Header Ads

مستقبل کی خاکہ گری

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

مستقبل کی خاکہ گری  

 برصغیر کے مسلمانان اہل سنت وجماعت کے واسطے مستقبل کے چندخاکے منقوشہ ذیل ہیں۔

 علمائے کرام ومفتیان عظام شرعی دلائل کی روشنی میں فیصلہ فرمائیں کہ یہ تجاویز اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی مرضی مبارک کے موا فق ہیں یا نہیں؟ ہم نے امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے افکار ونظریات کے پیش نظر یہ تجاویز رقم کی ہیں:

(1)امت مسلمہ کو عشق مصطفوی کی ترغیب دی جائے اور شخصیت پرستی سے منع کیا جائے۔ دیوبندیوں کے کفر وضلالت کا سبب شخصیت پرستی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ ورسول (عز وجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے صریح احکام پر مطلع ہوکر بھی شخصیت پرستی سے دست بردار نہ ہوئے۔ وہ شرعی احکام کی باطل تاویلات کرنے لگے اور ضلالت وکفر میں مبتلا ہوئے۔عصر حاضرمیں اہل سنت وجماعت کے درمیان بھی شخصیت پرستی پروان چڑھ رہی ہے،لہٰذاسدباب کیا جائے اور لوگوں کارخ دربار اعظم کی جانب پھیر دیا جائے۔

(2)بدمذہبوں سے سیاسی وسماجی اتحاد کی اجازت نہ دی جائے۔اتحاد کے سبب تصلب مفقود ہوجائے گا۔ایک دوسرے کے ساتھ شرعی ضرورت وحاجت کے بغیرنشست وبرخاست،خوردونوش،میل جول،بلکہ شادی بیاہ،دوستی ومحبت ودیگر تعلقات استوار ہو جائیں گے اورانجام کار مسلمانان اہل سنت وجماعت بھی ندویوں کی طرح بدمذہبوں کو اہل حق سمجھنے لگیں گے۔جب یہ خطرہ موجود ہے تو ازروئے شرع بھی ضرر رساں اورنقصان دہ اتحاد کی اجازت نہیں ہوسکتی۔علمائے کرام غوروفکر فرمائیں۔

کسی حادثاتی ضرورت کے حل کے واسطے ہماری جانب سے چند متصلب اور دانشور علمائے کرام کو نمائندہ مقررکیا جائے جو بدمذہبوں کے نمائندوں اور قائد ین سے رابطہ کریں، اور نمائندگان کے اسمائے گرامی کا بھی اعلان کیا جائے،تاکہ عوام وخواص غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے حضرت علامہ عبد الباری فرنگی محلی علیہ الرحمۃ والرضوان کی دعوت پر چند متصلب ومتبحر علمائے کرام کو نمائندہ بنا کر لکھنو بھیجا تھا۔حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی دو متصلب ومتبجر عالم دین کو نمائندہ بنا کرمسلم پرسنل لا بورڈ میں بھیجا تھا۔یہ عمومی اتحاد نہیں،بلکہ نمائندوں کا تقرر تھا۔

(3)مسلمانان اہل سنت وجماعت کے درمیان اتحاد واتفاق کو فروغ دیا جائے۔ لوگ اپنوں سے جدا ہوجاتے ہیں اورغیروں کی طرف اتحاد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں،یہ عجب معاملہ ہے۔اپنوں سے دوستی شرعاً مطلوب ومحمود ہے اور بدمذہبوں سے دوستی شرعاً ممنوع ومذموم۔یہ شیطانی فریب ہے کہ لوگ اپنوں کوچھوڑ کر غیروں کی طرف لپکتے ہیں۔

(4)باب اعتقادیات کے قطعی مسائل میں ہرگز نرمی اختیار نہ کی جائے۔ احکام شرعیہ کو واضح اور مہذب عبارات میں پیش کیا جائے۔جس کا قول وعمل قطعی اعتقادیات ویقینی احکام کے برخلاف ہو، ان کو ضرور مطلع کیا جائے، تاکہ وہ غور وفکر کرسکیں۔

(5)اصحاب نظر فقہائے کرام کوباب فقہیات کے ظنی مسائل میں اختلا ف رائے کا حق ضرور ہے، لیکن ہر فقیہ،صاحب نظر فقیہ نہیں،لہٰذا ہر فقیہ جدید تحقیق پیش نہ کریں۔

(6) امام اہل سنت قدس سرہ العزیز برصغیرمیں مسلمانان اہل سنت وجماعت کے درمیان معتمد ومستند اور مرکزی حیثیت کے حامل ہیں،لہٰذا ان کے بیان فرمودہ کسی بھی امر دینی پرجدید تحقیق منظر عام پر نہ لائی جائے۔اس سے اعتماد پر حرف آتا ہے۔ باب فقہیات کے ظنی مسائل میں شرعی ضرورت وحاجت کے سبب کچھ تبدیلی ضرور ہوتی ہے،لہٰذا جب شرعی ضرورت وحاجت درپیش ہو،تب اکابر علمائے کرام باہمی مشاورت سے ہی کوئی اقدام کریں،تاکہ قیل وقال کا سلسلہ نہ شروع ہوسکے۔بلا ضرور ت وبلاحاجت جدید تحقیق نہ کی جائے،نیز جو صاحب نظر فقیہ نہ ہوں، ان کو حوادث جدیدہ میں کلام کی اجازت نہیں۔ایسی صورت میں فقہی سیمیناروں میں معاملہ پیش کیا جائے،تاکہ بہت سے فقیہ قلوب واذہان غور وفکر کریں،اور من جانب اللہ کوئی حل ظاہر ہو۔اسی میں سلامتی اورصحت کی امید ہے۔

(7) تبلیغ دین، فروغ سنیت، بدمذہبیت کی روک تھا م،عوام الناس کی ذہن سازی، مساجدومدارس کی تعمیراور دیگر بہت سے شعبہ جات میں خدمات انجام دینے کے واسطے ہمیں کسی تنظیم و تحریک کی ضرورت ہے۔ تمام خدمات دینیہ مدارس اسلامیہ کے اساتذۂ کرام اور ائمہ مساجد انجام نہیں دے سکتے۔ مدرسین وائمہ کرام اپنے فرض منصبی کو بحسن وخوبی انجام دیتے ہیں۔یہ بھی امت مسلمہ پر ان کا احسان اور ان کا اخلاص ہے۔ 

ان کو ہم طاقت ووسعت سے زیادہ خدمات کی ذمہ داری نہیں دے سکتے، بلکہ جو خدمات ہم ان نفو س عالیہ سے لیتے ہیں، ان کا بدل خدمت بھی حالات زمانہ کے موافق نہیں۔ہم صحیح طورپر ان کی کفالت بھی نہیں کرپاتے ہیں۔اس جانب بھی توجہ دی جائے۔ مدرسین ومعلمین اور ائمہ کرام بھی انسان ہیں۔ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
”تحریک دعوت اسلامی“دعوتی وتبلیغی خدمات بھی انجام دیتی ہے۔مساجد ومدارس کی تعمیر بھی کرتی ہے۔بہت سے شعبہ جات میں انتہائی منظم انداز میں خدمات انجام دیتی ہے،لہٰذا اس تحریک کو سکون کے ساتھ خدمت دین کا موقع دیا جائے اور اس تحریک کی نگرانی جاری رہے،تا کہ کوئی قول وعمل مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف نہ ہوسکے۔  

مرشد گرامی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان بھی اس تحریک کی اصلاح کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے دعوت اسلامی کے لیے مردہ باد کا نعرہ لگانے کوبھی منع فرمایا۔

ٹی وی کے مسئلہ میں فقہائے عرب وعجم کا اختلاف ہے۔ بہت سے حنفی فقہائے کرام عدم جواز کے قائل ہیں اور بہت سے حنفی فقہائے کرام جواز کے قائل ہیں۔ عالمی سطح پر اکثریت واقلیت کا معلوم ہونا مشکل امر ہے، جیسے اجماع پر اطلاع مشکل ہے۔ملکی پیمانے پر دیکھا جائے توبھارت میں اکثر علمائے کرام عدم جواز کے قائل ہیں اور پاکستان میں اکثر علمائے کرام جواز کے قائل ہیں۔کسی جانب اکثریت کا دعویٰ ناقابل قبول ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”اجماع شرعی جس میں اتفاق ائمہ مجتہد ین پر نظر تھی،علما نے تصریح فرمائی کہ بوجہ شیوع وانتشار علما فی البلاد دوصدی بعد اس کے ادراک کی کوئی راہ نہ رہی“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد19:ص594:جامعہ نظامیہ لاہور)

غیر ترجیح یافتہ فقہی مسائل میں افقہ واورع (زیاد ہ تقویٰ والا)کے قول پر عمل کا حکم ہے۔تفقہ اور ورع(تقویٰ) میں سب برابر ہوں تو جس جانب اکثریت ہو،اس پرعمل کرے۔کسی جانب اکثریت نہ ہو تو مختار ہے،جدھر دل مائل ہو،اس پر عمل کرے۔
مسئلہ حاضرہ میں دونوں جانب پابند شرع اور متقی وپرہیز گار علمائے کرام ہیں، اور دونوں جانب تفقہ میں متقارب فقہائے کرام ہیں۔کائناتی تناظر میں کس جانب اکثریت ہے،یہ معلوم نہیں۔ملکی پیمانے پرحالات مختلف ہیں۔تحریک دعوت اسلامی کا مرکز ی دفتر پاکستان میں ہے۔وہاں اکثرعلمائے کرام ٹی وی،ویڈیوکے جواز کے قائل ہیں۔ ایسی صورت میں اہل پاکستان پر حکم فسق عائد نہیں ہوگا،نیز ٹی وی،ویڈیو کے مسئلہ میں ابتلائے عام کی صورت رونما ہوچکی ہے۔ فقہائے احناف کو اس جانب توجہ دینی چا ہئے۔ 
ابتلائے عام کی صور ت میں بھی حکم فسق نہیں ہوگا، کیوں کہ ٹی وی،ویڈیو کا مسئلہ غیر منصوص ہے۔یہ سب ماضی قریب کی ایجادات ہیں۔قائلین جواز کے قول پر عمل کرنے والوں کو چاہئے کہ غیرضروری کاموں میں ٹی وی،ویڈیوکا استعمال نہ کریں۔ جب مسئلہ فقہائے کرام کے مابین مختلف فیہ ہوتو اختلاف کی رعایت کی جاتی ہے،حتی کہ فقہی مذاہب اربعہ میں سے ہرایک کے متبعین کو حسب گنجائش دیگر فقہی مذاہب کی رعایت کا حکم ہے۔
عہد حاضر میں متعدد جدید فقہی مسائل کی تحقیق ہوئی۔فقہائے احناف مختلف الرائے ہو گئے۔چوں کہ صدیوں سے اصحاب الترجیح فقہا کا وجود نہیں،اس لیے جدید فقہی اختلافی مسائل بلا ترجیح ہیں۔عہد حاضر میں طبقہ ہفتم کے فقہا موجود ہیں۔اصحاب الترجیح طبقہ پنجم کے فقہا کو کہا جاتا ہے،جیسے امام ابن ہمام حنفی قدس سرہ العزیز۔جس طرح مجتہد کو اپنے قول پر عمل کا حکم ہے۔اسی طرح فقیہ مقلد اور قاضی مقلد صاحب نظر ہوں تو انھیں اپنے قول پر عمل کا حکم ہے۔فتاویٰ رضویہ(جلد 18ص 489 تا 501)میں اس کا تفصیلی بیان مرقوم ہے۔

غیر ترجیح یافتہ فقہی مسائل میں عمل کا ایک طریقہ فتاویٰ رضویہ کے مذکورہ فتویٰ میں ہے کہ افقہ واورع کے قول پر عمل ہو،پھر جس جانب اکثریت ہو،زرنہ جدھردل مائل ہو۔

امام اہل سنت نے رقم فرمایا:”اگر تفقہ میں متقارب اور ورع میں یکساں ہیں تو اب کثرت رائے کی طرف میل کرے:فان مظنۃ الاصابۃ فیہا اکثر عند من لا یعلم وہو اعذر لہ عند ربہ عز وجل۔اور اگر کثرت بھی کسی طرف نہ ہو،مثلاً چار متفقہ ہیں۔دو ایک طرف،دو ایک طرف تو جس طرف دل گواہی دے کہ یہ احسن یا احوط فی الدین ہے،اس طرف میل اولیٰ ہے،ورنہ مختار ہے،جس پر چاہے،عمل کرے“۔
(فتاوی رضویہ:جلد 18:ص496-جامعہ نظامیہ لاہور)

جو لوگ عدم جواز کے موقف کومانتے ہیں،وہ اگر ٹی وی،ویڈیو کا استعمال کریں گے تو ان پر حکم فسق عائد ہوگا، لہٰذا عدم جواز کے قول کوماننے والے پر ہیزکریں۔ 

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:20:ربیع الغوث 1443
مطابق 26:نومبر2021

بروز:جمعہ مبارکہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے