"فیضان سرور مصباحی" سے ایک انٹرویو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ان کے نکاح کے بعد ـ ان کے نکاح سے متعلق دلچسپ سوالوں کے جوابات
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میرے پیارے دوست مفتی فیضان سرور مصباحی ١٥ ؍ ستمبر ١٩٩٦ء کو بدھول ،قاسمہ ضلع اورنگ آباد ـ بہار میں پیدا ہوئے ۔ دارالعلوم فردوسیہ جمشیدپور میں ٢٠٠٥ء میں حفظ کی دستار بندی ہوئی، پھر جامعہ فاروقیہ بنارس آگئے وہاں دورۂ حفظِ قرآن کیا ۔
٢٠٠٩ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا اور پورے گیارہ سال تک مسلسل تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ اور مولویت، قراءتِ حفص، عالمیت ، فضیلت ، تحقیق فی الحدیث ، مشق افتا کا کورس مکمل کیا ۔ فراغت کے بعد ٢٠١٩ء میں دعوتِ اسلامی کے شعبۂ درس نظامی سے وابستہ ہوئے ، فی الحال جامعۃ المدینہ فیضان عطار ، نیپال گنج ـ نیپال میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور اب اس کے ذیلی شعبہ "مجلسِ مضمون نگاری ہند" کے ذمہ داری بھی نبھارہے ہیں ۔ اپنے احباب کے درمیان نہایت ملنسار، بااخلاق، سادگی پسند اور اچھے قلم کار کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ زبدۃ الفکر فی مسائل نزھۃ النظر ، فیضان المناظرہ ، اذن عام ــ چند اصولی مباحث ، گھروں میں نماز باجماعت کے شرعی مسائل ، فیض پاشی، اور دیگر قیمتی کتب ورسائل ومقالات کے ذریعے آپ کی ایک تحریری شناخت بن چکی ہے ۔
ابھی ٢٠ ؍ شعبان المعظم ١٤٤٢ھ ، ٣؍ اپریل ٢٠٢١ء بروز ہفتہ ان کا عقدِ نکاح ہوا ہے ۔ جس میں ہم بھی شریک تھے، بلکہ حسنِ اتفاق مجھے ہی نکاح پڑھانے کا موقع ملا، بہت سی باتیں بالکل نئی اور انوکھی معلوم ہوئیں ۔ ہماری خواہش تھی کہ انٹرویوز کی صورت میں وہ باتیں سامنے آجائیں، تو امید ہے کہ نمونے کی حیثیت رکھنے والا یہ نکاح بہت سے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا ۔ چناں چہ ہم نے کچھ سوالات لکھ کر بھیج دییے ۔ انھوں نے ہمارے سوالات پر جوابات رقم کرنے کے لیے وقت نکالا، اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں ۔ مولانا فیضان سرور مصباحی کہتے ہیں کہ مذہبی نمائندوں کو راہ عزیمت اختیار کرنا چاہیے، تاکہ ان کے متعلقین اسلام وسنیت کو سیریس لے سکیں ۔ مجھے ان کے نکاح کے بہت سے معاملے میں یہ پہلو نظر آیا، کہ وہاں پر گوکہ رخصت کی سبیل موجود تھی، مگر پھر بھی عزیمت کو ترجیح دی ۔
( ابوہریرہ رضوی مصباحی - رام گڑھ)
تو لیجیے : وہ انٹرویو حاضر ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
ذرا یہ بتائیں کہ جہیز کسے کہتے ہیں؟
فیضان سرور مصباحی :
عربی زبان میں ایک لفظ "جَھاز" ہے۔ جس کا معنی ہوتا ہے : وہ سامانِ سفر جو مسافر اپنے سفر کی آسانی کے لیے ساتھ لیے ہوتا ہے ، زادِ راہ، توشۂ راہ ۔
کبھی مسافر اپنے سفر کے لیے کچھ چیزیں ساتھ لے لیتا ہے ، اسی طرح میت کے کفن دفن کے سامان؛ جن کے ساتھ آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ کبھی دولہن اپنے شوہر کے گھر جانے لگتی ہے، تو ضروری چیزیں ساتھ لے لیتی ہے۔ یہ سب "جَھاز" ہیں ۔ اردو زبان کے اندر اسی آخری معنی میں عموماً لفظ "جہیز" کا استعمال ہوتا ہے ۔
قرآن پاک میں باب تفعیل سے ضروری سامان سفر اور زاد راہ مہیا کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے :
وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمۡ [يوسف ٥٩]
جب یوسف ـ علیہ السلام ـ نے ان کا سامان انھیں مہیا کردیا ۔
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
الجهاز مايعد من متاع وغيره، والتجهيز حمل ذالک او بعثه. ( مفردات القرآن، جهز ، ص: ٢٠٩)
یعنی : "جھاز" اس رختِ سفر کو کہتے ہیں جو تیار کیا جاتا ہے اور تجہیز اس سامان کو اٹھانے، لادنے یا کہیں بھیجنے کو کہتے ہیں ۔
یہ ہوا جہیز کا لغوی مفہوم، عرف عام میں وہ ساز سامان جہیز کہلاتا ہے، جس کو دولہن کے گھر والے / گارجین دے کر رخصت کرتے ہیں ۔
اگر یہ بہت ہی مختصر شکل میں ہو تو اسے تحفہ کی ایک شکل کہی جاسکتی ہے ۔ جیسا کہ ام المؤمنين حضرت خدیجۃ الکبری - رضي الله عنها - نے اپنا ایک ہار حضرت زینب بنت رسول اللہ - ﷺ - کو عطا فرمایا تھا ۔
اور اگر ہندوؤں کے رسم ورواج کے مطابق بھاری بھرکم انداز میں سازو سامان کے ساتھ رخصت کیا جائے، اور پھر وراثت سے محروم رکھا جائے؛ تو یہ جبری جہیز کی صورت ہے، جو اسلامی تہذیب وتمدن اور تعلیمات کے خلاف ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کی شادی میں تو خود حضور اکرم - ﷺ - نے ضرروت کے سامان دے کر رخصتی فرمائی تھی، اور یہی چیز، جہیز ہے، پھر یہ چیز ناقابلِ مسترد کیوں کر ہوسکتی ہے؟ لامحالہ یہاں پر جہیز اور ڈیمانڈ کے نام پر فرق کرلینا چاہیے ۔ کہ اسلام میں جہیز لینے کی ممانعت نہیں، بلکہ ڈیمانڈ کرنے اور فرمائش کرکے لینے کی ممانعت ہے ۔
فیضان سرور مصباحی:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہا کے درمیان ہونے والے نکاح میں حضور اکرم - ﷺ - نے بطورِ جہیز کچھ بھی عنایت نہ فرمایا، اور اور کتابوں میں جو یہ آتا ہے کہ فلاں فلاں چیزیں حضرت فاطمہ کو ملیں، تو در اصل یہ سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زرہ فروخت کرکے اس سے حاصل شدہ رقم سے خریدی گئی تھیں ۔
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
جب حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ رسول - ﷺ - میں حاضر ہو کر حضرت فاطمہ کے لیے نکاح کا پیغام دیا، تو سید عرب و عجم - ﷺ - نے علی مرتضی سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس کچھ ہے؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے ۔ حضور - ﷺ - نے فرمایا گھوڑا تمہارے کام کی چیز ہے، زرہ فروخت کر دو، اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ، انہوں نے زرہ ٤٨٠ ؍ درہم میں فروخت کر دی، اور اس کی قیمت لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور نے اسے بلال کو دے دیا کہ وہ عطر خرید لائیں، اور باقی رقم امِ سلیم کے حوالے کی تاکہ اس سے سیدہ فاطمہ کے لیے جہیز اور امور خانہ داری کے سامان مہیا کریں، آپ نے اس رقم سے جن چیزوں کا انتظام کیا؛ ان کی فہرست ہے یہ ہے:
(١) چادر (٢) دوکتان کی نہالی (٣) چار بالشت کپڑا (٤) دو چاندی کے بازوبند (٥) گدا (٦) تکیہ (٧) ایک پیالہ (٨) ایک چکی (٩) ایک مشکیزہ (١٠) کچھ مشروبات (مدارج النبوۃ مترجم ، ج: ٢، ص: ٧٦ ،٧٧ )
ان سطور کو بار بار پڑھیں، اور خود جواب نکالنے کی کوشش کریں، کیا کہیں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور اکرم - ﷺ - نے اپنی ذاتی رقم سے اپنی بیٹی کے لیے سامانِ جہیز کا انتظام کیا ہے؟
اس کے برعکس یہ مزاج ملتا ہے کہ خاوند کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر ضرورت کی حد تک امورخانہ کے سامان اکٹھا کرلے، مہر کی رقم بھی معجل رکھنے کی کوشش کرے ۔ جیسا کہ زمانۂ عُسرت کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زرہ بچواکر آپ - ﷺ - نے ان چیزوں کے انتظام کرنے کی ہدایت فرمائی ۔
آپ - ﷺ - نے چار صاحبزادیوں کی شادیاں کیں، اور کسی کو بھی جہیز نہیں دیا۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں اس کا رواج چل پڑا ہے ۔ یہ سب ہندوؤں سے میل جول، اور ان کے رسم ورواج سے متأثر ہونے کا نتیجہ ہے کہ ان کے یہاں والدین کے ترکہ میں لڑکی کا کوئی حصہ نہیں بنتا، اس لیے شادی کے موقع پر دل خوش کرنے کی نیت سے کچھ دے دلا کر رخصت کردیتے ہیں، اور پھر لاعلمی میں یہ رسم مسلمانوں میں بھی آگئی، جس کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں جنم لے رہی ہیں ۔
جب یہ صورت حال ہے تو پھر جہیز اور ڈیمانڈ کے نام پر جو بعض لوگ فرق کرتے ہیں، اس میں نہ کوئی خاص معقولیت نظر آتی ہے، نہ منقولات سے اس مروجہ جہیز کا کوئی حصہ ہے ۔ یہ بس سماج کا تھوپا ہندوانہ نظریہ ہے ۔ جس کو لاشعوری طور پر ہم نے اپنے نکاح کا حصہ بنالیا ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
اس مہنگائی کے دور میں آپ نے سسرال والوں سے یہ کیسے کہ دیا کہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے ۔
فیضان سرور مصباحی :
دیکھیے بھائی ! یہاں پر مہنگائی وغیرہ کے بہانے ان لوگوں کے ہوتے ہیں جنھیں قلبی طور پر مال و دولت کی حرص ہوتی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب مفت میں اتنا کچھ مل رہا ہے تو پھر کیوں روکا جائے ۔ مگر یہاں مال کی لالچ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے خود اس کی اپنی صفت خود داری پر آنچ آرہی ہوتی ہے ۔ دینے والے تو اپنی برتری ثابت کرچکے ہوتے ہیں، مگر اس مقام پر پہنچ لینے والے کا پوزیشن درست نہیں ہوتا ۔ مسند دارمی کی روایت میں بسند صحیح ہے :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ". قَالَ : " وَالْيَدُ الْعُلْيَا يَدُ الْمُعْطِي، وَالْيَدُ السُّفْلَى يَدُ السَّائِلِ ".
یعنی : حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ - ﷺ - کو کہتے ہوئے سنا : اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ اوپر والا ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے، اور نچلا ہاتھ سے مراد منگتا اور سوالی کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
ویسے بھی یہ سب چیزیں شریعت نے مردوں کے لیے رکھی ہیں، تو پھر عورتوں پر، یا اس کے گھر والوں پر اس کا بوجھ لادنے کا مطلب قلبِ موضوع ہے۔ جبری اور سماجی جہیز کی تباہیوں سے ہر شخص آگاہ ہے ۔ ایسے میں، میں بھی ان لینے میں شریک ہوجاتا، یہ ضمیر نے گوارا نہ کیا ۔
دیکھیے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے اس معاملے میں شوہر کی ذمہ داریوں سے متعلق کیسی دوٹوک انداز میں بات کہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
کھانا پکانے کے تمام برتن اور سامان شوہر پر واجب ہے، مثلاً چکی ، ہانڈی، توا، چمٹا، رکابی، پیالہ، چمچہ وغیرہا جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے حسبِ حیثیت اعلٰی ، ادنیٰ متوسط۔ یوہیں حسبِ حیثیت اثاث البیت دینا واجب، مثلاً چٹائی، دری، قالین، چارپائی، لحاف، توشک، تکیہ، چادر وغیرہا۔ یوہیں کنگھا، تیل، سر دھونے کے لیے کَھلی وغیرہ، اور صابن یا بیسن میل دور کرنے کے لیے۔ (بہار شریعت ،ج: ٢ ح: ٨،ص:٢٨٤)
اب دیکھیں! کہ جو چیز شوہر کو کرنا تھا، سماج نے اسے بیوی کے سر منڈھ دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہرباپ کے لیے اس کی بیٹی بوجھ سمجھی جانے لگی ۔ اور اب یہ چیز اس قدر ضروری سمجھی جانے لگی کہ بیٹی کے باپ کے پاس کچھ نہ بھی ہو تو اسے سودی قرض تک لے کر انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ بعض دفعہ تو بیٹی کی شادی میں جہیز دینے کے نام پر بہت لوگ گداگری پر اتر آتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی عزت و حیثیت سب کچھ گروی رکھ کر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے؛ یہ منظور ہے ۔ مگر لڑکے والے جہیز لینے سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ استغفراللہ
اب جو شادیاں اس حد تک ضمیرفروشی تک لے جاتی ہوں ، تو پھر ایسے سسٹم کا کیوں کر ساتھ دیا جاسکتا ہے ۔
اس اعتبار سے بھی دیکھیے تو یہ رویہ اپنے آپ میں کس قدر ذلت آمیز ہے کہ دولہا لڑکی کو لے کر نکلتا ہے ۔ دوسری جانب بڑی بڑی گاڑیاں لڑکی کے سامانِ جہیز لے کر چلنے لگتی ہیں، گویا کہ دولہا بالکل ہی مفلس وقلاش، یا نکما شخص ہے کہ بیوی کے لوازمات کا انتظام جو اس پرلازم تھا، اپنی غربت کی وجہ سے ، اس لیے بیوی کو انتظام کرنا پڑا ۔
یا یہ کہ شوہر کسی جنگل جھاڑ کا باشندہ ہے ۔ اس کے پاس کچھ نہیں ہے ۔ بالکل ہی پھٹیچر ہے، حتی کہ برتن و گلاس تک کی فراہمی میں بیوی کا دست نگر ہے ۔
اسلامی تہذیب کے مطابق یہ ظاہر ہے کہ ایسا بندہ تو خود نکاح کرنے کے لائق نہیں ؛چہ جائیکہ اس کے لوازمات پر گفتگو کی جائے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
افففف صاحب ! اب یہ کیا بات ہوئی کہ ایسا بندہ نکاح کے لائق نہیں ۔
فیضان سرور مصباحی :
میرے اس جملے کا کہنے کا مطلب فقہی مفہوم و مطلب نہ نکالیں، وہ تو صاحبانِ فقہ وافتا ہی بتاسکتے ہیں ۔ مجھے کہنا یہ ہے کہ جو بندہ اپنے حقوقِ واجبی میں بھی کوتاہی کررہا ہو ، اور مہر بھی دینے سے عاجز ہو، اس کو تو فی الحال بہت کوشش کی ضرورت ہے ۔
اور آج کے دور میں یہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے، ایک نوجوان نکاح کررہا ہوتا ہے، جب کہ اس کے پاس نہ مہر کے نام پر کوئی رقم ہوتی ہے، نہ ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کا کوئی انتظام ۔ لے دے کر بالکل فقیرانہ انداز میں مہر ادھار رکھتا ہے ۔ جب کے دیگر بہت سے خرافات انجام دینے کے لیے خوب پیسے ہوتے ہیں، اور لڑکی کی آمد کے ساتھ جہیز کے نام پر ملنے والے سازومان کی تمنا لیے خیالات میں مگن ہوتا ہے ۔ دل ہی دل میں یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ یہ بھی مل جائے، یہ بھی مل جائے، اور وہ بھی مل جائے ۔
اب ایسی صورت کو دیکھ کر اور کیا کہا جاسکتا ہے یہ نکاح کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔
بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم - ﷺ - نے فرمایا :
" يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ ؛ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ ".
اے نوجوانوں کی جماعت !
تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہو؛ تو اسے چاہیے کہ نکاح کرلے ۔ اور جسے اس کی استطاعت نہ ہو اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے؛ کیوں کہ اس کے لیے، اس میں شہوت کا توڑ ہے ۔
اس حدیث میں نکاح سے پہلے اس کی استطاعت کی شرط رکھی گئی ہے ۔(استطاعت میں تفصیل بھی ہے۔) اور غیر مستطیع کے لیے روزے کا آپشن موجود ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(٦) ابوہریرہ رضوی مصباحی :
جب آپ نے اپنے گھر والوں کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ "مجھے کچھ نہیں لینا ہے۔" تو اس پر گھر والوں کا کیسا رد عمل رہا ۔
فیضان سرور مصباحی :
ہاں! اس معاملے میں تو کافی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ہم نے دوٹوک انداز میں اپنے گھر والوں کے سامنے بات رکھی تھی ۔ اور کہہ دیا تھا کہ وہ میرے سسرال والوں سے کہ دیں کہ مجھے کچھ بھی نہیں لینا ہے۔ اور کچھ بھی نہیں لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کا مطالبہ نہیں ہے؛ بقیہ لڑکی کے والدین اپنی مرضی سے جتنا چاہیں دے سکتے ہیں۔ بلکہ صاف لفظوں میں کہ دیں کہ پلنگ، الماری، کولر، فریج، برتن وغیرہ کسی بھی قسم کا سامان دولہن کے ساتھ نہیں آئے گا ۔ اس لیے ان سب چیزوں پر اپنی رقم اور توانائیاں ہرگز ضایع نہ کریں ۔
رسم ورواج سے اس طرح کی بغاوت کوئی عام بات نہ تھی، آنے والے سامانِ جہیز کو بھی روکوادینے کا مطلب یہ ہوا کہ گویا تین چار لاکھ کے سازوسامان کو ہم نے ٹھکرادیا، گھر کے افراد جو عمومی مزاج کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، انھیں یہ اپنے آپ میں بہت بڑا خسارا نظر آیا، اس کے نتیجے میں، بندہ بھی اچھا خاصا سامانِ مذاق بن کر رہ گیا۔
مگر اپنی کوشش ہم نے جاری رکھی ، اور مختلف رشتہ داروں کو موقع بموقع فون کرکے اس نازکی سے آگاہ کیا، اور ان کے ذریعہ اپنے گھر والوں کی ذہن سازی کی اپیل کی ۔ اب یہ پتہ نہیں ان میں کتنوں نے ہمارے گھر والوں سے رابطہ کرکے میری حمایت میں کچھ حصہ لیا ۔
اسی دوران ایک بار ہمارے گھر کے کسی فرد سے ایک مولانا صاحب کی گفتگو ہوئی، ہمارے سامانِ جہیز کے نہ لینے کا مزاج ان کے سامنے پیش کیا گیا، اور میرے خلاف توجہ چاہی گئی، مولانا صاحب نے برملا فرمایا کہ فیضان بھائی غلط ضد مچارہے ہیں ۔ جس طرح حضورِ اکرم - ﷺ - نے اپنی بیٹی کو کچھ سامان دے کر رخصت کیا تھا، اس طرح اگر ان کے گھر والوں کی طرف ہوتا ہے تو اس میں کیا حرج؟ اس دلیل کے بعد گویا ڈوبتے کو تنکے سہارا نصیب ہوگیا ۔
پھر ہم نے کتابوں کی ورق گردانی کے بعد یہ وضاحت کی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ملنے والے سامان در اصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رقم سے خریدے گئے تھے، حضور اکرم - ﷺ - کی طرف ایسا کچھ نہیں ہوا ہے ۔ یہ آنکھیں کھول دینے والا ایک انکشاف تھا، کیوں کہ یہی مشہور ہے کہ حضور اکرم - ﷺ - نے جہیز دیا ہے ۔ اور اس پر خوب تقریریں کی جاتی ہیں ۔ لہذا دلیل کا مطالبہ ہوا تو شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی مدارج النبوۃ کا ایک اقتباس پیش کیا ۔ پھر کیا تھا، مولانا صاحب ماشاءاللہ تعالیٰ بڑے باذوق تھے، جلد ہی مان گئے ۔
مگر پھر بھی بعض رشتہ داروں کی طرف کچھ لینے کا ذہن بنایا جاتا رہا ۔ جب کہ میں اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا ۔
سسرال والوں سے بالکل بھی کوئی رابطہ نہ تھا، البتہ گھر والوں کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ بھی میری اس سادگی پر چیں بہ جبیں تھے ۔ سسرال کی جانب سے کپڑا بنوانے، جوتا موزہ اور دیگر چھوٹے چھوٹے سامان کی پیش کش ہوئی اس کو بھی منع کردیا ۔ یہ اس کشمکش کی تقریباً ڈیڑھ سالہ مختصر داستان ہے۔
الحمد للہ تعالیٰ! محنت رنگ لائی، اللہ تعالیٰ کا فضل، مصطفی کریم - ﷺ - اور بزرگوں کی عنایات سے نکاح کے بعد رخصتی اس حال میں ہوئی کہ گاڑی میں دولہن کے ساتھ ان کے ذاتی کپڑے، سنگار بکس اور مٹھائی کے سوا کوئی اور سامان نہیں تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
آج کل شادیوں میں پنڈال وغیرہ بنتا ہے ۔ یا میرج ہال میں شادی ہوتی ہے ۔ آپ نے مسجد کو اپنے نکاح کے لیے کیوں منتخب کیا ۔ یہ سوال بھی پوچھے جانے کے قابل ہے کہ جیسے ہی ہم دولہن کے پاس سے اجازت لے کر آئے، آپ نے بڑی اختصار سے کام لے کر اپنا بیان ختم کردیا تھا ۔
فیضان سرور مصباحی :
ترمذی شریف میں ہے : عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ.
حضرت عائشہ - رضي الله عنہا- کہتی ہیں کہ آقاے کریم - ﷺ - نے فرمایا : نکاح کا اعلان کرو ۔ اور نکاح مسجد میں کیا کرو ۔
اس روایت کو پڑھ کر ذہن بنا کہ اس سنت متروکہ پر عمل ہونی چاہیے ۔ اس لیے شروع ہی میں اپنے سسرال والوں کو آگاہ کردیا تھا، کہ وہاں پہنچ کر مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد ہوگی ۔ چناں چہ ظہر کی نماز باجماعت پڑھی گئی اور وہیں حاضرین کہ موجودگی میں مسجد کے صیفی حصے میں بیٹھ گیا ۔ لوگ جوق در جوق آتے رہے، اور شائستگی سے بیٹھتے رہے، اتنے میں دیکھا کہ آپ (ابوہریرہ رضوی مصباحی ) مولانا ابرار عالم امجدی (بدھول) کی معیت میں لڑکی والوں کے گھر جانے لگے ۔ مجھے محسوس ہوگیا کہ آپ بحیثیت قاضی و وکیل، دولہن کے گھر اجازت لینے جارہے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ اس دوران صرف مسجد میں بیٹھنے سے کہیں بہتر ہے کہ حاضرین کو کچھ اہم مسائل سے روشناس کروایا جائے ۔ باوجودیکہ میں اس وقت دولہا بنا ہوا تھا ، جس وقت شرماتے رہنا ، نازو نخرے کا اظہار، باربار چہرہ پر رومال رکھنا ایک عام بات ہوتی ہے ۔ مگر میں بلاجھجھک کھڑا ہوگیا ۔ اور پھر تقریباً بیس پچیس منٹ تک نکاح میں مسجد کی فضیلت اور سنت رسول - ﷺ - پر عمل کی برکتوں اور غلط رسم ورواج کی نحوستوں کے بارے میں سامعین کو ڈھیر ساری باتیں بتائیں۔ دوران بیان میں نے محسوس کیا کہ سامعین پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی ۔سبھی ٹکٹکی باندھ کر ہمہ تن گوش نظر آرہے تھے ۔
اتنے میں آپ ادھر سے وکیل بالاجازت بن کر آگئے، اور ایک منٹ کے اندر اپنی گفتگو ختم کردی ۔ کیوں کہ مجھے خود آپ کی آمد کا شدت سے انتظار تھا ۔🤭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
رواج یہ ہے کہ جہیز فوراً لے لیتے ہیں، اور مہر ادھار رکھتے ہیں، اور پھر آگے چل کر معاف کروالیتے ہیں ۔ مگر آپ نے اس رواج سے بھی بغاوت کی ہے ۔ اس پر کن کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا؟
فیضان سرور مصباحی :
یہ مہر عورت کا حق ہے ۔ حق دار تک حق جلد پہنچ جانا چاہیے ۔ اس میں بلاوجہ ٹال مٹول سے کام لینا بعض صورتوں میں گناہ کی حد میں بھی داخل ہوجاتا ہے ۔
مدینہ شریف آمد کے بعد حضورِ اکرم - ﷺ - حضرت عائشہ - رضي الله عنها - کی رخصتی میں توقف فرماتے رہے ، حضرت صدیقِ اکبر - رضي الله عنه - نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کیا، یارسول اللہ عائشہ کی رخصتی کیوں نہیں کرلیتے؟ آقا - ﷺ - نے فرمایا کہ میری بھی یہی ہے کہ خواہش ہے کہ رخصتی ہوجائے ، مگر فی الحال مہر دینے کے لیے میرے پاس رقم نہیں ہے ۔
پتہ چلا کہ :
نقد سودا ہونا چاہیے ۔ ادھارنہیں ۔
میں نے دل میں سوچا کہ مہر معجل رہنا چاہیے۔
گھروالوں سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ ناراض ہونے لگے، انھیں لگا کہ آنا تو کچھ ہے نہیں کہ میں نے سب کچھ منع کروادیا تھا ، البتہ مہرمعجل ہوجائے تو اچھی خاصی رقم بھی چلی جائے گی ۔
مگر کوشش جاری رہی، بالآخر گھر والے تیار ہوگئے ۔ سستا مہر: گیارہ ہزار سات سو چھیاسی روپئے انڈین ، نکاح ہی کے وقت اداکردیا ۔ اسی دن میرے چھوٹے بھائی کا بھی نکاح ہونا تھا ۔ والد گرامی نے ان کا مہر بھی معجل رکھ کر فوراً ادا کردیا ۔ دو دن بعد بہن کا نکاح ہوا تو میں نے لڑکوں والوں کا مہرمعجل کے لیے ذہن بنایا ۔ تھوڑی کوشش کے بعد وہ بھی تیار ہوگئے ۔ اس طرح جس علاقے میں مہرمعجل کا بالکل بھی رواج نہیں، وہاں مسلسل تین تین نکاح میں مہر معجل قرار پایا ۔ فالحمدللہ علی ذلک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
بارات جانے والی گاڑیوں میں سے جس میں ہم اور آپ سوار تھے ۔ اس میں اویس قادری صاحب کی نعت سن رہے تھے ۔ مگر اچانک آپ نے دیگر تمام گاڑی ڈرائیور کو فون کرواکے کیا کہلوایا تھا؟
فیضان سرور مصباحی :
گاڑی والے کچھ نہ کچھ بجاتے ہی رہتے ہیں ۔ اور یہ بجنا گاڑی میں موجود لوگوں کے ذوق کے مطابق ہوتا ہے ۔ فوراً خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری گاڑی میں تو نعت خوانی، مگر دیگر گاڑیوں میں گانا بج رہا ہو ۔ اس لیے سبھی کو فون کرکے تنبیہ کرائی تھی کہ گانا ہرگز نہ بچائیں ۔
گانے باجے دلوں میں نفاق پیدا کرتے ہیں، نوجوانوں کو اس سے دور رہنا چاہیے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے گانے باجے سے بچپن سے ہی سخت نفرت ہے ۔ قوالی سننے سے بھی دوری ہی رہی۔
ہزار ممانعت کے باوجود بہن کی شادی میں ڈھول باجے کے ساتھ بارات لے کر آگئے ۔ یہ دیکھ کر آنسو رواں ہوگئے تھے ۔ ڈھول باجے والی شادی کا نکاح میں نہیں پڑھاتا ۔ اب تک دو ایسے نکاح پڑھانے کو منع کرچکا ہوں، جس میں ڈھول باجے بھی ساتھ تھے ۔ اسی طرح ہم نے اپنی بہن والی شادی میں نکاح پڑھانے سے بھی منع کردیا ۔ اصول ہرجگہ یکساں رہنے چاہئیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
آپ کے بارات میں علما کی تعداد نظر نہیں آئی؟ حالاں علاقائی حفاظ، ائمۂ مساجد اور علماء کرام سے آپ کے روابط اچھے ہیں۔
فیضان سرور مصباحی :
علاقائی علما، وحفاظ اور أئمۂ مساجد کو نکاح کی دعوت نہیں دی تھی، بلکہ ولیمہ میں تشریف لانے کے لیے عرض کیا تھا ۔ اس لیے نکاح میں وہ نظر نہیں آرہے تھے ۔
نکاح سے ایک دن قبل علاقے کے ایک نامی گرامی مولانا صاحب کا فون آیا، وہ کہ رہے تھے کہ آپ نے شادی کی ابھی تک دعوت نہیں دی؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کو دعوتِ سنت (دلیمہ) میں مدعو تو کیا ہی گیا ہے ۔ کہنے لگے کہ ہم آپ کے نکاح کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ اچھے لوگوں کو دعوتِ بدعت (بارات ) سے دور رہنا چاہیے ۔ آپ میری دعوتِ سنت (ولیمہ) میں تشریف لائیں گے ۔
اس طرح میں نے جان بوجھ کر بہتوں کو نکاح کی دعوت نہیں دی تھی ۔ ہاں جہاں تک ہوسکا ولیمہ کی تقریب میں شرکت کی گزارش کی تھی ۔ اس میں بھی سادگی کا ارادہ تھا ۔ اور ایک حد تک کامیابی بھی ملی ۔
دراصل اس قدر بھیڑ بھاڑ کے ساتھ بارات لے کر جانا، اور لڑکی والوں پر بوجھ بن جانا مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے ۔ یہ سراسر ظلم ہے ۔ ابتدا میں میرا خیال تھا کہ 12 افراد سے زیادہ بارات میں نہ ہوں ۔ مگر گاؤں والے کس قدر بارات جانے کے رسیا ہوتے ہیں، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ مسلسل تین ماہ اس کے لیے کوشش کرتا رہا، مگر پورے طور پر کامیاب نہ ہوسکا، البتہ کچھ عقل مند لوگ بارات جانے رک گئے ۔ اس کوشش کا ثمرہ یہ نکلا کہ اور شادیوں، میں جہاں 300 کے آس پاس بارات جاتے تھے، میرے نکاح میں فقط 100 لوگ تھے ۔ مگر اس کمی کے باوجود یہ بھیڑ بار بار مجھے کھٹکتی تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
شادی سے قبل مہندی اور ہلدی کی رسم سے بھی آپ کو گزرنا پڑا؟
فیضان سرور مصباحی :
ویسے ہمارے علاقے میں بغیر مہندی کے شادی کا تصور نہیں ہے ۔ دولہا دولہن دونوں کو مہندی لگانا پڑتا ہے ۔ شادی سے ایک دن قبل ایک رشتے دار عورت آئی اور مہندی لگانے کے لیے ضد مچانے لگی ۔ میں نے انھیں کافی سمجھایا، مگر وہ اپنی ضد پر اڑی رہی، جب دیکھا کہ دال نہیں گلنے والی، تو بالآخر وہ ناراض ہوکر یہ کہتے ہوئے چلی گئی کہ جب یہ سب رسم کروانا ہی نہیں تھا، تو اپنے رشتے دار عورتوں کو بلوایا ہی کیوں تھا ۔
ہمارے علاقے میں دولہا کو ہلدی لگانے والی عورتیں عموماً غیر محرم، بھابھی وغیرہ ہوتی ہیں ۔ اس لیے شروع میں، میں نے گھر والوں سے کہ دیا تھا، مجھے ہلدی نہیں لگوانا ہے، مگر پھر جب اصرار بڑھا تو میں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ مجھے یا تو امی ہلدی لگائیں گی، یا پھوپھی، اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ چناں چہ تین بار ـ ناف سے لے کر گھٹنوں کےنیچے تک (جن میں کا ستر واجب ہے ۔) کو چھوڑ کر، بقیہ حصے پر ہلدی لگی، اور تینوں بار پھوپھی کے ہاتھوں سے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
کیا اس مفہوم کی کوئی روایت بھی آئی ہے کہ نکاح آسان وسادہ ہونا چاہیے؟
فیضان سرور مصباحی :
جی ، ہاں ، مسند احمد بن حنبل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند سے یہ روایت موجود ہے کہ نبی کریم - ﷺ - نے فرمایا : " إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَئُونَةً ". (مسند أحمد |مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَة، ج :41 ، ص:75)
یعنی : بڑی بابرکت نکاح ہے، وہ نکاح؛ جو کم خرچ پر مشتمل ہو ۔
یہ روایت "السنن الكبرى للنسائی " (9229) ، مصنف ابن أبي شيبة (16384) ،"المستدرك للحاکم " (2732) ، "حلية الأولياء للأصفہانی " (3/186) میں بھی موجود ہے ۔
ان بعض کتب میں روایت کے الفاظ یہ ملتے ہیں :
عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُنَّ مَئُونَةً. ـــــــ یعنی وہ عورتوں بڑی بابرکت ہیں جو کم خرچ کرتی ہوں ۔
اس حدیث پاک سے ہمیں درس ملتا ہے کہ نکاح اور اس سے متعلق جائز کاموں میں ہمیں آسانی اور سادگی اختیار کرنا چاہیے ۔ رہی بات ناجائز اور ممانعت پر مشتمل امور؛ تو اِن کی کسی بھی حالت میں اجازت نہیں، اس میں سادگی اور آسانی اپنانے کا کیا سوال۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضوی مصباحی :
نکاح کو سادہ اور آسان بنانے کے لیے کن کن چیزوں کا خیال رکھا جانا چاہیے ؟
فیضان سرور مصباحی :
حضورِ اکرم ﷺ کے کلام مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ مختصر الفاظ کے پیچھے متعدد ومختلف معانی کا سمندر موجزن ہوتا ہے ۔ اوپر ذکر کی جانے والی روایت ہی کو لے لیجیے کہ کم لفظوں میں کتنی زیادہ باتیں جمع ہیں ۔ غور کیجیے تو اس میں ابتداءِ نکاح لے کر انجامِ نکاح تک ہرمعاملے سادگی اور آسانی کا درس موجود ہے ۔ مثلاً :
✰ مہر کم رکھے جائیں، تاکہ فوری طور پر ادائیگی میں دشواری کا سامنا نہ ہو ۔ سنن ابی داؤد میں اور مستدرک حاکم میں بسندِ صحیح یہ حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ - ﷺ - نے فرمایا : خَيْرُ الصَّدَاقِ أَيْسَرُهُ» یعنی : سب سے بہتر مہر وہ ہے جس کا دینا مرد کے لیے آسان ہو ۔
یہاں برصغیر میں افسوس ناک حال یہ ہے کہ اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے بعض جگہ لاکھ دولاکھ مہر رکھ دیتے ہیں ۔ چوں کہ اتنی موٹی رقم فوراً تو دینے کی اوقات ہوتی نہیں ، اس لیے حامی بھی بھرلی جاتی ہے ۔ اور پھر چالاک شوہر اپنا مہر معاف کروالیتا ہے۔ اس طرح حق، حقوق، خودداری اور بے نیازی سب کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔ پہلے ہی سے مہر معاف کرانے کی نیت ذہنی پسماندگی کی علامت ہے ۔
✰ نان ونفقہ میں سہولت وآسانی کا خیال رکھا جائے، ہرشخص اپنی اپنی وسعت کے حساب سے خرچ کرے، اس سے زندگی کی گاڑی آسانی سے چلتی رہتی ہے، اور آپسی جھگڑے کم سے کم ہوتے ہیں ۔
✰ نکاح کے بارے میں ایک آسانی یہ ہے کہ بیوی شوہر کی حیثیت دیکھتے ہوئے کسی بھی چیز کا مطالبہ کرے ۔ بخاری شریف میں مطلقاً یہ درس موجود ہے کہ آقائے کریم - ﷺ - فرماتے ہیں :يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا ـــــ یعنی : آسانیاں پیدا کرو، دشواری اورتنگی میں نہ ڈالو ۔
مسند أحمد کی یہ حدیث بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے : عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُنَّ مَئُونَةً. ـــــــ یعنی وہ عورتوں بڑی بابرکت ہیں جو کم خرچ کرتی ہوں ۔
✰ پیغامِ نکاح دینے اور رشتہ طے کرنے کے معاملے میں آسانی کا خیال رہے، یہ نہ ہو کہ باراتی سے پہلے ہی دیکھنے اور منگنی کی رسم ادا کرنے کے نام پر جانبین ایک دوسرے کے پاس بھٖیڑ لے پہنچ جائیں۔ جیسا کہ بعض علاقوں میں ایسا دیکھا جاتا ہے ۔ نیپال گنج (نیپال ) کے خطے میں؛ جہاں ہم ابھی رہتے ہیں، وہاں ایک گھر میں شادی سے قبل "منگنی" کے نام پر مہنگی دعوت کی گئی، جس میں تقریباً ٣؍ لاکھ کا خرچ آیا، اور پھرلڑکی والوں کو ١٠؍ دس لاکھ روپے انڈین کرنسی کے حساب سے؛ جہیز دینا طے ہوا ۔ اور اب سنا جارہا ہے کہ لڑکے والوں کی طرف پھر بھی ٹال مٹول کی صورت بن رہی ہے۔ یہ تو ابتدا ہے، آگے کیا ہوگا؛ خدا بہتر جانے، اس طرح کی مہنگی شادیاں واقعی سراسر زحمت ہوا کرتی ہیں ۔
✰اس سلسلے میں مسند احمد بن حنبل کی اس حدیث سے بھی رہنمائی ملتی ہے ۔ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ - ﷺ - نے فرمایا :
إِنَّ مِنْ يُمْنِ الْمَرْأَةِ: تَيْسِيرَ خِطْبَتِهَا ، وَتَيْسِيرَ صَدَاقِهَا ، وَتَيْسِيرَ رَحِمِهَا.
یعنی : عورت کی خوش بختی میں سے یہ بھی ہے کہ پیغامِ نکاح دینا / رشتہ طے کرنا آسان ہو ، مہر آسان ہو اور شوہر کا اس سے جماع آسان ہو ۔
وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت وإليه أنبب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں