معبودان کفار اور شرعی احکام قسط نہم ‏

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

معبودان کفار اور شرعی احکام 
 
قسط نہم 

قسط نہم میں بحث سیزدہم ہے۔اس میں کفار کے میلوں میں شرکت کا حکم مرقوم ہے۔

بحث سیز دہم:

کفارکے میلوں میں شرکت کے احکام 

کفار کا میلہ دوقسم کا ہوتا ہے۔مذہبی اورغیرمذہبی۔ دونوں کے احکام میں فرق ہے۔ 

ان کے میلوں میں شرکت کے چار احکام ہیں: (1) عدم جواز وحر مت (2)کفر (3) جواز مشروط (4)جوا ز مطلق۔چاروں احکام کی تفصیل مندرجہ ذیل فتویٰ میں ہے۔

 مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اہل ہنود کے میلوں میں مثل دسہرہ وغیرہ میں جو مسلمان دیکھنے کی غرض سے جاتے ہیں، کیا ان کی عورتیں نکاح سے باہر ہوجاتی ہیں؟ کیا تجارت پیشہ لوگوں کو بھی جانا ممنوع ہے؟

الجواب:ان کا میلہ دیکھنے کے لیے جانا مطلقا ناجائز ہے۔ اگر ان کا مذہبی میلہ ہے جس میں وہ اپناکفر وشرک کریں گے،کفر کی آواز وں سے چلائیں گے،جب تو ظاہر ہے، اور یہ صورت سخت حرام من جملہ کبائر ہے،پھر یہ بھی کفرنہیں،اگر کفری باتوں سے نافر ہے۔

ہاں، معاذاللہ ان میں سے کسی بات کو پسند کرے یا ہلکا جانے تو آپ ہی کافر ہے۔ اس صورت میں عورت نکاح سے نکل جائے گی اور یہ اسلام سے،ورنہ فاسق ہے، اور فسق سے نکاح نہیں جاتا، پھر بھی وعید شدید ہے، او ر کفریات کو تماشا بنانا ضلال بعید ہے۔

حدیث میں ہے:(من کثر سواد قوم فہومنہم-ومن رضی عمل قوم کان شریک من عمل بہ-رواہ ابویعلی فی مسندہ وعلی بن معبد فی کتاب الطاعۃ والمعصیۃ عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم،ورواہ الامام عبد اللّٰہ بن المبارک فی کتاب الزھد عن ابی ذر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ من قولہ-وھو عند الخطیب عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم،بلفظ: من سود مع قوم فہو منہم)

(جو کسی قوم کا جتھا بڑھائے،وہ انھیں میں سے ہے،اور جو کسی قوم کا کوئی کام پسند کرے،وہ اس کام کرنے والوں کا شریک ہے۔ 

امام ابویعلی نے اپنی مسند میں اس کو روایت فرمایا،اور علی بن معبد نے کتاب الطاعۃ والمعصیۃ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اسے روایت کیا،اور امام عبداللہ بن مبارک علیہ الرحمہ نے کتاب الزہد میں حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے اس کو روایت کیا، جب کہ وہ خطیب کے نزدیک حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے: جو کسی قوم کے ساتھ ہوکر ان کا جتھا بڑھائے تو وہ انہی میں شمار ہے: ت) 

اور اگر مذہبی میلہ نہیں، لہو ولعب کا ہے، جب بھی ناممکن کہ منکرات وقبائح سے خالی ہو اور منکرات کاتماشا بنانا جائز نہیں۔

ردالمحتارمیں ہے:(کرہ کل لہو،والاطلاق شامل لنفس الفعل واستماعہ)

(ہرکھیل مکروہ یعنی ناپسندیدہ کام ہے، اور اس کو مطلق (بغیر کسی قید) ذکر کرنا اس کے کرنے اور سننے دونوں کو شامل ہے:ت)

طحطاوی صدر کتاب بیان علوم محرمہ ذکر شعبدہ میں ہے:(یظہر من ذٰلک حرمۃ التفرج علیہم لان الفرجۃ علی المحرم حرام)  

(اس سے کھیل (تماشا) پر خوشی منانے کی حرمت ظاہر ہوتی ہے، کیوں کہ کسی حرام کام پر خوشی منانا بھی حرام ہے:ت)

 یعنی شعبدہ باز بھان متی بازیگر کے افعال حرام ہیں، اور اس کا تماشا دیکھنا بھی حرام ہے کہ حرام کو تماشا بنانا حرام ہے، خصوصا اگر کافروں کی کسی شیطانی خرافات کو اچھا جانا تو آفت اشد ہے،اور اس وقت تجدید اسلام وتجدید نکاح کا حکم کیا جائے گا۔

غمز العیون میں ہے:(اتفق مشائخنا ان من رأی امر الکفار حسنا فقد کفر حتی قالوا فی رجل قال:ترک الکلام عند اکل الطعام حسن من المجوس اوترک المضاجعۃ عندھم حال الحیض حسن فہو کافر)

(ہمارے مشائخ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ جس نے کافروں کے کسی کام کو اچھا سمجھا تو وہ کافر ہوگیا۔ انھوں نے یہاں تک شدت اختیار فرمائی کہ اگر کسی شخص نے (آتش پرستوں کے بارے میں کہا کہ ان کا طعام کھانے کے وقت خاموش رہنا اچھی بات ہے،اور اسی طرح ایام ماہواری میں عورت کے پاس نہ لیٹنا عمدہ بات ہے تو وہ کافر ہے، (یعنی اہل کفر کی بات کو بھی اچھا کہنا یا سمجھنا خالص اسلام میں موجب کفر ہے:ت) 

اوراگر تجارت کے لیے جائے تو اگر میلہ ان کے کفروشرک کاہے،جانا ناجائزوممنوع ہے کہ اب وہ جگہ ان کا معبد ہے، اور معبدکفار میں جانا گناہ۔

 تیمیہ پھر تتارخانیہ پھر ہندیہ میں ہے:(یکرہ للمسلم الدخول فی البیعۃ و الکنسیۃ-وانما یکرہ من حیث انہ مجمع الشیاطین)

(یہودیوں کی عبادت گاہ اور عیسائیوں کے گرجے(چرچ) میں کسی مسلمان کا داخل ہونا مکروہ ہے، اس لیے کہ وہ شیاطین کے جمع ہونے کی جگہ ہے:ت) 

بحرالرائق میں ہے:(والظاھر انہا تحریمیۃ لانہا المرادۃ عند اطلاقہم)

(ظاہر یہ ہے کہ کراہت سے کراہت تحریمی مرا دہے،کیوں کہ ”عندالاطلاق“ وہی مراد ہواکرتی ہے:ت)

بلکہ ردالمحتار میں ہے:(فاذا حرم الدخول فالصلٰوۃ اولی)

(جب وہاں جانا اور داخل ہونا حرام ہے تو نما پڑھنا بدرجہ اولیٰ حرام ہے:ت) 

اوراگر لہو ولعب کا ہے،اور خود اس سے بچے۔نہ اس میں شریک ہو،نہ اسے دیکھے، نہ وہ چیزیں بیچے جو ان کے لہو ولعب ممنوع کی ہوں تو جائز ہے، پھر بھی مناسب نہیں کہ ان کا مجمع ہر وقت محل لعنت ہے تو اس سے دوری ہی میں خیر وسلامت ہے ولہٰذا علما نے فرمایا کہ ان کے محلہ میں ہو کر نکلے تو جلد لمکتا ہوا گزر جائے۔

غنیہ ذوی الاحکام،پھر فتح اللہ المعین، پھر طحطاوی میں ہے:(ھم محل نزول اللعنۃ فی کل وقت-ولا شک انہ یکرہ السکون فی جمیع یکون کذٰلک -بل وان یمر فی امکنتہم الا ان یھرول ویسرع وقد وردت بذٰلک اٰثار)

(اس لیے کہ ہر وقت مقامات کفار پر خدا کی لعنت برستی ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی مجلس (اور جگہ) میں ٹھہرنا مکروہ (ناپسندیدہ امر) ہے،بلکہ ان کے مقامات کے قریب سے جب کبھی گزرنا پڑے تو جلدی سے دوڑ کر گزرے، چناں چہ آثارمیں یہی وارد ہوا ہے:ت)

اوراگر خود شریک ہو،یا تماشا دیکھے،یا ان کے لہو ممنوع کی چیز بیچے تو آپ ہی گناہ وناجائز ہے۔ 

درمختارمیں ہے:(قدمنا معزیا للنہر،ان ما قامت المعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ تحریمًا والا فتنزیہا)

(ہم نے ”النہر الفائق“ کی طرف نسبت کرتے ہوئے پہلے بیان کردیا ہے جس کے ساتھ بعینہٖ گناہ قائم ہو، اس کا فروخت کرنا مکروہ تحریمی ہے،لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر کراہت تنزیہی ہوگی:ت) 

فتاوی عالمگیری میں ہے:(اذا ارا د المسلم ان یدخل دارالحرب بامان للتجارۃ ومعہ فرسہ وسلاحہ وھو لا یرید بیعہ منہم لم یمنع ذٰلک منہ)

(جب کوئی مسلمان دارحرب (دار کفر) میں کاروبار کے لیے جاناچاہے،اور اس کے ساتھ گھوڑا اور ہتھیار وغیرہ ہوں،او روہ انھیں (وہاں) بیچنے کا ارادہ نہ رکھتاہو تو اسے نہ روکا جائے:ت)

ہاں،ایک صورت جواز مطلق کی ہے۔ وہ یہ کہ عالم انھیں ہدایت اور اسلام کی طرف دعوت کے لیے جائے، جب کہ اس پر قادر ہو۔یہ جانا حسن ومحمود ہے، اگر چہ ان کامذہبی میلہ ہو۔ ایسا تشریف لے جانا خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بارہا ثابت ہے۔

مشرکین کا موسم بھی اعلان شرک ہوتا۔ لبیک میں کہتے:
(لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک)

(تیرا کوئی شریک نہیں، مگر وہ شریک جس کاتو مالک ہے، مگر وہ تیرا مالک نہیں:ت)

جب وہ سفہاء ”لاشریک“ تک پہنچتے، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے:
(ویلکم قط قط)،خرابی ہو تمھارے لیے، بس بس،یعنی آگے استثنا نہ بڑھاؤ:واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ:جلد21:ص161-157-جامعہ نظامیہ لاہور)

منقولہ بالا فتویٰ میں چا ر صورتوں کا بیان ہے۔ اگر تبلیغ دین کے لیے کوئی عالم جائے اور وہ تبلیغ دین کی قدرت رکھتا ہوتو اسے جانا جائز ہے،وہ مذہبی میلہ ہو، یاکھیل کود کا۔یہی جواز مطلق کی صورت ہے۔

دوسروں کو کفار کے مذہبی میلہ میں جانا سخت ناجائزوحرام ہے۔

اگر مذہبی یاغیر مذہبی میلہ میں جائے اور اس کے کسی کفریہ فعل کو پسند کرے تو کفر ہے۔

اگرکھیل کود کا میلہ ہے، اور وہ کھیل کود خود ہی حرام ہوتو اس میں شرکت بھی حرام۔

اگر مذہبی میلہ میں تجارت کے لیے جائے تو یہ بھی نا جائز،کیوں کہ وہ جگہ کفار کی عبادت گا ہ ہوگئی۔وہ وہاں اپنی کفریہ عبادتیں کریں گے۔

اگر لہو ولعب کی مجلس میں تجارت کے لیے جائے،اور اس کے لہوولعب اور ناجائز کامو ں سے بچے تو جائز ہے،لیکن جانا مناسب نہیں، مقامات کفار پرہروقت لعنت برستی ہے۔


کفار کے مذہبی میلہ میں شرکت کے احکام

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اہل ہنود میں کم زیادہ ایک ہفتہ تک شام سے آدھی رات تک یا بعد تک ایسی مجلس ہوتی رہے کہ جس میں رام ولچھمن وراون وسیتا وغیرہ عورت ومرد کے قسم قسم کی تصویریں دکھائی جائیں اورساتھ ہی ان کے طرح طرح کاباجابجا کر بھجن وغیرہ گانا گایا جائے اور ان تصویروں کو نعوذ باللہ معبود حقیقی سمجھیں اور ہر طرح کے فحش ولغویات پیدا ہوتے ہوں تو ایسی مجلسوں میں ان مسلمانوں کو جو ازروئے تحقیق مذہب اسلام ایسی تقاریب کی برائیوں سے بھی فی الجملہ واقف ہوں اور نمازی بھی ہوں، شریک مجلس ہونا اور دلچسپی حظ نفس اٹھانا وبعض بعض شبیہ ناپاک پر نظر ڈالنا وبعض شبیہ عورات پرشہوت کی نظر ڈالنا اور مثل عقائد باطلہ اہل ہنود تعریف و توصیف سوانگ وتماشہ میں بتا لیف قلوب مشرکین تائید یا ہوں ہاں کرنا۔

اور عشا وفجر کی نمازیں بایں نمط کہ عشا بمصروفی تماشہ وفجر کی نماز غلبہ نیند سے قضا کرنا وباعتراض بعض مانعین یہ کہنا کہ ہم تو حق و باطل میں امتیاز ہوجانے کی غرض سے شامل ہوتے ہیں اور ایسی ہی بے سود تاویلات کرنا اور زینت مجلس کے واسطے اپنے گھروں سے جاجم ودیگر فرش وچوکیات وپارچہ وزیورات دینا اور بوقت اختتام جلسہ اپنی نام آوری یا فخر یا شخصیت یا اہل ہنود میں اپنی وقعت ہونے یا بصورت نہ دینے کے اپنی ذلت وحقارت جان کر ہمراہ اہل ہنود روپیہ روپیہ دینا بالخصوص وہ مسلمان جو کسی مسافر مسکین کو باوجود مقدرت آنہ دو آنہ نہ دے سکتے ہوں اور اس مجلس کی شیرینی جو بنام نہاد پرشاد تقسیم ہوتی ہے، کھانا تو ایسے مسلمانوں کے واسطے ازروئے احکام شرع شریف کیا کیا حکم ہے۔ صاف صاف مع عبارت قرآن مجید وحدیث شریف وفقہ مبارک جداگانہ ہر امور مستفسرہ صدر کا جواب مفصل ارقام فرمائیں۔اللہ تعالیٰ اجر دے گا۔فقط والسلام علی ختم الکلام

الجواب:ایسے لوگ فساق فجار کبائر مستحق عذاب نار وغضب جبار ہیں۔ مسلمان کو حکم ہے راہ چلتاہوا کفار کے محلہ سے گزرے تو جلد نکل جائے کہ وہ محل لعنت ہے،نہ کہ خاص ان کی عبادت کی جگہ، جس وقت وہ غیر خدا کو پوج رہے ہوں،قطعاً اس وقت لعنت اترتی ہے اور بلا شبہ اس میں تماشائیوں کا بھی حصہ ہے۔ 

یہ اس وقت ہے کہ محض تماشا مقصود ہو، اور اسی غرض سے نقد واسباب دے کر اعانت کی جاتی ہو،اور اگر ان افعال ملعونہ کو اچھا جانا، یا ان تصاویر باطلہ کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا،یا ان کے کسی حکم کفر پر”ہوں ہاں“ کہا جیسا کہ سوال میں مذکور، جب تو صریح کفر ہے۔

غمز العیون میں ہے:
(من استحسن فعلا من افعال الکفارکفر باتفاق المشائخ)

ان لوگوں کواگر اسلام عزیز ہے اور یہ جانتے ہیں کہ قیامت کبھی آئے گی اور واحد قہار کے حضور جانا ہوگا تو ان پر فرض ہے کہ توبہ کریں اور ایسی ناپاک مجلسوں سے دور بھاگیں، نئے سرے سے کلمہ اسلام اور اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں ورنہ عذاب الٰہی کے منتظر رہیں۔قال اللّٰہ تعالٰی:(یٰایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوٰت الشیطن ان الشیطن للانسان عدومبین) 
(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جزدوم:ص137-رضا اکیڈمی ممبئ)

آیت طیبہ: (یایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوٰت الشیطن ان الشیطن للانسان عدومبین) 

ترجمہ:اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، کیوں کہ وہ انسان کا کھلا اور واضح دشمن ہے۔ 

(من استحسن فعلا من افعال الکفار کفر باتفاق المشائخ)

ترجمہ:جس شخص نے کافروں کے افعال میں سے کسی فعل کو اچھاسمجھاتومشائخ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ بلا شک وشبہ کافر ہوگیا ہے۔ (غمز العیون)

منقولہ بالا فتویٰ میں مذہبی میلہ میں شریک ہونے کا دوحکم بیان کیا گیا ہے۔

اگر محض کھیل تماشا دیکھنے کی غرض سے شریک ہوا تویہ سخت حرام وناجائز ہے۔

اگرکفار کے کسی کفریہ فعل کو اچھا جانا تو کفر ہے۔کفار کے کسی مذہبی عمل کواچھا جانا تو کفرہے۔ معبودان باطل کی تصویروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھناکفر ہے۔ان کی کفریہ باتوں پر زبان سے ”ہاں ہوں“ کرنا یعنی تائید وتحسین کرنا کفرہے۔دراصل ایسی جگہوں میں جانا ہی کفر میں مبتلا ہونے کا سبب ہے۔ایسے مقامات پرلعنت اترتی ہے۔


پسندیدگی کے ساتھ شریک ہونا

کفار کے مذہبی میلہ میں کھیل تماشا دیکھنے جائے تو سخت حرام وناجائز ہے۔ اگر مذہبی میلہ کو اچھا سمجھ کرشریک ہو تو کفر ہے۔ کافرکے مذہبی میلہ کو اچھا سمجھنا کفر ہے۔

(1)امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے ہولی اور دیولی کے بارے میں رقم فرمایا:
”ہولی دیوالی ہندؤوں کے شیطانی تہوار ہیں۔جب ایران خلافت فاروقی میں فتح ہوا۔ بھاگے ہوئے آتش پرست کچھ ہندوستا ن میں آئے۔ ان کے یہاں دو عیدیں تھیں، نوروز کہ تحویل حمل ہے،اور مہرگان کہ تحویل میزان۔ وہ عیدیں اور ان میں آگ کی پرستش ہندؤوں نے ان سے سیکھیں، اور یہ چاند سورج دونوں کو پوجتے ہیں، لہٰذا ان کے وقتوں میں یہ ترمیم کہ میکھ سنکھ رانت کی پور نماشی میں ہولی اور تلاسنکھ رانت کی اماؤس میں دیوالی۔ یہ سب رسوم کفار ہیں۔ مسلمانوں کو ان میں شرکت حرام،اور بطور پسند کریں تو صریح کفر۔

غمز العیون میں ہے:(اتفق مشایخنا ان من رأی امرالکفارحسنا فقد کفر حتی قالوا فی رجل قال ترک الکلام عنداکل الطعام حسن من المجوسی اوترک المضاجعۃ عندھم حال الحیض حسن فہو کافر: واللہ تعالیٰ اعلم“۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص149-رضا اکیڈمی ممبئ)

(2)امام اہل سنت قدس سرہ نے رقم فرمایا:”مسلمان کو دسہرے کی شرکت حرام ہے،بلکہ فقہا نے اسے کفر لکھا ہے، اور اس میں بہ نیت موافقت ہنود ناقوس بجانا بے شک کفر ہے، اور معبودان کفار پر پھول چڑھانا کہ ان کا طریقہ عبادت ہے، اشد واخبث کفر“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص149-رضا اکیڈمی ممبئ)

(3)اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری نے تحریر فرمایا:”جو مرتکب حرام ہے،مستحق عذاب جہنم ہے،اور جو مرتکب کفر فقہی ہے،جیسے دسہرے کی شرکت یاکافروں کی جے بولنا، اس پر تجدید اسلام لازم ہے،اور اوراپنی عورت سے تجدید نکاح کرے، اور جوقطعاً کافر ہوگیا، جیسے دسہرے میں بطور مذکور ہنود کے ساتھ ناقوس بجانے یامعبودان کفار پر پھول چڑھانے والا کافر مرتد ہوگیا،اس کی عورت نکاح سے نکل گئی۔اگر تائب ہو،اور اسلام لائے، جب بھی عورت کواختیار ہے۔ بعد عدت جس سے چاہے،نکاح کرلے،اوربے توبہ مرجائے تو اسے مسلمانوں کی طرح غسل وکفن دینا حرام،اس کے جنازے کی شرکت حرام،اسے مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام،اس پر نماز پڑھنا حرام،الیٰ غیر ذلک من الاحکام:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص149-150-رضا اکیڈمی ممبئ)

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:29:ستمبر2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے