📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت بہاول شیر قلندر قادری رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: سید بہاء الدین گیلانی۔
لقب: بہاول شیر قلندر حجروی۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: سید بہاول شاہ بن سید محمود بن سید علاؤالدین المشہور زین العابدین بن سید مسیح الدین (۱) بن سید صدرالدین بن سید ظہیر الدین بن سید شمس الدین بن مؤمن بن سید مشتاق بن سید علی بن سید صالح بن سید قطب الدین بن سید عبدالرزاق بن محبوبِ سبحانی حضرت غوث الاعظم سید شیخ عبدالقادر جیلانی علیہم الرحمۃ والرضوان۔
(حدیقۃ الاولیاء:34 /تذکرۂ مقیمی:20/ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام:107)
(۱) صرف تذکرۂ مقیمی میں سید مسیح الدین کی جگہ سید فتح اللہ آیا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ لقب ہو۔
آپ کے والد ماجد اور پھوپھی تبلیغِ اسلام کی غرض سے ہندوستان میں قصبہ بدایوں میں وارد ہوئے تھے۔ آپ کے والد گرامی اپنے وقت کے جید عالم و عارف تھے۔ عبادت و ریاضت زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔آج بھی ان کا مزار بدایوں میں مرجعِ خلائق ہے۔
(انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام:107)
تاریخِ ولادت: مؤرخ اہل سنت مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللّٰه علیہ نے حدیقۃ الاولیاء میں تحریر فرمایا ہے کہ آپ کی عمر مبارک دو سو پچاس برس ہوئی، اور وصال 973ھ میں ہوا، تو اس لحاظ سے تاریخِ ولادت 723ھ، مطابق 1323ء بنتی ہے۔ آپ کی پیدائش بغداد معلیٰ میں ہوئی۔کم سنی میں میں والد کے ہمراہ ہندوستان ورود ہوا تھا۔ (حدیقۃ الاولیاء:35)
تحصیلِ علم: تعلیم و تربیت اپنے پدر بزرگوار سے پائی تھی۔ اِن کی وفات کے بعد پھوپھی نے جو اپنے وقت کی زاہدہ و عابدہ خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور اس ذمہ داری کو احسن انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس وقت کے علوم مروجہ کی تعلیم کی تکمیل فرمائی۔ (حدیقۃ الاولیاء:35)
بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں شیخ عبدالجلال صحرائی رحمہ اللّٰه کے خلیفہ تھے۔ آپ کا سلسلہ طریقت صرف نو واسطوں سے حضرت شہنشاہ بغداد رضی اللّٰه عنہ سے متصل ہوتا ہے۔
سیرت و خصائص: غوث الوقت، قطب الاقطاب، رئیس الابدال، صاحبِ نسبتِ غوثیہ، مردِ قلندر، حضرت سید بہاء الدین گیلانی المعروف بہاول شیر قلندر رحمۃ اللّٰه علیہ۔
آپ علم و فضل، زہد و تقدس، عبادت و مجاہدہ اور خوارق و کرامت میں مشائخ قادریہ میں درجۂ بلند رکھتے تھے۔ جذب و سکر اور ذوق و شوق کا طبیعت پر بے حد غلبہ تھا۔ آپ نے بڑی طویل عمر پائی تھی۔ کہا جاتا ہے مشائخ قادریہ میں سے آج تک کسی نے اتنی بڑی عمر نہیں پائی۔ روایت ہے ایک سو برس کی عمر میں آپ کی داڑھی نکلی تھی۔ تین مرتبہ بارہ بارہ سال کی خلوت میں بیٹھے تھے۔ ایک دفعہ حالتِ استغراق و جذب و سکر میں اتنا طویل عرصہ ایک غار میں بیٹھے کہ جس پتھر کے ساتھ پشت تکیہ گاہ تھی جب وہاں سے اٹھے تو پشت کا کچھ چمڑہ اس پتھر کے ساتھ لگا رہ گیا۔
یہ بھی روایت ہےکہ ایک دفعہ آپ خلوت سے اٹھ کر اس مقام پر آبیٹھے جہاں اب قصبہ حجرہ آباد ہے۔ اُس وقت یہاں دریا بہتا تھا۔ دریا کے کنارے پر آپ نے حجرہ و خانقاہ تعمیر کیا اور سکونت پذیر ہوگئے۔ زمیندارانِ قوم دھُول جن کی ملکیت میں وہ زمین تھی آپ کو وہاں سے اُٹھ جانے کے لیے کہا۔ حضرت نے وہاں سے کچھ دُور جاکر قیام کر لیا۔ وہاں بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اس دفعہ آپ جلال میں آگئے اور دریا کو حکم دیا کہ یہاں سے ہٹ جائے اور ہمارے رہنے کے لیے جگہ خالی کردے۔ دریا فی الفور وہاں سے دُور تک ہٹ گیا اور ایک بلند ٹیلہ دریا سے نکل آیا جس پر آپ نے قیام فرما لیا۔ آپ کا یہ تصرف دیکھ کر وہاں کے تمام زمیندار حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔
ایک دفعہ آپ حضرت شیخ داؤد چونی وال رحمہ اللّٰه شیر گڑھی کی ملاقات کے لیے آئے۔ مگر شیخ داؤد آپ کے رعب و ہیبت سے اتنے مرعوب ہوئے کہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ آپ نے کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد فرمایا: ’’مرغی انڈوں پر بیٹھی ہوئی ہے۔ باہر نہیں آتی تو کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر واپس چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آپ ہی کے ارشاد کا اثر تھا کہ شیخ داؤد رحمہ اللّٰه بڑے کثیر اولاد ہوئے۔ جس ہئیت میں آپ رحمہ اللّٰه شیخ، داؤد رحمہ اللّٰه سے ملنے آئے تھے وُہ یہ تھی کہ شیر پر سوار تھے اور ہاتھ میں کوڑے کی بجائے سانپ تھا۔
آپ کے بڑے صاحبزادے اور خلیفہ کا نام سید محمد نور شاہ گیلانی تھا۔ یہ بھی اپنے وقت کے خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ جب سید بہاول شیر قلندر رحمۃ اللّٰہ علیہ کا وصال ہوا تو سید نور محمد حاضر نہ تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں ہی دفنائے گئے۔جب واپس آئے تو دیدار والد کےلئے سخت بےتاب ہوئے، اور چاہا کہ قبر کھدواکر باپ کا چہرہ دیکھ لوں۔ اس ارادے سے قبر پر خیمہ نصب کر دیا۔ سب کو نکال دیا۔ تنہائی میں اپنے ہاتھ سے قبر کو کھودا اور زیارت کی۔ اس وقت ناگہاں ایک معمار (مستری) جو حضرت کے مریدوں میں سے تھا بےاختیار اندر آگیا۔ چونکہ بلا اجازت اندر آیا تھا اس لئے بنائی سلب ہوگئی۔ چند سال بعد جب سید نور محمد کا ارادہ ہوا کہ والد گرامی کی قبر پر ایک گنبد بنائیں تو اس معمار نے عرض کیا اگر میں بینا ہوجاؤں، تو حضرت قلندر کا مقبرہ میں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کروں گا۔
فرمایا: دن بھر جب تو کام کرتا رہےگا تو بینا رہےگا اور جب کام سےاٹھے گا تو اندھا ہوجائےگا۔ چنانچہ جب تک مقبرہ تیار ہوتا رہا ایسا ہی ہوتا رہا۔ دن کو بینائی ہوتی اور رات کو ختم ہوجاتی۔ مقبرہ مکمل ہونے کے بعد دن میں بھی کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ (حدیقۃ الاولیاء:39)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 18/شوال المکرم 973ھ مطابق مئی/1566ء کو بعہدِ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ہوا۔ مزار شریف حجرہ شاہ مقیم تحصیل دیپال پور ضلع اوکاڑا میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
ماخذ و مراجع: حدیقۃ الاولیاء۔ تذکرہ اولیاء۔ خزینۃ الاصفیاء۔ تذکرہ مقیمی۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں