہ کوئی شخص ان سے بھی پہلے اس کار خیر سے بہرہ یاب ہو جاتا ہے۔
ایک روز بہ نظر تفتیش کچھ رات رہتے ہوئے آۓ، تودیکھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس ضعیفہ کی خدمت گزاری سے فارغ ہو کر جھونپڑے سے باہر نکل رہے ہیں۔
بولے : *انت لعمری يا خليفةرسول الله!*
اے خلیفہ رسو ل! قسم ہے کہ روز آ پ ہی سبقت کر جاتے ہیں (اسد الغابہ, ج:3,ص:325.)
آ پ اکثر بھیڑ بکریاں تک خود ہی چرا لیتے اور محلہ والوں کی بکریاں دوھ دیتے تھے۔
چناں چہ جب منصب خلافت کے لیے آپ کا انتخاب ہواتو سب سے زیادہ محلہ کی ایک لڑکی کو فکر لاحق ہوئی اور اس نے تاسف آمیز لہجے میں کہا :
" *اب ہماری بکریاں کون دوہے گا "*
حضرت ابوبکر نے سنا تو فرمایا :
*"خدا کی قسم! بکریاں میں دوہوں گا ,امید ہے کہ خلافت مجھے مخلوق کی خدمت گزاری سے باز نہ رکھے گی "*
(طبقات ابن سعد, ج:3,ص :99)
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں