Header Ads

قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللّٰه علیہ

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚


-----------------------------------------------------------
🕯قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: محمد۔
لقب: قاضی حمید الدین۔
اسی لقب سے مشہور ہوئے۔
والد کا اسم گرامی: عطاءاللہ محمود۔
بخارا کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سلطان معزالدین کے زمانے میں بخارا سے دہلی آئے۔
(علیہما الرحمہ)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 463ھ/ مطابق  1071ء کو "بخارا" (ازبکستان) میں ہوئی۔ اپنے والد کے ہمراہ دہلی تشریف لائے۔

تحصیلِ علم: آپ نے بخارا، بغداد، اور مدینہ منورہ کے علماء  و مشائخِ سے علوم حاصل کیے۔ آپ تمام علوم کے جامع تھے۔بالخصوص فقہ میں درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ جب ہندوستان تشریف لائے تو آپ تبحرِ علمی کی وجہ سے "ناگُور" کے قاضی مقرر کیے گئے۔

بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں حضرت شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ کے مرید و خلیفہ تھے۔ حضرت شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے، اور انہوں نے خلافت سے بھی نوازا تھا، اس لئے سماع کا ذوق تھا۔

سیرت و خصائص: مقرب احدیت، مقدس صمدیت، قطبِ زمانہ، شیخِ یگانہ، حضرت خواجہ قاضی حمید الدین ناگوری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کا شمار ہندوستان کے مقتدر مشائخِ کرام میں ہوتا ہے۔ علوم ظاہری و باطنی میں مکمل دسترس رکھتے تھے۔ آپ اگر چہ خواجہ قطب الدین بختیار  کاکی علیہ الرحمۃ کے ساتھی تھے۔ مگر نسبت کے لحاظ سے آپ خاندان سہروردیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور بعض مورخین کہتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ نے اپنے بعض مکتوبات میں اس بارے میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں قاضی حمید الدین ناگوری بھی میرے خلیفہ مجاز ہیں۔ آپ ریاضت و مجاہدہ میں بے مثال تھے۔ آپ صاحبِ جمال و کمال و صاحب کرامت بزرگ تھے آپ کو سماع سے بہت دلچسپی تھی آپ علوم شریعت و طریقت کے حقائق  پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ آپ کی طبیعت میں ظرافت اور خوشی طبعی کا ذوق بھی تھا جس کی وجہ سے گاہے بگاہے اپنے مصاحبین سے خوش طبعی کیا کرتے تھے۔

آپ کے خط پر خواجہ گنج شکر کا وجد:
ایک دفعہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے سماع سننے کی خواہش  ظاہر کی تاکہ کوئی قوالی یا نعت سنیں، لیکن اتفاق سے اس وقت کوئی نعت خواں اور قوال نہ  ملا تو حضرت نے شیخ بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے جو میری طرف خط لکھا وہ اٹھا لاؤ۔ 
چنانچہ حضرت بدر الدین اسحاق اس جگہ سے اٹھے ایک حجرے میں گئے۔ اور وہ بیگ اٹھا کر بابا صاحب کے پاس لے آئے جس میں بہت سے خطوط تھے۔ اور حضرت کے سامنے رکھ کر اس میں ہاتھ ڈالا۔ تو سب سے اولاً ان کے ہاتھ میں قاضی حمید الدین رحمۃ اللہ علیہ کا خط آیا۔ چنانچہ حضرت بدر الدین علیہ الرحمۃ نے وہ خط بابا صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت عالیہ میں پیش کردیا۔حضرت صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت شیخ بدرالدین سے فرمایا کہ اسے کھڑے ہوکر پڑھو چنانچہ شیخ بدر الدین اسحاق علیہ الرحمۃ نے کھڑے ہو کر وہ خط پڑھنا شروع کردیا اس میں یہ لکھا تھا کہ "فقیر و حقیر کمزور و ناتواں محمد بن عطاء  درویشوں کا خادم و غلام ہے،اور ان کی قدموں کی خاک کو اپنے سر اور آنکھوں پر بطور تبرک ملتا ہے"۔
حضرت شیخ بدر الدین نے ابھی خط کا اتنا ہی مضمون پڑھا تھا۔کہ شیخ فرید الدین علیہ الرحمۃ پر حال و جد کیفیت طاری ہوگئی۔ پھر خط کی یہ رباعی بھی پڑھی گئی۔

آں عقل کجا کہ درکمال تو رَسد
آں روح کجا کہ درجلال تورسد

گیرم کہ تو پردہ برگرفتی زجمال
آں دیدۂ کجاکہ درجمال تورسد

ترجمہ: میں وہ عقل کہاں سے لاؤں جو تیرے کمال کی گہرائیوں تک پہنچ سکے اور وہ روح کہاں سے لاؤں جو تیرے جلال کی کہنہ اور حقیقت کو پاسکے۔ میں خوب سمجھتا ہوں۔کہ تو نے اپنے جمال سے پردہ اٹھالیاہے۔ لیکن وہ آنکھیں کہاں سے لاؤں جو تیرے جمال کو دیکھ سکیں۔

ایک دن قاضی حمید الدین کعبے کا طواف کر رہے تھے انہوں نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ بھی طواف کر رہے ہیں۔ آپ اُن کے ساتھ ساتھ قدم بقدم چلنے لگے، اس بزرگ نے منہ پھیر کر کہا، حمیدالدین ظاہری اتباع تو بڑی آسان بات ہے لیکن باطنی اتباع بڑی مشکل ہے۔ عرض کی حضور باطنی اتباع بھی ارشاد فرمائیں، انہوں نے کہا کہ میں طواف کرتے ہوئے ہر قدم پر قرآن پاک ختم کرتا ہوں، اگر تم میری اتباع کرنا چاہتے ہو تو ایسا کرو۔ حضرت قاضی دل میں بڑے حیران ہوئے۔ پھر انہوں نے خیال کیا کہ شاید یہ بزرگ قرآن کے معنی دل میں لاتے ہیں اور اُس کو ختمِ قرآن کا نام دیتے ہیں۔ اُس بزرگ نے آپ کے دل کی اس بات کو پالیا اور فرمایا نہیں نہیں میں حرفاً حرفاً اور لفظاً لفظاً اعراب کی درستگی کے ساتھ اول سے آخر تک (بطورِ کرامت) قرآن پڑھتا ہوں۔
قاضی صاحب ساری زندگی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہے،اس لئے بعض حضرات آپ کو مشائخِ چشتیہ میں شمار کرتے ہیں۔ آپ ظاہری وباطنی علوم کے ماہرتھے،اس لئے آپ بہت لطیف نکتے بیان کرتے تھے۔ آپ کے کلام سے عوام وخواص بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ آپ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ بہت کتب تصنیف فرمائیں، لیکن ان میں سے زیادہ مشہور "طوالع۔ لوائح۔ راحت الارواح۔اور مجموعہ رسائل ہیں"۔

وصال: آپ کا وصال 9 رمضان المبارک 643، کو ہوا۔ (اخبار الاخیار فارسی،ص:40 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ )
مزار شریف دہلی مہرولی انڈیا میں حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف کے پاؤں کی سمت آج بھی مرجع و خاص و عام ہے۔

ماخذ و مراجع: خزینۃ الاصفیاء۔ یاگارِ سہروردیہ۔اخبارالاخیار۔


➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے