آیات ‏انقلاب / چریاکوٹی ‏

الغنی پبلشرز کراچی پاکستان سے طبع ہونے والی کتاب

قرآن مقدس کے خلاف ھرزہ سرائی کرنے والے خسر الدنیا والآخرۃ کے مصداق بدبخت آئیں اور قرآنِ حکیم کی سدا بہار سلاست و روانی، جاودانی و نور فشانی، اِعجاز بیانی و کیف سامانی، دل نشینی اور اِنقلاب و اَثر آفرینی کے جلوے دیکھیں۔ ان نادانوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ قرآن خود بدلنے نہیں بلکہ لوگوں کو بدلنے کےلیے آیا ہے۔ سچ ہے؎

ھے قول محمد قول خدا فرمان نہ بدلا جائے گا
بدلے گا  زمانہ  لاکھ  مگر  قرآن نہ بدلا جائے گا

قرآن کریم ایک زندۂ جاوید معجزۂ اِلٰہی ہے۔ اِس کے اَنوارو تجلیات کا سورج ہر عہد کی ہتھیلی پر پوری تب و تاب کے ساتھ چمکا۔ اور اس کے فیوض وبرکات کی برکھا ہردور میں اَبر بارندہ کی مانند برسی، آج بھی برس رہی ہے اور فیض بخشی کا یہ سلسلہ زرّیں صبح قیامت تک یوں ہی جاری وساری رہے گا۔ قرآنِ مقدس کی ہر آیت' ہدایت کا ایک روشن باب ہے۔ اور ہر باب' اولوا الالباب پر ہر روز نئی آن، اور نئی شان سے عیاں ہوتا چلا جارہا ہے۔

یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کی تلاوت' خشیت الٰہی بھی پیدا کردیتی ہے، اور سوزِ دروں بھی۔ یہ قلبی سرور کا باعث بھی ہوتی ہے اور ذوقِ سماعت کے لیے وجد آفریں بھی۔ اور پھر ان پر مستزادیہ کہ اس کا صوتی جمال' روح و بدن میں سرشاری کی لہردوڑا دیتاہے۔ بلاشبہہ قرآن کریم جلال و جمال کا عدیم النظیر اِمتزاج ہے۔ 

قرآن مجید میں جہاں جنتیوں کے لیے دیگر اِنعاماتِ وافرہ اورعنایاتِ ربانیہ کا ذکر ہے وہیں اس کے صوتی جمال کی نعمت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے، ارشاد ہوتاہے:

اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُونَ o (سورۂ زخرف:٧٠)

تم اور تمہارے اَزواج جنت میں داخل ہوجائوجہاں تمہیں نغمے سنائے جائیں گے۔
جنت میں جہاں باغ وبہار، روانی اَنہار، شادابی اَشجار، لولوومرجان، اور حوروقصور ہوںگے،وہاں مسرور کن پاکیزہ نغمے بھی فردوسِ گوش ہوں گے۔ کیا بعید کہ 'تُحبَرُون' سے مراد قرآن حکیم کے صوتی جمال سے تواضع مراد ہو؛ کیوں کہ اِس دنیا میں جن خوش بخت اَرواح نے قرآن کے حسن وجمال اور اس کی تلاوت کو اپنی غذا بنالیا ہے وہ وہاں کسی اور نغمے کے طالب کیوں کر ہوسکتے ہیں!۔

تلاوتِ قرآن سے اہل ایمان اور اَصحابِ علم پر جو تأثر وارد ہوتاہے، اس کا ذکر خود قرآن نے مندرجہ ذیل آیت میں کردیاہے  :

تَقْْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَونَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ لٰی ذِکْرِ اللّٰہِ o (سورۂ زمر:٢٣٣٩)

جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں(اور رِقت کے ساتھ)اللہ کے ذکر کی طرف(محو ہو جاتے ہیں)۔

یہی مضمون سورۂ بنی اسرائیل میں کچھ یوں بیان ہواہے  :

اِنَّ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ یَخِرُّونَ لِلاَذْقَانِ سُجَّدًا ، وَ یَقُولُونَ سُبْحٰنَ رَبِّنَا اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً ، وَ یَخِرُّونَ لِلاَذْقَانِ یَبْکُونَ وَ یَزِیْدُہُمْ خُشُوعاًo  (سورۂ بنی اسرائیل: ١٠٧١٧تا١٠٩)

بے شک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ(کتاب) عطا کیاگیاتھا جب یہ (قرآن) انھیں پڑھ کر سنایاجاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں، اور کہتے ہیں: ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوکرہی رہنا تھا، اور ٹھوڑیوں کے بل گریہ و زاری کرتے ہوئے گرجاتے ہیں ، اور یہ (قرآن) ان کے خشوع وخضوع میںمزید اِضافہ کرتاچلاجاتاہے۔

حضرت شمیط یعنی ابن عجلان فرماتے ہیں  :

کل دمع یجری من القرآن فمرحوم عند اللّٰہ ۔ (الرقة والبکاء ابن ابی الدنیا:٨٣حدیث: ٧٨)

یعنی قرآن کریم (سن کر یاپڑھ کرآنکھوں سے) نکلنے والا آنسو بارگاہِ خداوندی سے اسے رحم وکرم کی خیرات دلادے گا۔

اورحضرت فضل الرقاشی نے کیا خوب فرمایاہے  :

کل قلب لا یجیب علی حسن الصوت بالقرآن فہو قلب میت …و ای عین لا تہمل علی حسن الصوت الا عین غافل او لاہ۔ (الرقة والبکاء ابن ابی الدنیا:٨٤حدیث: ٧٩)

یعنی خوش آوازی کے ساتھ قرآن کی تلاوت سن کر بھی اگرکوئی دل گریہ کناں نہ ہوتوسمجھو کہ اس کے سینے میں ایک مردہ دل پڑاہے۔ یوں ہی کوئی غافل اور لاپرواہ آنکھ ہی حسن صوت سے پڑھے گئے قرآن کو سن کر نہ بہے گی۔

معلم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بیان کی سحرطرازی سے مبہوت کرنے کے لیے عتبہ بن ربیعہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا۔ متعدد چیزوں کی پیشکش کی اوردنیاوی مال و متاع کا لالچ دیا۔ جواب میں آقاے گرامی وقار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۂ حم سجدہ کی اِبتدائی تیرہ آیات تلاوت فرمائیں، جنھیں سن کر وہ خود مبہوت ہوگیا اور اس قدر متاثر ہوا کہ واپس آکراپنے ساتھیوں سے کہنے لگا: بخدا ! آج میرے کانوں نے ایسا مسحورکن کلام سنا ہے جس کے مثل کبھی بھی اپنی زندگی میں نہیں سنا۔ نہ وہ شعر ہے، نہ جادو اور نہ ہی کہانت ۔ خدا کی قسم!اس کلام کا کوئی بہت بڑا نتیجہ ظاہر ہوکر رہے گا۔

یوں ہی ایک اور نامور مشرک ولید بن مغیرہ جس کی فصاحت وبلاغت کا جزیرۂ عرب میں بہت چرچا تھا جب ایک بار بزبانِ رسالت تلاوتِ قرآنی کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تو اس پر سناٹا طاری ہوگیااور وہ بے ساختہ پکار اُٹھا  :

و اللّٰہ ان لہ لحلاوة و ان علیہ لطلاوة و ان اعلاہ لمثمرۃ و ان اسفلہ لمغدق و ما یقول ہٰذا بشر، انہ لیعلو و لا یعلیٰ علیہ و انہ لیحطم ما تحتہ ۔

یعنی خدا کی قسم!اس میں بلا کی مٹھاس وشیرینی ہے۔اس کا ظاہر تاباں و درخشاں ہے۔ اس کا بالائی حصہ پھلوں سے لدا، اورزیریں حصہ شاداب ہے۔ کوئی اِنسان ایسا قول کبھی کہہ ہی نہیں سکتا۔یہ ہمیشہ سربلند رہے گا،اوراِس پر کسی کو بلندی نصیب نہیں ہوسکتی۔ اور جو اس کے مقابلے میں آئے وہ اسے پیس کررکھ دے گا۔(تفسیر قرطبی:٧٤١٩… تفسیر بغوی:٢٦٨٨… تفسیر آلوسی:٤١٤٢١… تفسیر بیضاوی:٣٤٢٥ …  الاعتقاد بیہقی:٢٨٤١حدیث: ٢٥٤… دلائل النبوة اصبہانی:٢١٤ حدیث:١٨١)

توقرآن حکیم دراصل مختلف جہتوں سے اپنے پڑھنے اور سننے والوںپراَثرپذیر ہوتا ہے۔ کوئی ندرتِ اَلفاظ کی بوقلمونیت اور حسن تراکیب کے زیروبم کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں آجاتاہے تو کوئی تہ بہ تہ معانی ومفاہیم کے حسنِ بے پناہ سے مسحور ہوتانظر آتاہے… کوئی قرآن کی غیبی خبریں سن کر انگشت بدنداں رہ جاتاہے تو کوئی اس میں موجود آفاقی سچائیوں کے سامنے خمیدہ سرہوجاتا ہے… کوئی جنت کے لالہ زار اور باغ وبہار کا تذکرۂ دل نواز سن کر مست وبے خود ہوجاتا ہے تو کوئی جہنم سوزاں کی ہولناکیوں کا تصور کرکے مبہوت وبے ہوش ہوجاتاہے۔ الغرض! قرآنِ کریم سے اکتساب ِ رنگ ونور اوراِستفادے کی نوعیت مختلف الجہات (Multidimensional) ہے۔ اَمرواقعہ یہ ہے کہ قرآن کو جس نے جس نیت سے پڑھامرادرسا ہوا۔

اس کتاب میں قرآنِ مجید کے سدا بہار گلدستے میں سے صرف ایک گل چیدہ آپ کے روبرو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اُمید ہے کہ اس کی مہک آپ کو تادیر مسحورِ لذت رکھے گی اور آپ کے اِیمان کا مشام جاںمدتوں مشک بار رہے گا۔ ـرہے نام اللہ کاـ

چریاکوٹی
13/04/2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے