📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯️شیخ الہند حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: شیخ سلیم چشتی۔
لقب: عرب میں آپ کو "شیخ الہند" کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ سلیم الدین بن بہاءالدین بن شیخ سلطان بن شیخ آدم بن شیخ موسیٰ بن شیخ مودودبن شیخ بدرالدین بن شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ عنہم اجمعین۔ آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرر رحمۃ اللّٰه علیہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام بی بی احد ہے۔آپ کے آباؤ اجداد اجودھن سے ہجرت کرکے لدھیانہ آئے، کچھ عرصہ لدھیانہ میں رہے، پھر دہلی میں سکونت اختیار کی، آپ کے والدین دہلی سے ترک سکونت کرکے فتح پور سیکری میں رہنے لگے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 897ھ، مطابق1492ء کو دہلی کے اس وقت کے محلہ سرائے علاءالدین زندہ پیر میں ہوئی۔ (اخبار الاخیار:656/سفینۃ الاولیاء:241/چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر:133)
بچپن کی کرامت: آپ نے پیدا ہوتے ہی سجدہ کیا۔ آپ کی پیشانی میں دھان کا ایک دانہ چبھ گیا۔ اس کا نشان پیشانی پر تمام عمر رہا۔ ایک بار اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ دھان کے دانےچبھنے سے کافی تکلیف ہوتی تھی۔ اس کو نکالنا چاہا، لیکن اس خیال سے نہیں نکالاکہ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوگا۔
تحصیلِ علم: ابھی آپ کم سن ہی تھےکہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے بڑے بھائی کے زیرِ سایہ ہوئی۔ آپ کے بڑے بھائی شیخ موسیٰ نے آپ کی تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ سنِ بلوغ پر پہنچ کر آپ نے تحصیلِ علم کےلئے سفر کا ارادہ کیا، اپنے بڑے بھائی سے اجازت مانگی، آپ کے بڑے بھائی نے آپ کو اجازت نہیں دی اورکہا کہ میری اولاد نہیں ہے، اور میں نے تمہیں اولاد کی طرح پالا ہے، لہذا تمھاری جدائی برداشت نہیں ہوگی۔ یہ سن کر آپ نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ ناامید نہ ہونا چاہیے، آپ کے ہاں انشاء اللّٰه لڑکا پیدا ہوگا اور تمھارا گھر روشن ہوگا، چنانچہ ایساہی ہوا، نو مہینے کے بعد شیخ موسیٰ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔
پھر آپ نے برادر اکبر کی اجازت و رضامندی سے مزید تحصیل علم کےلئے فتح پور سیکری سے سرہندتشریف لائےاور ملک العلماء شیخ مجدالدین رحمۃ اللّٰه علیہ سے علوم ظاہری کی تکمیل کی، جس زمانے میں آپ کا قیام سرہند میں تھا، آپ کبھی کبھی قصبہ بدالی جاتے اورحضرت شیخ زین العابدین چشتی کے مزار سے فیوض و برکات حاصل کرتے۔ (تذکرہ اولیائے پاک وہند:209)۔ آپ کو تمام علوم کے جامع تھے۔
بیعت و خلافت: سیر و سیاحت کے دوران آپ بہت سے بزرگوں اور درویشوں سے ملےاور ان سے فیوض و برکات حاصل کئے، حضرت شیخ ابراہیم چشتی کے دست حق پرست پر آپ بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت پایا۔
سیرت و خصائص: سید الاولیاء، سندا لاتقیاء، رئیس الصوفیاء، جامع الکمالات، عارف بااللہ، واصل باللہ، متصرف الامور، نادرالوجود، صاحب الیقین حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ علیہ الرحمہ کمالات علمیہ و روحانیہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت شیخ الاسلام فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللّٰه علیہ سے خاندانی تعلق تھا۔ آپ حضرت گنج شکر کے روحانی کمالات کے پرتوِ جمیل تھے۔ آپ کے تصرفات و کرامات کا شہرہ چہار دانگ عالم میں تھا۔ آپ کوہ سیکری کے بیابان جنگلات وغاروں میں اقامت گزیں ہوتے، لیکن اس کے باوجود مخلوق خدا کا ایک جم غفیر آپ کی خدمت میں حاضر رہتا۔ آپ نےاس جنگل کو اپنی عبادت ریاضت کی برکت سے مخلوق خدا کی دلوں کی تسکین بنادیا تھا۔ جہاں بھی آپ تشریف لے جاتے آپ کی ذات مرجعِ خلائق بن جاتی، جب آپ حرمین طیبین تشریف لےگئے تو عرب شریف میں’’شیخ الہند‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ تمام عمر صوم وصال رکھتے، بےانتہا عبادت و ریاضت گزار تھے۔ آپ کی مشقتیں دیکھ کر حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجاہدات شاقہ کی یاد تازہ ہوجاتی۔ ابتدائی ایام جوانی میں مجاہدین جیسا لباس زیب تن فرماتے۔ (اخبار الاخیار:656)
آپ صاحب علم و فضل، جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے، زہد و تقویٰ، ریاضت، مجاہدات، ترک و تجرید، تحمل، بردباری میں یگانہ عصر تھے، جب تک آپ بہت کمزور و ضعیف نہ ہوگئے، آپ نےطے کے روزے نہیں چھوڑے، آپ کو پرانا سرکہ اور ٹھنڈی ترکاریاں بہت مرغوب تھیں، ٹھنڈے پانی سے روزانہ غسل فرماتے تھے، کیسی ہی سردی ہو، آپ کے لباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی، جاڑے کے موسم میں بھی باریک کرتا زیب تن فرماتے تھے، نماز اول وقت پڑھتے تھے۔ آپ کی نشست گاہ بالکل امیروں اور حاکموں کی طرح تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان باتوں سے جو خلاف شریعت ہیں طاقت سے روکتے تھے، جب آپ محفل میں رونق افروز ہوتے تو ہر شخص پر نگاہ رکھتے، کسی کو ڈانٹتے، کسی کو نصیحت فرماتے اور کسی کو تعلیم و تلقین فرماتے۔ (اخبارا لاخیار:657/تذکرہ اولیائے پاک وہند:210)
تعلیم سے فراغت کےبعد 1525ء کو حج کےلئے تشریف لےگئے۔ مکہ معظمہ و مدینہ کے علاوہ بلاد اسلامیہ کی سیاحت فرماتے ہوئے، ہندوستان فتح پور سیکری تشریف لائے۔ یہاں خانقاہ تعمیر کرائی، کنوئیں کھدوائے، اور تلقین و ارشاد میں مصروف ہوگئے۔ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ نے 24 حج کیے تھے۔ جب آخری مرتبہ حج کےلیے تشریف لےگئے تو چار سال مکہ میں اور چار سال مدینہ منورہ میں گزارے۔ حج کے ایام مکے میں اور میلاد کے ایام مدینے میں گزارتے تھے۔ (چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر:134)
سلاطین سے تعلقات: علاوہ امراء کے سلاطین بھی آپ کے معتقد تھے۔ خواص خاں جو امرائے کبار میں تھا، آپ سے بہت عقیدت رکھتا تھا، کئی بادشاہ آپ کے معتقد تھے۔ شیرشاہ، سلیم شاہ (جہانگیر) اور اکبر آپ سے ارادت و عقیدت رکھتے تھے اور بہت خلوص، محبت اور عزت اور تعظیم و تکریم سے آپ سے پیش آتے تھے۔
جہانگیر بادشاہ کی پیدائش آپ کی دعا کی بدولت ہوئی: شہنشاہ اکبر کا کوئی لڑکا نہ تھا، آپ سے دعا کا طالب ہوا، آپ نے مراقبہ کیا اور شہنشاہ اکبر سے کہا: ’’افسوس کہ تیری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے‘‘۔ شہنشاہ اکبر نے یہ سن کر آپ سے عرض کیا۔ چونکہ میری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے، اسی لئے تو آپ سے عرض کیا ہے، آپ دعا کیجئے۔ (یعنی اگر تقدیر میں ہوتا تو ویسے ہی مل جاتا، آپ کی بارگاہ میں آنے کا کیا فائدہ؟)۔ آپ شہنشاہ اکبر کے اس جواب سے خوش ہوئے، تھوڑی دیر مراقبہ کیا اور پھر فرمایا۔ "اس ملک میں راجپوتوں کی حکومت بہت عرصہ تک رہےگی۔ اچھا کلاپنی بیگم کو میری بیوی کے پاس بھیج دینا"۔دوسرے دن جب بادشاہ کی بیگم آپ کے یہاں آئی تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو رانی کی پشت سے پشت ملاکر بیٹھنے کا حکم دیا، جب آپ کی اہلیہ محترمہ رانی کی پشت سے پشت ملاکر بیٹھیں تو آپ نے اپنی چادر دونوں پر ڈال دی، پھر اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ اپنا ہونے والا فرزند رانی کو دےدو۔ جب بادشاہ بیگم کے لڑکا پیدا ہوا تو اس لڑکے کا نام آپ نے اپنے نام پر "سلیم" رکھا، شہزادہ سلیم آپ کو "شیخوبابا" کہا کرتا تھا، شہزادہ سلیم اپنے والد شہنشاہ اکبر کے انتقال کے بعد تخت و تاج کا مالک ہوا اور "جہاں گیر" کے لقب سے مشہور ہوا۔ اکبر نے شہر فتح پور آپ کی عقیدت میں تعمیر کرایا تھا۔ اس وقت اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی تھی۔ اِس وقت بھی اس کی اکثر تعمیرات اپنی خوبصورتی، اور فن تعمیر کا شاہکار ہونے کی وجہ سے عالمی ورثہ قرار دی جاچکی ہیں۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہےکہ آپ حجرے سے نماز کےلئے مسجد جارہے تھے، ایک فقیر کو دیکھا کہ سو رہا تھا، آپ نے اس کو جگایا اور اس سے فرمایا۔ "فقیروں کو کسی سے لڑنا نہیں چاہیے"۔ وہ فقیر یہ سن کر شرمندہ ہوا اور اقرار کیا کہ واقعی وہ خواب میں لڑ رہا تھا۔آپ نے فتح پور سیکری کے لوگوں سے شاہی عمارت تعمیر ہونے والی پندرہ سال قبل فرمایا تھاکہ لوگوں کو چاہیےکہ مکانات کشادہ بنالیں، ورنہ پھر جگہ نہیں ملے گی۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 29/ رمضان المبارک 979ھ مطابق ماہ فروری 1572ء کو ہوا۔ آپ کا عالی شان مزار فتح پور سیکری میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ و مراجع: تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ اخبار الاخیار۔ چشتی خانقاہیں اور سربراہان بر صغیر۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں