📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯️ہمارا معاشرہ اور شرعی فتاوی کا مذاق🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 معاشرے میں پرورش پاتے اخلاقی بگاڑ کی زد میں صرف ان پڑھ عوام ہی نہیں ہیں بلکہ کالج ، یونیورسٹی ، میڈیا میں موجود اینکر پرسنز ، صحافی ، این جی اوز کی مہذب قوم ، سرکاری و نجی شعبہ جات میں موجود ماسٹرز ، پی ایچ ڈی و ایم فل والے ، بھاری بھرکم ڈگریاں رکھنے والے ’’ پڑھے لکھے افراد ‘‘ بھی اخلاقی پستیوں کا شکار ہیں ۔۔۔۔۔
اخلاقی پستیوں کی فہرست مرتب کی جائے تو یہ ایک مکمل باب کی حیثیت رکھتا ہے جس پر سیر حاصل گفتگو ممکن ہے ، سردست ہم نے ایک عنوان منتخب کیا جس کا موضوع ’’ ہمارا معاشرہ اور شرعی فتاوی کا مذاق ‘‘ ہے ۔۔۔۔
(1) ملا نے فتوی دے دیا۔
(2) ملاؤں کا فتوی ان کے کمانے کا دھندا ہے۔
(3) قرآن پڑھو حدیث پڑھو یہ فتوے بیکار کی باتیں ہیں۔
(4) یار میں ان فتووں وتووں کے چکر میں نہیں پڑتا۔
(5) مولوی تجھ پر فتوی تھوپ دے گا۔
(6) دنیا پڑھ پیسہ کما یہ فتوے لکھتے رہا تو بھوکا مرجائے گا۔
(7) بھاڑ مین جائے ملاؤں کا فتوی۔
(8) بھائی میں تو فتووں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں تُو بھی رکھا کر۔
(9) کھلا کھا ننگا نہا فتوی گیا تیل لینے۔
یہ گنے چنے الفاظ ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال کی نمایاں تصویر ہے ، جاہل عوام کو جانے دیجئے مذکورہ طبقہ ہائے فکر کے افراد نہایت بے رحمی سے ایسی اخلاق سوزیوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ، خبث ظاہری کا مظاہرہ ہم کئی بار آن لائن پروگرامز میں دیکھ چکے ہیں خبث باطنی کا نظارہ ممکن نہیں ورنہ ہم دعوے سے کہتے ہیں ’’ جو ان کے دلوں میں ہے وہ زبان کی آلودگیوں سے کئی گنا زیادہ ہے ‘‘ ۔۔۔۔۔
اللہ کریم ان لوگوں کو ہدایت کا نور عطا فرمائے ، ’’ فتوی ‘‘ کوئی بازاری لفظ یا کوٹھے کی دہلیز پر بولا جانے والا مکروہ جملہ نہیں جسے اتنی نفرت کے ساتھ منہ سے نکالا جائے بلکہ اس جملے کی بہت عظمت ہے ، فی الحقیقت اس کا تعلق اللہ جل وعلا اور اسکے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ احکامات سے ہے ۔۔۔۔۔۔
ہم قارئین کو معدود مثالوں سے دعوتِ ملاحظہ دیتے ہیں کہ دیکھیے لفظ ’’ فتوی ‘‘ اپنے اندر کتنی حساسیت رکھتا ہے اور ’’ پڑھے لکھے افراد ‘‘ کا اخلاقی مظاہرہ کتنا ظلمت افروز ہے ۔۔
سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا : یستفتونک قل الله یفتیکم فی الکلالة (آیۃ 176)
اے محبوب تم سے فتوی پوچھتے ہیں ، تم فرمادو کہ اللہ تمہیں کلالہ میں فتوی دیتا ہے ۔
صحابہ کرام علیھم الرضوان نے کلالہ کی میراث سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی معلوم کیا اور اللہ جل وعلا نے فتوی دیا ۔۔۔
اسی سورۃ النساء میں فرمایا : ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن (آیۃ 127)
اور تم سے عورتوں کے بارے میں فتوی پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ اللہ تمہیں ان کا فتوی دیتا ہے ۔
ان دو آیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی معلوم کیا گیا اور فتوی اللہ رب العزت کی جانب سے آیا ، یستفتونک اور يفتيكم میں استفتاء اور فتوی کی مکمل صورت موجود ہے ۔۔۔
(نوٹ : اللہ تعالی نے فتوی دیا لیکن اللہ تعالی کو مفتی کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کے لئے افعال کے اطلاق سے مشتقات کا اطلاق لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالی کے اسماء صفات توقیفی ہیں برخلاف اسم ذات کے لہذا اللہ تعالی کو خدا کہنا جائز ہے ۔ انوار الفتاوی ، مقدمۃ الکتاب ، ص 33 ، فرید بک اسٹال)
احادیث کی کتب میں جابجا ایسی روایات ہیں جن میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتوی ارشاد فرمایا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کتاب العلم کے چار ابواب میں لفظ ’’ فتیا ‘‘ لائے ہیں ان میں سے ایک ’’ باب ذکر العلم و الفتیا فی المسجد ‘‘ ہے یعنی مسجد میں علمی بات بتانے اور فتوی دینے کا باب ۔۔۔
طبقات ائمہ مجتہدین و فقہاء دین متین پر نظر کیجئے تو شمار ہی نہیں کہ لفظ فتوی ، فتاوی کس کثرت سے استعمال ہوا ہے ، بلکہ فقہاء کرام نے مفتی صحابہ کرام کے نام تک بیان فرمائے اور فتوی دینے کی کثرت و قلت کے اعتبار سے مکثرین ، متوسطین و مقلین تین طبقات ذکر فرمائے ۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا شواہدات کی روشنی میں یہ امر بخوبی واضح ہوجانا چاہیے کہ ’’ فتوی ‘‘ کوئی گرا پڑا کراہت آلود لفظ نہیں جسے پڑھ یا سن کر چہرہ کی رنگت دماغ کے تیور بدل جائیں بلکہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جو اللہ اور اسکے رسول کے احکام کے بیان پر مشتمل ہوتی ہے ، لہذا جب بھی فتوی کا لفظ سنیں تو تحمل کا مظاہرہ کیجئے اور تھوڑا ٹھہر جائیے ، یقینا اس میں اللہ اور اس کے رسول کے فرامین موجود ہوں گے جنہیں آپ کو ٹھنڈے دل سے پڑھنا سننا ہے ، کسی فقہی رائے سے اختلاف آپ کا ’’ علمی حق ‘‘ ہے مگر اخلاقیت سے گرے بیباک جملوں سے آپ یہ ثابت نہ کیجئے کہ ’’ آپ کو اسلامی احکامات سے چڑ ہے ‘‘ ۔۔۔۔
جو لوگ کالج ، یونیورسٹی ، اسمبلی اور میڈیا وغیرہ کے آزاد ماحول میں رہتے ہیں جہاں آپ کی ہر شگفتہ بیانی ایک معزز رائے بن جاتی ہے ان سب کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ اپنے گفتار و انداز سے ایسے رویوں کو فروغ نہ دیں جس کے سبب دین و ملت کی خدمت کرنے والے علماء رنجیدہ ہوں اور ان سے لو لگانے والے عوام غم و غصہ کا شکار ہوں ۔۔۔
’’ فتوی ‘‘ کو جوتوں کی نوک پر نہیں اپنے دل میں جگہ دیجئے ، اسے بھاڑ میں نہ ڈالئے بلکہ اسکے مطابق اپنی تربیت کیجئے ، اسے کمانے کا دھندا نہیں بلکہ آخرت پالینے کا سبب بنائیے اس سے آپ کی زندگی میں بھی سکون آئے گا اور ہمارا معاشرہ ایک اخلاق سوز عمل سے نجات حاصل کرسکے گا۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم✍️ أبــــــو مــحـــمـــد عـــارفــــيـن الـقـــــادري
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں