Header Ads

کریڈٹ کارڈ (Credit Card) کا شرعی حکم

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚کریڈٹ کارڈ (Credit Card) کا شرعی حکم📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*سوال نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔:*
1- کریڈٹ کارڈ (Credit Card) کا مختصر تعارف بیان کیجیے؟ 
2- کریڈٹ کارڈ (Credit Card) کی شرعی حیثیت بالخصوص فتاوی رضویہ کی روشنی میں بیان کیجیے ؟ 
سائل : محمد شاہد قادری انڈیا
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:*
*کریڈٹ کارڈ کا مختصر تعارف :*
کریڈٹ کارڈ کو اعتمادی کارڈ بھی کہتے ہیں.
کریڈٹ کارڈ بینک کے ذریعے جاری شدہ ایک چھوٹا سا مطبوعہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر اجازت یافتہ دوکان، آفس یا ہوٹل وغیرہ سے ضرورت کے سامان، رہائش کی سہولتیں، ہوائی جہاز کے ٹکٹ وغیرہ حاصل کئے جاتے ہیں.
جس دوکاندار کو بینک کے ذریعے یہ کارڈ قبول کرنے کی منظوری حاصل ہوتی ہے، اس کے پاس ایک مشین ہوتی ہے جس میں وہ کارڈ کو ڈال کر اس کی کاربن کاپی نکالتا ہے، پھر اس پر *’’دستخط خریدار‘‘* کے خانے میں صاحب کارڈ سے دستخط کراتا ہے اور اسے بل کے ساتھ منسلک کرکے کارڈ جاری کرنے والے بینک کو بھیجتا ہے، تو بینک سے بذریعہ ڈرافٹ اسے رقم موصول ہو جاتی ہے۔ 
اب صاحب کارڈ کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ ایک ماہ کے اندر بذریعہ چیک یا نقد بینک کو بل کا دام ادا کرے، اگر ایک ماہ میں پوری ادائیگی نہ ہوسکے تو کم ازکم بقایہ کا 5% فیصدی ضرور ادا کرے اس صورت میں باقی *%95 (پچانوے فیصد)* رقم کا سود ادا کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی *’’سروس چارج‘‘* کے نام پر *سو (100) روپے* جرمانہ بھی دینا پڑے گا، کارڈ کی *سالانہ فیس* جو *750* یا *1100* روپے ہے، اس کے سوا ہے. 
کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کارڈ جاری کرنے والے بینک یا اس کے معاون بینکوں سے نقد روپے بھی بآسانی مل جاتے ہیں، البتہ اس پر ہر ماہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔
 سامان وغیرہ کی *’’ادھار بل‘‘* اور بینک سے *’’نقد روپے لینے‘‘* میں فرق یہ ہے کہ نقد لینے پر بہرحال سود دینا پڑے گا، اگرچہ اسے ایک ماہ کے اندر ہی ادا کر دیا جائے، لیکن ادھار خریداری کی صورت میں ایک ماہ کے اندر بل ادا کر دینے پر سود نہیں دینا پڑے گا۔
کارڈ پر کئے جانے والے اخراجات لامحدود نہیں ہوتے بلکہ بینک اپنی صواب دید کے مطابق اس کی حد مقرر کر دیتا ہے، مثلاً *(5000)* پانچ ہزار روپے۔ یونہی کارڈ کے ذریعے بینک سے جو روپے لئے جاتے ہیں، اس کی بھی ایک حد مقرر ہوتی ہے مثلاً *(10000)* دس ہزار روپے۔
کریڈٹ کارڈ *"سٹی بینک (City Bank)"* جاری کرتا ہے لیکن یہ سہولت تقریباً حکومت کے ہر بینک سے یوں مل جاتی ہے کہ وہ ایک فارم پر کرکے سٹی بینک کو بھیجتا ہے اور سٹی بینک فارم بھیجنے والے بینک کی طرف سے *"درخواست دہندہ"* کے نام کارڈ جاری کر دیتا ہے جو اسے بینک سے وصول ہو جاتا ہے۔
*(جدید بینکاری صفحہ 82,83 بتغیرِِ)*
2- *کریڈٹ کارڈ کی شرعی حیثیت فتاوٰی رضویہ کی روشنی میں:*
کریڈٹ کارڈ کے تعارف سے یہ بات سامنے آئی کہ بینک کارڈ ہولڈر کو کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ تین طرح کی سہولتیں مہیا کرتا ہے :
1- ادھار بل کی ضمانت 
2- کارڈ ہولڈر (صاحبِ کارڈ) کی طرف سے ادھار بل کی ادائیگی
3- قرض کی حیثیت سے نقد روپیوں کی فراہمی
*1- ادھار بل کی ضمانت :* 
اس شق میں بینک کا بنیادی کردار یہ ہے کہ وہ دوکاندار کو کارڈ ڈیلر کے ادھار بل کا دام ادا کرنے کی ضمانت لیتا ہے اور ثبوت کے طور پر یہ کارڈ جاری کرتا ہے تو یہ معاملہ *"باہم ضمانت کا معاہدہ‘‘* ہے اور کارڈ ضمانت کی سند ہے۔ 
ضمانت شرعی نقطہ نظر سے جائز ہے لیکن یہاں ضمانت کے ساتھ دو ناجائز شرطیں ہیں، جس کی وجہ سے ناجائز و گناہ ہے. 
وہ دو ناجائز شرطیں یہ ہیں :
1- قیمت کی ادائیگی میں ایک ماہ کی دیر ہو جائے تو کارڈ ڈیلر (یعنی صاحب کارڈ) کو سود ادا کرنا پڑتا ہے اور سود یقینا حرام وگناہِ کبیرہ ہے.
چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: 
*"واحل اللہ البیع وحرم الربوا"*
یعنی اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو.
 *(پارہ 3 سورۃ البقرہ آیت نمبر 275)* 
حدیث مبارکہ میں ہے: 
*"لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم اکل الربوا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ قال و ھم سواء"*
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ : یہ تمام لوگ برابر ہیں.
*(صحیح مسلم کتاب البیوع باب الرباء جلد2 صفحہ27, مشکوۃ صفحہ 244 مکتبہ قدیمی کتب خانہ کراچی)*
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"قرض دیا اور ٹھہرا لیا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لے گا جیسا کہ آج کل سود خوروں (سود کھانے والوں) کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں، یہ حرام ہے یونہی کسی قسم کے نفع کی شرط کرے، ناجائز ہے".
*(بہار شریعت جلد دوم, حصہ 11, مسئلہ نمبر21 ,صفحہ 759 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
2- دیر کی وجہ سے جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے جو ناحق اپنے مال کا ضائع کرنا اور ناجائز و گناہ ہے۔
چنانچہ سیدی اعلحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں"۔ 
درمختار میں ہے:
*"لاباخذ مال فی المذھب بحر۔"*
یعنی مال لینے کا جرمانہ مذہب کی رُو سے جائز نہیں ہے۔ بحر
 اُسی میں ہے:
*"وفی المجتبٰی انہ کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ"*
یعنی اور مجتبٰی میں ہے کہ (مالی جرمانہ) ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ کردیا گیا.(ت) 
(درمختار باب التعزیر جلد اول صفحہ 326 مطبوعہ مجتبائی دہلی)
ردالمحتار میں بحر سے ہے: 
*"وافاد فی البزازیۃ، ان معنی التعزیر باخذ المال، علی القول بہ، امساک شیئ من مالہ عندہ مدۃ لینزجر، ثم یعیدہ الحاکم الیہ، لا ان یاخذہ الحاکم لنفسہ اولبیت المال، کمایتوھمہ الظلمۃ، اذلایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی"* 
یعنی اور بزازیہ میں افادہ کیا ہے کہ مالی تعزیر کا قول اگر اختیار کیا بھی جائے تو اس کا صرف اتنا ہی مطلب ہے کہ اس کا مال کچھ مدّت کے لئے روک لینا تاکہ وہ باز آجائے، اس کے بعد حاکم اس کا مال لوٹادے، نہ یہ کہ حاکم اپنے لیے لے لے یا بیت المال کیلئے، جیسا کہ ظالم لوگ سمجھتے ہیں، کیونکہ شرعی بسبب کے بغیر کسی کا مال لینا مسلمان کے لئے روا نہیں۔(ت)
(ردالمحتار باب التعزیر جلد سوم صفحہ 195,مطبوعہ مصطفی البابی مصر)
*(فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 111 ,112 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*نوٹ :* البتہ اگر کسی شخص کا عزمِ مصمم ہو کہ وہ ایک ماہ کے اندر سود لازم ہونے سے پہلے ہی کریڈٹ کارڈ کی رقم لوٹا دوں گا تب بھی سودی معاملہ طے کرنے اور اس پر راضی ہونے کی وجہ سے یہ ناجائز ہی ہوگا کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ اگر مقررہ مدت تک رقم جمع نہ کروائی تو اضافی رقم یعنی سود دینا ہوگا، گویا کریڈٹ کارڈ لینے والا یہ عہدوپیمان کر رہا ہے کہ اگر وقتِ مقررہ پر رقم جمع نہ کروائی تو اس پر اضافی رقم یعنی سود دوں گا اور سود کا لین دین تومطلقاً حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے .
چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"ملازمت بلا اطلاع چھوڑ کر چلے جانا اس وقت تنخواہ قطع کرے گا نہ تنخواہ واجب شدہ کو ساقط اور اس پر کسی تاوان کی شرط کر لینی مثلا نوکری چھوڑنا چاہے تو اتنے دنوں پہلے سے اطلاع دے ورنہ اتنی تنخواہ ضبط ہوگی یہ سب باطل و خلاف شرع مطہر ہے پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقداجارہ میں لگائی گئیں جیسا کہ بیانِ سوال سے ظاہر ہے کہ وقت ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لیے جاتے ہیں یا ایسے شرائط وہاں مشہور و معلوم ہوکر المعروف کالمشروط ہوں جب تو وہ نوکری ہی ناجائز وگناہ ہے کہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا اور عقدِ فاسد حرام ہے اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب ہے اور اس صورت میں ملازمین تنخواہ مقررہ کے مستحق نہ ہوں گے بلکہ اجرِ مثل کے جو مشاہرہ معینہ سے زائد نہ ہوں اجرِ مثل اگر مسمی (مقررہ) سے کم ہو تو اس قدر خود ہی کم پائیں گے اگرچہ خلاف ورزی اصلاً نہ کریں". 
*(فتاوی رضویہ جلد 19 صفحہ 506,507 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*کارڈ ہولڈر (یعنی صاحبِ کارڈ) کی طرف سے ادھار بل کی ادائیگی :*
بینک کا دوسرا کردار یہ ہے کہ وہ کارڈ ہولڈر (یعنی صاحبِ کارڈ) سے روپے وصول کرتا ہے اور اس کے بل کی قیمت ادا کرتا ہے، اور اپنی اس خدمت کے بدلے سالانہ اس سے 750 روپے یا 1100 روپے فیس لیتا ہے، یہ فیس حقیقت میں بینک کے کام کی مزدوری ہے, جس کا لینا دینا شرعا جائز ہے مگر یہاں بھی وہی سود اور جرمانہ کی قباحت موجود ہے کہ بینک کی یہ تمام خدمات اس کی ضمانت کے تابع ہیں اور اس کو ضامن بنانا سود و جرمانے کی شرط کی وجہ سے ناجائز ہے۔
*قرض کی فراہمی :*
کارڈ کے ذریعے ضرورت کے وقت بینک سے قرض کی حیثیت سے روپے بھی وصول کئے جاتے ہیں جس پر بینک سود لیتا ہے تو یہ سہولت بھی سود کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے.
چنانچہ سیدی اعلحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : 
ﷲ عزوجل فرماتا ہے:
*"یٰایھاالذین اٰمنوا اتقوا ﷲ و ذروا ما بقی من الربوٰ، فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من ﷲ ورسولہ"*
اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرو اور جو سود باقی رہا چھوڑ دو پھر اگر ایسا نہ کرو تو ﷲ ورسول سے لڑائی کا اعلان کردو یعنی ﷲ و رسول سے لڑنے کو تیار ہوجاؤ اگر سود نہیں چھوڑتے۔(القرآن الکریم 2/ 79۔278)
خالد پر ایک حبہ سود کا لینا حرام ہے۔
حدیث میں فرمایا :''جس نے دانستہ ایک درہم سود کا لیا اس نے گویا چھتیس بار اپنی ماں سے زنا کیا''۔
بکثرت احادیث صحیحہ میں ہے کہ سود تہتر گناہوں کا مجموعہ ہے 
*"ایسرھا مثل ان ینکح الرجل امہ"* 
ان سب میں ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔ 
(المستدرک للحاکم کتاب البیوع دارالفکر بیروت 2/ 37)
صحیح حدیث میں ہے :
*"لعن رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اٰکل الربوٰ و مؤکلہ و کاتبہ و شاہدیہ و قال ھم سواء"*
لعنت فرمائی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے سود لینے والے اور کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہیاں کرنے والوں پر، اور فرمایا وہ سب برابر ہیں.
(صحیح مسلم کتاب المساقاۃ والمزارعۃ باب الربوٰ جلد دوم صفحہ 27 , قدیمی کتب خانہ کراچی)
*(فتاوی رضویہ جلد 17 صفحہ 363 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ کی مروجہ صورت حال ناجائز و گناہ ہے لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔
*نوٹ :* اس جواب کو لکھنے میں محققِ مسائلِ جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی مدظلہ العالی کی کتاب *"جدید بینکاری"* سے کافی استفادہ کیا گیا ہے. 
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*✍️ کتبـــــــه: ابواسید عبید رضا مدنی*
03068209672

*✅ تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحيح والمجيب نجيح 
*فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. جواب میں کچھ باتیں رہ گئی ہیں کیونکہ اگر کریڈٹ کارڈ کمپنی غیر مسلم تب بھی سود ہوگا کیا ؟

    جواب دیںحذف کریں

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں