اعلیٰ حضرت اور عشق رسول
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*تحریر:محمد رجب علی* *مصباحی،گڑھوا*
*رکن: مجلس علماے جھارکھنڈ*
___________________________
انسان کی فطری عادت ہے کہ وہ دنیا میں کسی نہ کسی سے حد درجہ محبت کرتا ہے جس پر وہ اپنی زندگی بھی نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے جیسا کہ ہمارا عینی مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ والدین سے، کچھ افراد اپنی اولاد سے اور بعض اشخاص کو اپنے دوست واحباب سے زیادہ محبت ہوتی ہے جب کہ یہ زمینی حقیقت ہے کہ یہ محبتیں کامل ایمان کیا جزء ایمان بھی نہیں، ہاں پوری دنیا میں ایک ایسی ذات بابرکات ہے جس کی محبت شان ایمان، جان ایمان اور روح ایمان ہے اور جس پر مر مٹنا زندگی کی معراج ہےاور وہ ہے غریبوں کا ملجا، بے کسوں کا سہارا،خدا کا پیارا،آمنہ کا دلارا نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ جن سے عقیدت ومحبت کا درس دیتے ہوئے رب ذوالجلال نے ارشاد فرمایا:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
ترجمہ:اے محبوب! تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔(کنزالایمان)
نیز نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ”(بخاری شریف، کتاب الایمان)
ترجمہ:تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں بن سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے بیٹے، باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اس ارشاد کو سامنے رکھ کر
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ اس فرمان پر کامل طور پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے قربان کر دی اور عشق رسول کا ایسا شمع فروزاں کیا جس کی لو صبح قیامت تک مدھم نہیں ہو سکتی اور انہیں نفوس قدسیہ کے نقش قدم کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہوئے اولیاے عظام اور محبوبان خدا نے بھی عشق رسول کو اپنی زندگی کا معیار بنایا اور فنا فی الرسول ہو کر اپنی زندگی کے لمحات کو صرف فرمایا انہیں عشاق رسول میں سے ایک سچا عاشق رسول سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ و الرضوان ہیں جو حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ و الرضوان کے گھر ١٠/شوال المکرم ١٢٧٢ء مطابق ١٤/جون ١٨٥٦ھ کو قدم رنجا ہوئے جن کا پیدائشی نام "محمد" اور تاریخی نام"المختار" رکھا۔
آپ کی ذات گوں نہ گوں اوصاف و کمالات کے بحر بیکراں تھی۔آپ جہاں ایک بہت بڑے عالم دین،محقق، مفسر،محدث،مفتی،سائنس داں،ماہر لسانیات اورفقیہ و مجدد تھے وہیں آپ ایک بہت بڑے عاشق رسول تھے۔آپ نے اپنی زندگی کو عشق رسول کا زینہ اور اپنے دل کو مدینہ بنا رکھا تھا۔آپ کے افعال و اقوال اور حرکات و سکنات فرمان رسول کے آئینہ دار تھے۔ آپ کی حیات طیبہ رسول گرامی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ کی سنت کا پیروکار تھی، یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ عالم اسلام میں آپ کی شہرت و مقبولیت کی وجہ تبلیغ دین متین کے علاوہ عشق رسول تھی یہی وہ سرمایہ افتخار تھا جس کے سبب آپ عاشق رسول جیسے مبارک لقب سے ملقب ہوئے اور پوری دنیاے اسلام نے آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا۔ذیل میں چند واقعات قلم بند کیے جا رہے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کی ذات کے اندر کس قدر محبت رسول موج زن تھی اور کس قدر عشق رسول میں سرشار رہا کرتے تھے:
(١)اعلی حضرت جب زیارت حرمین شریفین کے لیے پہلی بار عازم سفر ہوئے تو شوق دیداد رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں مواجہہ کے قریب حاضر ہوئے تو زیارت سے مشرف نہ ہوئے جب دوسری مرتبہ زیارت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ کے لیے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تو شوق دیداد میں مواجہہ میں درود شریف پڑھتے رہے اور یقین کیاکہ سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ضرور عزت افزائی فرمائیں گے اور بالمواجہہ زیارت سے مشرف فرمائیں گے لیکن پہلی شب ایسا نہ ہوا تو ایک غزل لکھی جس کا مطلع یہ تھا:
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کِتے ہزار پھرتے ہیں
یہ غزل مواجہ اقدس میں عرض کر کے انتظار میں مؤدب بیٹھے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی اور چشم سر سے بیداری میں زیارت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے (سوانح اعلی حضرت:٣١٤،٣١٥)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان عشق رسول میں اس قدر مست تھے کہ ان کا مقصد اولیں دیداد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تھا بعدہ حج و زیارت کا اشتیاق جیسا کہ خود آپ نے اپنی نعتیہ شاعری میں اس کا اظہار فرمایا :
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرادیے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے
کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا جس نے مجھ سے کہ نہضت کدھر کی ہے
(٢) ایک مرتبہ حضرت مولانا سید شاہ اسماعیل حسن میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے درود پاک لکھوایا،جس میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صفت کے طور پر لفظ حسین اور زاہد بھی تھا۔اعلی حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان نے درود پاک تو لکھا مگر یہ دو لفظ تحریر نہ فرمائے اور فرمایا کہ لفظ حسین میں چھوٹا ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں اور زاہد اسے کہتے ہیں جس کےبپاس کچھ نہ ہو ( حالاں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر چیز کے مالک و مختار ہیں لہذا) حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں ان الفاظ کا لکھنا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا۔(امام احمد رضا اور عشق مصطفی :٢٩٣،ملخصا)
(٣)اعلی حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان اپنی ذات کے لیے تو سب کچھ برداشت کر سکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ادنیٰ سی بے ادبی بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے یہی وجہ ہے کہ گستاخوں کی جانب سے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر کیے جانے والے حملوں کا سختی سے دفاع کرتے رہے تاکہ وہ غصے میں آکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:
ان شاء اللہ العزیز اپنی ذات پر کیے جانے والے حملوں اور تنقید بھرے جملوں کی طرف توجہ نہ دوں گا،سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے مجھے یہ خدمت سپرد ہے کہ عزت سرکار کی حمایت کروں نہ کہ اپنی،میں تو خوش ہوں کہ جتنی دیر مجھے گالیاں دیتے،برا کہتے اور مجھ پر بہتان لگاتے ہیں،اتنی دیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد گوئی اور عیب جوئی سے غافل رہتے ہیں،میری آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ میری اور میرے باپ دادا کی عزت و آبرو عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنی رہے۔(فتاوی رضویہ،ج :١٥ص:٨٩،٩٠،ملخصا)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
جس کو اللہ و رسول کی شان میں ادنیٰ سی بھی توہین کرتا پاؤ، اگر چہ وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو فوراً اس سے جدا ہو جاؤ، جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخی کرتا دیکھو،اگر چہ وہ کیسا ہی عظیم بزرگ کیوں نہ ہو اسے اپنے اندر سے دودھ کی مکھی کی طرح پھینک دو۔(تعلیمات امام احمد رضا بریلوی، ص:٥،ملخصا)
(٤) یوں تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تمام مبارک ہستیوں کا دل و جان سے ادب بجا لاتے مگر پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معاملے میں تو بہت زیادہ ادب کا لحاظ رکھا کرتے تھے اگر کسی کی تحریر یا تقریر سے معاذ اللہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے ادبی کا پہلو نکلتا یا کسی لفظ سے شان اقدس کی تنقیص ہوتی فوراً آپ تنبیہ فرماتے چنانچہ ایک روز سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان کے بھتیجے مولانا حسنین رضا خان صاحب،اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو فتوی طلب کرنے والوں کی طرف سے پوچھے گئے سوالات سنا رہے تھے اور جوابات لکھ رہے تھے،ایک کارڈ پر لفظ"اللہ" لکھا گیا ۔اس پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان نے ارشاد فرمایا:
یاد رکھو کہ میں کبھی تین چیزیں کارڈ پر نہیں لکھتا:اسم جلالت یعنی اللہ،محمد اور احمد اور نہ کوئی آیت کریمہ،مثلا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا ہے تو یوں لکھتا ہوں:حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا اسم جلالت یعنی اللہ لکھنا ہو تو اس کی جگہ مولی تعالیٰ لکھتا ہوں۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ،ص:١٧٣،مکتبۃ المدینۃ)
(٥) سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان کی ذات با برکات میں ادب و تعظیم کا حد درجہ جذبہ تھا،آپ فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول کے اعلی منصب پر فائز تھے،اللہ اور اس کے رسول کی محبت آپ کے دل پر نقش ہو چکی تھی جیسا کہ آپ نے ایک موقع پر خود ارشاد فرمایا:
اگر کوئی میرے دل کے دو ٹکڑے کر دے تو ایک پر لا الہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ لکھا ہوا پائے گا۔(سوانح امام احمد رضا،ص:٩٤)
حبیب خدا کا نظارہ کروں میں
دل و جان ان پر نثارا کروں میں
خدا ایک پر ہو تو اک پر محمد
اگر قلب اپنا دو پارہ کروں میں
(٦) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب تک بقید حیات رہے،عِشْقِ رسول میں مست و مگن رہے اور اس کے طُفیل بارگاہِ مُصْطَفٰے سے حاصل ہونے والے اَنوار و تَجَلِّیات سے خُود بھی فیض یاب ہوتے رہے اور مخلوقِ خُدا کو بھی فیض یاب کرتے رہے
نیز رحمتِ عالَم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عِنایتوں کا سلسلہ صرف آپ کی حیات تک ہی مَحْدُود نہ رہا بلکہ بعدِ وِصال بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پر لُطف و رِضوان کی بارشیں ہوتی رہیں۔ جیسا کہ مولانا بدر الدین قادری نے سوانح اعلی حضرت میں رقم طراز ہیں کہ:
پچّیس(25)صَفَر المُظَفَّرکو بَیْتُ المقدَّس میں ایک شامی بُزُرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے خواب میں اپنے آپ کو دربارِ رسالت میں پایا ۔تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور اَولیائے عِظام، دربار میں حاضِر تھے، لیکن مجلس میں خاموشی طاری تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی آنے والے کا اِنتظار ہے۔شامی بُزُرگرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے بارگاہِ رسالت میں عرض کی،حُضور! میرے ماں باپ آپ پر قُربان ہوں، کس کا اِنتظار ہے ؟سیِّدِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:”ہمیں اَحمد رضا کااِنتظار ہے۔“شا می بُزُرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے عرض کی، حُضُور ! اَحمد رضا کون ہیں؟ ارشاد ہوا:ہندوستان میں” بریلی“ کے باشِندے ہیں۔بیداری کے بعد وہ شامی بُزُرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مولانا احمد رضا رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی تلاش میں ہندوستان کی طرف چل پڑے اور جب وہ بریلی شریف آئے تو اُنہیں معلوم ہوا کہ اُس عاشِقِ رسول کا اُسی روز (یعنی 25 صَفرُالمُظفَّر ۱۳۴۰ھ کو) وِصال ہوچُکا تھا(سوانح اعلی حضرت، ص:٣٨٣)
یا الٰہی جب رَضا خوابِ گِراں سے سر اُٹھائے
دولتِ بیدارِ عِشْقِ مُصطفٰے کا ساتھ ہو
علاوہ ازیں سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان کے عشق رسول کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنی نعتیہ شاعری کا مجموعہ بنام "حدائق بخشش" کے اندر سرکار کی شان مقدسہ میں ایسی مدح سرائی فرمائی کہ ایک ایک اشعار سے عشق رسول کا چھلکتا ہوا جام اور الفت ومحبت کا بحر مدید نظر آتا ہے.چند اشعار ہدیہ قارئین ہیں :
سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے
باغ خلیل کا گل زیبا کہوں
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
وہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
جب آگئی ہیں جوش رحمت پہ ان کی آنکھیں
جلتے بجھا دیئے ہیں روتے ہنسا دیئے ہیں
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیئےہیں در بے بہا دیئے ہیں
خلاصہ یہ کہ آپ کی ذات سراپا عشق رسول سے معمور تھی اور ہمہ وقت محبت رسول اور عشق نبی میں سرشار رہا کرتے تھے۔
رب تعالیٰ ہم سب کو سچا عاشق رسول بنائے اور سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ و الرضوان کے فیوض و برکات سے ہم سب کو مالا مال فرمائے. آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلاۃ و التسليم صلى الله عليه وسلم
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں