*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚زمیندار پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت مسئلے ذیل میں اگر کس شخص کے پاس صرف کاشت کیلئے اتنی زمین ہے کہ اگر بیچےگا تو مالک نصاب ہوجائےگا تواس پر قربانی واجب ہے یا نہیں مع حوالہ جواب عنایت کریں کرم ہوگا
*المستفتی: محمد شاہد رضا مصباحی. بڑا سہاگی,کشنگنج بہار*
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
*اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ :*
صورت مستفسرہ میں زرعی زمین یعنی شخص مسؤل کے لئے یہی ذریعہ معاش ہے اور اس کی پیداوار سال بھر کے ضرورت کو پوری نہ کرتا ہو تو قربانی واجب نہیں ، اور اگر زمین خالی پڑی ہے کبھی بھی فروخت کرسکتے ہیں اور ذریعے معاش اس کے علاوہ ہے تو زمین کی قیمت نصاب کو پہونچے تو قربانی واجب ہے ،
فتاویٰ ھندیہ میں ہے:
*" وَالْمُوسِرُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ مَنْ لَهُ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ شَيْءٌ يَبْلُغُ ذَلِكَ سِوَى مَسْكَنِهِ وَمَتَاعِ مَسْكَنِهِ وَمَرْكُوبِهِ وَخَادِمِهِ فِي حَاجَتِهِ الَّتِي لَا يَسْتَغْنِي عَنْهَا، فَأَمَّا مَا عَدَا ذَلِكَ مِنْ سَائِمَةٍ أَوْ رَقِيقٍ أَوْ خَيْلٍ أَوْ مَتَاعٍ لِتِجَارَةِ أَوْ غَيْرِهَا فَإِنَّهُ يُعْتَدُّ بِهِ مِنْ يَسَارِهِ، وَإِنْ كَانَ لَهُ عَقَارٌ وَمُسْتَغَلَّاتُ مِلْكٍ اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ الْمُتَأَخِّرُونَ - رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى - فَالزَّعْفَرَانِيُّ وَالْفَقِيهُ عَلِيٌّ الرَّازِيّ اعْتَبَرَا قِيمَتَهَا، وَأَبُو عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ وَغَيْرُهُ اعْتَبَرُوا الدَّخْلَ، وَاخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ إنْ كَانَ يَدْخُلُ لَهُ مِنْ ذَلِكَ قُوتُ سَنَةٍ فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: قُوتُ شَهْرٍ، وَمَتَى فَضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَدْرُ مِائَتِي دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ، وَإِنْ كَانَ الْعَقَارُ وَقْفًا عَلَيْهِ يُنْظَرُ إنْ كَانَ قَدْ وَجَبَ لَهُ فِي أَيَّامِ الْأَضْحَى قَدْرُ مِائَتِي دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ وَإِلَّا فَلَا، كَذَا فِي الظَّهِيرِيِّةِ.*
*(📕 الفتاوی الھندیۃ ‘‘ ،کتاب الأضحیۃ،الباب الاوّل فی تفسیرھا ۔۔۔ إلخ،ج ۵ ،ص ٢٩٢ دار الفکر بیروت )*
ردالمحتار میں علامہ ابن عابدين شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
*" سُئِلَ مُحَمَّدٌ عَمَّنْ لَهُ أَرْضٌ يَزْرَعُهَا أَوْ حَانُوتٌ يَسْتَغِلُّهَا أَوْ دَارٌ غَلَّتُهَا ثَلَاثُ آلَافٍ وَلَا تَكْفِي لِنَفَقَتِهِ وَنَفَقَةِ عِيَالِهِ سَنَةً؟ يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الزَّكَاةِ وَإِنْ كَانَتْ قِيمَتُهَا تَبْلُغُ أُلُوفًا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى وَعِنْدَهُمَا لَا يَحِلُّ اهـ مُلَخَّصًا.*
*[📘 الدر المختار وحاشية ابن عابدين ج٣٤٨/٢ دار الفکر بیروت ]*
اسی عبارت کے تحت حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ،
زمین پر زکاۃ نہیں ، ہاں اگر اس کی آمدنی سے بقدر وجوب زکوٰۃ سال تمام پر بچتا ہو تو اس بچے ہوئے پر زکوٰۃ فرض ،
*(📚 فتاویٰ امجدیہ جلد اول صفحہ ٣٦٨)*
مجدد اعظم اعلیحضرت علیہ الرحمہ سے اسی طرح کا استفسار ہوا فقیر اصل سوال جواب نقل کرتا ہے
*سوال* ایك شخص برائے نام صاحب جائداد ہے۔سو روپیہ سالانہ آمدن کی جائداد ہے۔وہ شخص ماہوار کا نوکر بھی ہے۔جو اس کی ضروریات دنیویہ کو کافی ہے۔کسی سال میں کچھ نہیں بچتا ،
*جواب* علماء کے نزدیك کہ ایجاب صدقہ واضحیہ میں قیمت جائداد کا اعتبار کرتے ہیں اور راجح ومفتی بہ اول ہے ، ( اسی جواب میں آگے درمختار کی عبارت و بقول تشریح فرماتے ہیں)
درمختار *، تجب علی کل مسلم ذی نصاب فاضل عن حاجتہ الاصلیۃ وان لم ینم،وبہذا النصاب تحرم الصدقۃ، وتجب الاضحیۃ ونفقۃ المحارم علی الراجح اھ قلت فالذی لہ ارض قیمتہا الوف کما وصف لو کان تجب علیہ الاضحیۃ لحرمت علیہ الزکوٰۃ لکنہا لم تحرم فالاضحیۃ لم تجب "*
مالك نصاب مسلمان پر کہ اس کی اصل حاجت سے زائد ہو اگرچہ یہ نصاب نامی نہ ہو تو راجح قول پر محارم کا نفقہ اور قربانی واجب ہے اور اس نصاب سے زکوٰۃ لینا حرام ہوجاتاہے،میں کہتاہوں جس کے پاس زمین ہے جس کی قیمت ہزاروں ہے جیسے بیان کیا گیا ہے اگر اس پر قربانی واجب ہے تو اس کو زکوٰۃ لینا حرام ہے ، *لیکن زکوٰۃ حرام نہیں،لہذا قربانی واجب نہیں*
لم تحرم سے صاف واضح ہے زمین کی قیمت کا اعتبار نہیں بلکہ آمدنی کا اعتبار ہے اور یہی راجح قول و مفتی بہ ہے
*(📚 فتاویٰ رضویہ جلد ٢٠ صفحہ ٣٦٧ رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
اور فقیر کو مفتی شان محمد المصباحی کے حوالے حضرت سراج الفقہاء کی ایک تحریر موصول ہوئی ،
علماء کرام کی ایک جماعت مسئلہ (زمیندار پر قربانی ہے یا نہیں)کے بارے میں حل جاننے کے لیے مفتی نظام الدین صاحب قبلہ دام ظلہ(جامعہ اشرفیہ مبارک ) کی بارگاہ میں حاضر ہوے تو حضرت سراج الفقہا نے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ فتاوی رضویہ میں دونوں طرح کے فتاوی ہیں زمین کی قیمت کا اعتبار ہوگا یا آ مدنی کا..... جس کی نظر سے جو فتوی گزرا اس نے اسکے مطابق حکم دیا کسی نے زمین کی قیمت کا اعتبار کیا اور کسی نے آمدنی کا البتہ تطبیق یہ ہے کہ زمین کئی طرح کی ہوتی ہے :
(١) ایک پلاٹ کی زمین ہوتی ہے یعنی اس کو کبھی بھی بیچنے کا ارادہ ہے اور ذریعہ معاش اس کے علاوہ ہے تو اگر اس پلاٹ کی قیمت نصاب کو پہنچے تو اس پر قربانی واجب ہے.
(٢) ایک کاشت کی زمین ہوتی ہے کہ اس میں کھیتی کرتا ہو اور یہی ذریعہ معاش ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں :
اگر اس کی پیداوار اس کی سال بھر کی ضرورت کو پورا کرتی ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے.
اور اگر اس کی پیداوار اس کی سال بھی ضرورت کو پورا نہ کر سکے تو اس پر قربانی واجب نہیں۔
*🔸واللہ سبحٰنہ تعالیٰ اعلم🔸*
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــه*
*حضرت مولانا محمد منظر رضا نوری اکرمی نعیمی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس جامعہ موسویہ فیضان رضا کرسنڈا جونیہ بستول کٹیہار بہار*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مفتی شان محمد مصباحی القادری صاحب قبلہ فرخ آباد یوپی۔*
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں