-----------------------------------------------------------
🕯حضرت حاجی وارث علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسمِ گرامی: حاجی وارث علی شاہ۔
لقب: بانیِ سلسلہ عالیہ وارثیہ۔
والد کا اسمِ گرامی: سید قربان علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ۔ وہ دیوا ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں رہتے تھے، اور وہاں کے رئیسوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ آپ کے خاندان کے بزرگ نیشاپور کے رہنے والے تھے۔ نیشاپور سے سکونت ترک کرکے ہندوستان آئے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1232ھ، مطابق 1817ءکو "دیوا شریف" (ضلع بارہ بنکی، اتر پردیش انڈیا) میں پیدا ہوئے۔
*تحصیلِ علم: جب آپ کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو آپ کی تعلیم باقاعدہ شروع ہوئی۔ مکتب جانے لگے۔ آپ نے قرآن مجید سات سال کی عمر میں حفظ کر لیا۔ ساتھ ضروری دینی مسائل بھی سیکھ لیے تھے۔ عشق و محبت کے جذبات بچپن ہی سے جنگلوں اور ویرانوں میں لئے پھرتے تھے۔ آپ کا دل شہر میں نہیں لگتا تھا۔
بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ قادریہ میں اپنے بہنوئی حضرت سید خادم علی شاہ لکھنوی کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ آپ کے پیر و مرشد کا قیام لکھنؤ میں تھا۔
سیرت و خصائص: قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، سلطان الطریقت، بانیِ سلسلہ عالیہ وارثیہ، امام الاولیاء، حاجی الحرمین شریفین، آل سید الشہداء امامِ حسین حضرت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ اپنے وقت کے ولیِ کامل تھے۔آپ "سیروفی الارض" پر عمل پیرا تھے۔ خوب سیر و سیاحت کی۔ آپ جنگلوں، بیابانوں اور پہاڑوں میں گھومتے اور قدرتِ خداوندی کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔
اجمیر شریف سے ممبئی تشریف لے گئے۔ ممبئی سے جدہ گئے۔ 29 شعبان 1253ھ کو مکہ معظمہ پہنچے۔ حج کا فریضہ ادا کرکے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ کچھ دن وہاں رہے، پھر رخت سفر باندھا۔ بیت المقدس، دمشق، بیروت، بغداد، کاظمین، نجف اشرف، کربلائے معلیٰ، ایران، قسطنطنیہ کی سیاحت کرکے اور درویشوں سے مل کر پھر مکہ پہنچے۔ حج سے فارغ ہوکر افریقہ تشریف لے گئے۔
واپسی: وطن واپس آکر آپ نے دیکھا کہ مکان شکستہ ہو چکا ہے اور آپ کے ساز و سامان پر آپ کے رشتہ دار قابض ہیں۔ ان کو یہ فکر ہوئی شاید آپ جائیداد وغیرہ واپس لیں گے اور ممکن ہے عدالتی کارروائی کریں ان لوگوں کی بے اعتنائی اور بےرخی سے آپ کو تکلیف پہنچی، آپ نے وطن میں زیادہ قیام کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ آپ نے شادی نہیں کی۔ آپ جائیداد، مکان، ساز و سامان وغیرہ سے بےنیاز تھے۔ فقر میں بادشاہی کرتے تھے۔
صابر، شاکر اور مستغنی تھے۔روپے پیسے کو ہاتھ نہ لگاتے تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کو کوئی تحفہ پیش کرتا تو آپ اس سے بہتر چیز اس کو عطا فرماتے تھے، عفو و کرم آپ کا شعار تھا، آپ کسی قسم کی سواری پسند نہیں کرتے تھے۔ تانگے، بگھی، یکے میں نہیں بیٹھتے تھے۔ ریل اور جہاز میں نہیں بیٹھتے تھے، کمزوری کے باعث پالکی میں بادل ناخواستہ بیٹھتے تھے۔ سنت کے سخت پابند تھے۔ خوراک بہت کم تھی، مدتوں ہفتہ میں ایک بار کھانا کھایا، پھر تیسرے روز کھانا، کھانا شروع کیا۔ کمزوری کے باعث روز یا دوسرے دن تھوڑا سا کھا لیتے تھے۔ ثرید بہت شوق سے کھاتے تھے۔ کھانے کے بعد خلال کرتے اور پھر ہاتھ دھوتے۔ آپ نےجب سے احرام باندھنا شروع کیا، پھر اتارا نہیں، کربلا پہنچ کر آپ نے یہ طے کیا کہ تخت یا پلنگ پر نہ سوئیں گے، تمام عمر اس پر کار بند رہے۔
تعلیمات: آپ فرماتےہیں"جس عورت کا خاوند موجود ہو اور اس کے پاس رہتا ہو، اسے کھانے پینے اور ضروریات کی پرواہ نہیں ہوتی۔ خاوند خود بخود اس کا انتظام کرتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اقرب الیہ من حبل الورید ہے (شہ رگ سے زیادہ قریب ہے) تو انسان اپنی روزی کے متعلق کیوں پریشان ہوتا ہے"۔
ایک مرتبہ یہ ذکر ہو رہا تھا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ تہتر فرقوں میں سے بہتر ناری (دوزخی) ہیں اور ایک ناجی، جب آپ سے اس فرقےکے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے دریافت کیا کہ حسد کے کتنے عدد ہیں، حاضرین نے عرض کیا کہ حسد کے عدد 72ہیں، یہ سن کر آپ نے فرمایا: "پس جو فرقہ حسد سے باہر ہے وہ ناجی ہے"۔ (رافضیوں میں بغضِ صحابہ، اور خارجیوں میں بغضِ رسول، اہلِ بیت و اولیاء ہے۔ اس لئے یہ ناری ہیں۔ اہلسنت تمام کے غلام ہیں)
وصال: آپ کا وصال 30/محرم الحرام 1323ھ، مطابق 7/اپریل 1905ء کو ہوا۔ آپ کا مزار "دیواشریف" ضلع بارہ بنکی یوپی انڈیا میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ و مراجع: تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام،ج::6
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں