اعلیٰ حضرت کی ولادت اور آپ کا مبارک بچپن

*اعلیٰ حضرت کی ولادت اور آپ کا مبارک بچپن*

اعلیٰ حضرت کی ولادت 10/شوال 1272ھ مطابق 14 جون 1856ء موافق 11/ جیٹھ سدی 1913/سمبت کو بروز ہفتہ ظہر کے وقت بریلی شہر کے محلہ جسولی میں ہوئی۔ 
 پیدائشی نام *محمد* رکھا گیا کیا اور داداحضور نے آپ کا نام عرفی *احمد رضا* تجویز فرمایا۔ تاریخی نام *المختار* ہے جس سے 1272 کا عدد نکلتا ہے۔ 
گھر والے آپ کو *امن میاں* کے نام سے پکارتے تھے۔ 
اعلی حضرت نے خود اپنی سنہ پیدائش قرآن کریم کی آیت *{أولئك كتب فى قلوبهم الايمان و أيده‍م بروح منه}* سے نکالی جس کے عدد 1272 ہوتے ہیں۔  
اس آیت کا ترجمہ اور مطلب ہے کہ *یہی ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان نقش کردیا ہے اور اپنی طرف سے روح کے ذریعہ ان کی مدد فرمائی* آپ کے دادا حضور نے عقیقہ کے دن ایک اچھا خواب دیکھا اس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ فرزند فاضل عارف ہوگا۔ 
 آپ کی پیدائش کے وقت آفتاب منزل غفر میں تھا جس کو مبارک ساعت سمجھا جاتا ہے۔ 
*تعلیم و تربیت* 
پہلے دن جب بسم اللہ شریف کے بعد آپ کو استاد محترم الف ب ت پڑھاتے ہوئے لا تک پہنچے تو آپ خاموش ہو گئے استاد نے فرمایا کہو لام الف آپ نے عرض کیا یہ دونوں تو میں پڑھ چکا ، اس کو دوبارہ کیوں پڑھایا جا رہا ہے آپ کے دادا حضور بھی اس مجلس میں تھے وہ سمجھ گئے کہ بچہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ تنہا تنہا حروف پڑھانے کا سبق ہے اس میں یہ دو حروف والا لفظ کیسے آگیا جب کہ میں ان دونوں حرفوں کو علیحدہ علیحدہ پڑھ چکا ہوں لہذا دادا حضور نے فرمایا تمہارا خیال صحیح ہے، مگر جو تم نے پہلے پڑھا وہ الف نہیں تھا، ہمزہ تھا، کیونکہ الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے جو کسی کے ساتھ مل کر پڑھا جاتا ہے لہذا لام کے ساتھ اس کو ملا دیا تاکہ اس کو پڑھا جاسکے۔ آپ نے عرض کیا جب الف ساکن ہوتا ہے تو اس کو لام کے ساتھ اتنی دور آ کر کیوں ملایا اس سے پہلے باتا ثا وغیرہ گزرے ان میں سے کسی کے ساتھ ملا دیا جاتا۔ 
دادا حضور نے جواب دیا بیٹا الف اور لام میں صورت اور سیرت دونوں اعتبار سے مماثلت ہے اس لیے اس کے ساتھ ملا دیا آپ نے فرمایا جب دونوں کو ملا کر لکھتے ہیں تو دونوں کے شوشے بسا اوقات یکساں ہوتے ہیں۔ 
پھرا سیرت کے اعتبار سے دونوں میں مماثلت اور قلبی تعلق کو اس طرح بیان فرمایا کہ جب الف لام لکھو پھر دیکھو الف کے درمیان میں لام ہے اور لام کے بیچ میں الف، یہ دونوں میں قلبی تعلق ہے اس لئے یہاں الف کو لام کے ساتھ ملا کر لکھا گیا سبحان اللہ ! یہ سبق پہلے دل کا تھا جس سے آپ کی ذہانت اور دادا حضور کے معارف علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ 

ایک دن ایسا ہوا کہ استاد نے قرآن کریم میں ایک جگہ کچھ اعراب بتایا مگر آپ نے اس کے خلاف پڑھا انہوں نے دوبارہ سخت لہجہ میں بتایا آپ نے پھر پہلے کی طرح پڑھا قریب کمرہ میں دادا حضور تشریف رکھتے تھے آپ کو اپنے پاس بلا لیا چونکہ آپ کو بھی غلطی محسوس ہو رہی تھی لہذا دوسرا قرآن کریم منگا کر دیکھا، دونوں کو ملا کر واضح ہوا کہ کاتب کی غلطی سے زیر کا زبر ہو گیا ہے اور صحیح زیر ہے جو بچہ پڑھ رہا تھا۔ 
پھر دادا حضور نے فرمایا امن میاں تم یہ بتاؤ کہ تم استاد کے کہنے کے مطابق کیوں نہیں پڑھتے تھے آپ نے عرض کیا میں ارادہ تو کرتا تھا مگر زبان پر جاری ہی نہیں ہوتا تھا کہ حضور نے تبسم فرمایا کر سر پر ہاتھ پھیرا اور دل سے دعا دی۔ پھر فرمایا یہ بچہ صحیح پڑھ رہا تھا کاتب نے غلط لکھ دیا تھا پھر اپنے قلم فیض رقم سے اس کی تصحیح فرما دی۔ 
آپ کی تعلیم کے دوران ایسے حیرتناک واقعات دیکھ کر ایک دن استاذمحترم نے تنہائی میں پوچھا صاحبزادہ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں کہ تم انسان ہو یا فرشتہ آپ نے عرض کیا خدا کا شکر ہے کہ میں انسان ہی ہوں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے شامل حال ہے۔ 
 آپ کی درسگاہ میں آنے والے بچے نے ایک دن سلام کیا تو استاد نے جواب میں کہا جیتے رہو آپ نے کہا یہ تو جواب نہ ہوا آپ بھی السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام کہیے، استاد یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔ آپ نے چار سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل پڑھ لیا تھا چھ سال کی عمر میں پونے دو گھنٹے تقریر فرمائی، آپ بچپن میں بچوں کے ساتھ نہ کھیلتے محلہ کے بچے اگر گھر میں آکر کبھی کھیلنے لگتے تو ان کے کھیل میں کبھی شریک نہ ہوتے صرف دیکھا کرتے۔ آپ کے زمانے میں بچوں میں پتنگ اڑانے کا عام رواج تھا آپ پتنگ کبھی نہ اڑاتے اتفاق سے کٹی ہوئی پتنگ گھر کے آنگن میں آ کر گر جاتی تو اس کو اٹھاتے اور والد صاحب کے پلنگ کے نیچے رکھ دیتے والد صاحب آتے اور دیکھتے تو پوچھتے ہیں یہاں کس نے رکھی ہے عرض کیا جاتا امن میاں نے رکھی ہے یہ سن کر فرماتے انہوں نے پتنگ خود نہ اڑائی۔ میرے اڑانے کے لیے رکھ دی پھر فرماتے: ہاں اللہ تعالی نے انہیں کھیل کود کے لیے پیدا ہی نہیں فرمایا۔ 
 آپ کی زبان کھلی تو صاف تھی، بچوں کی طرح کج مج نہ تھی غلط الفاظ آپ کی زبان سے سنیے ہی نہ گئے آپ کے بچپن کی یہ عادت تھی کہ اجنبی عورتیں نظر آجاتیں تو کرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے یہ تھا فطری تقوے کا مظاہرہ۔ 
*بچپن میں آپ سے متعلق بزرگوں کی پیشین گوئیاں*
*پہلا واقعہ:* جب آپ کی پیدائش کے بعد آپ کے دادا حضور کی گود میں آپ کو دیا گیا تو فرمایا *یہ میرا بیٹا بہت بڑا عالم ہوگا*
*دوسرا واقعہ:* ایک دن کسی نے آپ کے دروازہ پر آواز بھی اعلی حضرت کی عمر اس وقت دس سال کے قریب تھی آپ باہر تشریف لے گئے دیکھا کہ ایک بزرگ فقیر صفت کھڑے ہیں آپ کو دیکھتے ہی فرمایا اور سر پر ہاتھ پھیرا پھر فرمایا تم بہت بڑے عالم ہوگے۔  
*تیسرا واقعہ:* بچپن کے زمانے میں آپ کی ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کئی مرتبہ غور سے دیکھا پھر فرمایا: تم رضا علی خان صاحب کے کون ہو؟ آپ نے جواب دیا میں ان کا پوتا ہوں فرمایا: جبھی، یہ فرما کر فورا تشریف لے گئے۔ 
*چوتھا واقعہ:* اعلیحضرت خود بیان فرماتے ہیں کہ میں اپنی مسجد کے سامنے کھڑا تھا اس وقت میری عمر ساڑھے تین سال کی ہوگی میں نے دیکھا کہ ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں تشریف لائے معلوم ہوتا تھا کہ عربی ہیں مجھ سے عربی زبان میں بات چیت کی میں نے بھی عربی زبان میں جواب دیے میں نے اس کے بعد پھر اس بزرگ ہستی کو نہ دیکھا۔ 
*پانچواں واقعہ*۔ بریلی شہر اخوندزادہ مسجد میں ایک مجذوب رہا کرتے تھے بشیر الدین ان کا نام تھا جو کوئی ان کے پاس جاتا کم سے کم پچاس گالیاں اس کو سناتے تھے اعلی حضرت فرماتے ہیں مجھے ان کی خدمت میں حاضری کا شوق ہوا ایک رات گیارہ بجے اکیلا ان کی خدمت میں جا پہنچا اور فرش پر جا کر بیٹھ گیا وہ حجرے میں چارپائی پر بیٹھے تھے، مجھے بغور پندرہ بیس منٹ دیکھتے رہے اور پھر مجھ سے پوچھا تم مولوی رضا علی خاں کے کون ہوں میں نے کہا میں ان کا پوتا ہوں اور وہاں سے جھپٹے اور مجھے اٹھا کر لے گئے اور چارپائی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا آپ یہاں تشریف رکھیے پھر پوچھا کیا مقدمہ کے آئے ہو؟ میں نے کہا مقدمہ تو ہے لیکن میں اس کے لئے نہیں آیا ہوں میں تو صرف دعائے مغفرت کرانے کے لئے حاضر ہوا ہوں قریب آدھے گھنٹے تک کہتے کریں رہے اللہ کرم کرے اللہ کرم کرے اللہ کرم کرے اللہ رحم کرے اللہ رحم کرے اللہ رحم کرے
اس کے بعد میرے منجھلے بھائی مولوی حسن رضا خان ان کے پاس مقدمہ کے لئے حاضر ہوئے تو ان سے بھی خود ہی پوچھا کیا مقدمے کے لئے آئے ہو انہوں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا مولوی صاحب سے کہنا قرآن شریف میں یہ بھی تو ہے (نصر من اللہ و فتح قریب) بس دوسرے ہی دن مقدمہ فتح ہوگیا۔ 
*تقریب روزہ کشائی*
آپ کے روزہ کھولنے کی تقریب بڑے دھوم دھام سے ہوئی سارے خاندان اور احباب کی دعوتیں ہوئیں کھانے پکے افطاریاں بنیں، ان میں فیرنی بھی تھی جس کے پیالے ایک کمرے میں جمانے کے لئے رکھے گئے تھے رمضان المبارک گرمی کے زمانے میں تھے آپ اپنی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا تھا حالانکہ آپ کی عمر بہت چھوٹی سی تھی ٹھیک دوپہر کے وقت چہرہ مبارک پر ہوائیاں اڑنے لگیں آپ کے والد ماجد نے دیکھا تو اس کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کر دیے پھر ایک پیالہ فیرنی کا اٹھا کر دیا کہ لو کھا لو آپ نے عرض کیا میرا تو روزہ ہے انہوں نے فرمایا چھوٹے بچوں کے روزے یوں ہی ہوتے ہیں کمرہ بالکل بند ہے کوئی نہیں دیکھ رہا تم یہ کھالو آپ نے عرض کیا جس کے لیے روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔ یہ سن کر والد ماجد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ بچہ خدا کے عہد کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔  

*ماخوذ از جہان امام احمد رضا ( ١)*

افتخار حسین رضوی
2/10/21

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے