-----------------------------------------------------------
🕯️وہ ایک جملہ جس نے معاشرے میں گمراہی و تعصب کو جنم دیا🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 نقل اخبار کے باب میں ہمارے معاشرے میں ایک جملہ جو کثرت سے مختلف تعبیرات کے ساتھ بولا جاتا ہے وہ ہے " مستند کتب" ، یا " معتبر کتب" میں آگیا ، یا " اتنے بڑے عالم نے" ، یا " ہمارے بزرگوں " نے ، یا" ہمارے پیر " نے بیان کیا ہے ہمارے لیے یہی کافی ہے۔
یہ وہ جملہ ہے جس نے معاشرے کے در و دیوار میں تعصب و شدت و نفرت کو جنم دیا ،
تاریخ إسلامی میں نقل اخبار و أحادیث و آثار و أقوال کے باب میں کوئی کتاب فی ذاتہ یا کسی عالم کی وجہ سے معتبر و مستند نہیں ہوتی ،
أگر کوئی ایسی کتاب ہے جو أپنی ذات میں نقل کے باب میں معتبر و مستند ہو وہ صرف" قرآن مجید" ہے ،
قرآن مجید میں جو آگیا أسکو ہم مطلقاً کہ سکتے ہیں کہ یہ قرآن کریم میں ہے لہذا صحیح ہے لیکن یہ شان تاریخ اسلامی میں قرآن کریم کے علاوہ باقی کسی کتاب کو حاصل نہیں،
لہذا کسی بھی بات کو معتبر ماننے کے لیے اتنا کافی نہیں ہوتا کہ وہ معتبر یا مستند یا بڑے عالم نے کہا ہے بلکہ أسکی صحت کا معیار صحت نقل پر ہوتا ہے،
أگر سند صحیح ہے تو وہ بات معتبر مانی جاتی ہے چاہے وہ کسی بھی کتاب میں ہو ،
أگر أسکا طریق نقل صحیح نہیں یعنی سند صحیح نہیں تو وہ جتنی بھی معتبر و مستند کتاب میں آجائے یا جتنا بھی بڑا إمام أسے بیان کرے وہ بات صحیح نہیں مانی جاسکتی،
پھر صحت نقل کے بعد صحت متن آتا ہے کہ کیا وہ متن شریعت کے أصول مسلمہ ( قرآن کریم و سنت متواترہ) کے خلاف تو نہیں أگر نہیں تو تب قبول ہے وگرنہ مرفوض ہے أگر جمع ممکن نہیں ،
لہذا نہ تو صرف کتاب کسی بات کی صحت کا معیار ہوتی ہے أور نہ ہی مجرد کسی عالم کا اسکو بیان کرنا صحیح بناتا ہے،
دو مثالوں سے سمجھیں:
إمام بخاری و إمام مسلم کی صحیح کے علاوہ بھی دیگر کتب ہیں
لیکن علمائے کرام نے صرف صحیح بخاری و صحیح مسلم پہ ہی اعتبار کیا أور وہ بھی ساری احادیث پر نہیں بلکہ مرفوع احادیث پہ یا معلقات جازمہ پہ ( اس میں بھی بعض نے اختلاف کیا درجے کے اعتبار سے) ،
مطلب إمام بخاری و مسلم کی وجہ سے وہ اعتبار نہیں کررہے بلکہ اس میں وہ احادیث جن اسانید کی بنیاد پہ آئیں اس اعتبار سے أسکو مستند بنارہے ہیں أگر صرف صحیح بخاری و مسلم کی وجہ سے مستند ماننا ہوتا تو اس میں وارد ہونے والے ہر قول کو معتبر مانتے،
أور امام بخاری و مسلم کی وجہ سے کتاب کو مستند و معتبر ماننا ہوتا تو إمام بخاری و مسلم کی سب کتابوں کو مستند مانتے لیکن کسی نے بھی کسی بھی بات کی صحت کے لیے باقی کتابوں کو مستند و معتبر نہیں کہا کہ أنکی فلاں کتاب میں بات نقل ہوچکی ہے لہذا صحیح ہے بلکہ ان کتابوں میں جو کچھ آیا ہے اسکو سند پہ پرکھا جائے گا أسکے بعد معتبر مانا جائے گا۔۔۔
جب ہم اس فرق کو نہ سمجھ سکے تو ہم نے دوسروں پر أپنی بات کا رعب بٹھانے کے لیے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ بات فلاں"معتبر کتاب" یا "مستند کتاب" میں آگی ، یا فلاں" بڑے عالم" نے بیان کیا ہے حالانکہ اسکو یہ معلوم نہ تھا یہ مقولے کسی بات کو معتبر و مستند نہیں بناتے.
إسی طرح آپ امام محمد کی کتابوں کو لے لیں جو مقام کتب ظاہر روایہ کو حاصل ہے نقل أقوال إمام أبی حنیفہ کے اعتبار سے وہ أنکی دیگر کتب کو نہیں حالانکہ سب کا مصنف ایک ہی ہے تو سؤال ہے کہ سب کا درجہ ایک کیوں نہیں؟
جواب ہے کہ سند کی صحت و درجے میں فرق ہے إسی لیے کتب کے مستند ہونے میں بھی فرق ہے،
لہذا کسی بھی بات کا معیار سند و متن ہے کتب و عالم نہیں ہاں أگر صاحب کتاب أپنی سند سے بیان کررہا ہے تو سب سے پہلے اس کتاب کی بھی صحت سند کو پرکھنا ہوتا ہے کہ یہ کتاب ثابت بھی ہے یا مشکوک نسبت ہے .
خلاصہ کلام :
نقل اخبار و أحادیث و آثار و أقوال کی صحت کو پرکھنے کے لیے درج ذیل مراحل ہیں:
1-نسبت کتاب کی تحقیق
جس کتاب سے آپ لے رہے ہیں کیا وہ کتاب اس مصنف کی ہے بھی یا نہیں؟
اگر ہے تو کیا اس میں کوئی تحریف و تلاعب تو واقع نہیں ہوا ؟
إسی لیے جب محقیقین بولتے ہیں کہ یہ معتبر کتاب ہے أنکا مقصود ہوتا ہے کہ اس کتاب کے مؤلف و مصنف کی طرف جو نسبت ہے اس میں شک نہیں ہے یعنی ثابت ہے کہ یہ انہیں کی کتاب ہے لیکن أنکا مقصود یہ نہیں ہوتا کہ اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ بھی معتبر ہے .
2-صاحب کتاب کا درجہ
کتاب ثابت ہونے کے بعد صاحب کتاب کا درجہ دیکھا جاتا ہے -أگر وہ أپنی اسانید سے لارہا ہے -کہ کیا وہ خود ثقہ ہے یا نہیں؟
أگر وہ أپنی اسانید سے نہیں لارہا بلکہ نقل کررہا ہے تو جب تک نقل کی صحت سند و متن معلوم نہ ہو جائے اس پہ اعتبار نہیں کیا جاسکتا. 3-کتاب میں وارد ہونے والی أحادیث و اخبار و آثار و أقوال کی تحقیق سند أگر مؤلف ثقہ ہے تو اب مؤلف کے بعد جو سند آرہی ہے اسکو چیک کریں کے اسکا معیار کیا ہے؟ أگر سند ضعیف ہے تو کسی صحیح سند یا ایسی سند سے جو تقویت دے شواہد موجود ہیں یا نہیں؟
أگر شواہد موجود ہوں تو عمل کیا جائے گا وگرنہ نہیں الا کہ فضائل کے باب میں وہ بھی شروط کے ساتھ جنکو علامہ ابن حجر العسقلانی نے نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر میں بیان کیا ہے.
أور أگر موضوع ہے أور أسکے بغیر سند موضوع کے شواہد نہیں ہیں یا کوئی أور تابع نہیں تو مطلقاً مردود ہے.
أگر مؤلف خود ضعیف ہے تو أسکی سند دیگر کسی کتاب سے تلاش کریں أگر مل جائے تو صحت و ضعف کے اعتبار سے تحقیق کریں أگر نہ ملے تو توقف کریں .
4-متن
سند کی صحت کے بعد متن کے معیار کی دیگر نصوص متواترہ کی بنیاد پہ جانچ پڑتال کریں کہ کہیں وہ متعارض تو نہیں؟
أگر متعارض نہ ہو تو عمل کریں أگر متعارض ہے تو دیکھیں گے کہ کیا دونوں میں جمع ممکن ہے یا نہیں؟
أگر جمع ممکن ہے تو عمل ہوگا أگر نہیں تو نصوص متواترہ پہ عمل ہوگا باقی پہ نہیں .
کسی بھی بات کو نقل کرنے سے پہلے ان امور کی تحقیق مکمل کریں تو بہت کم لوگ بچیں گے جو گفتگو کے لیے أپنے لبوں کو حرکت دیں گے نہیں تو ہمارے ہاں حاطب لیل (بغیر تحقیق کے باتوں کو بیان کرنے والوں) کی کمی نہیں ہے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم✍️ ابن طفیل الأزہری "محمد علی"
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں