-----------------------------------------------------------
*🕯اخلاق حسنہ اور اسلام🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 قارئین کرام!
اسلام ایک فطری دین ہے،اور اس روئے زمین پر موجود تمام ادیان و مذاہب میں یہ واحد ایسا دین ہے جس نے بلاتفریق مذہب و ملت پوری دنیائے انسا نیت حتی کہ حیوانات و نباتات تک کی بھلائی و خیر خواہی کا ہمہ وقت خیال رکھا ہے۔اور اپنے متبعین کو خیر و بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا حکم بھی دیا ہے۔جن میں اخلاق حسنہ کو محوری حیثیت حاصل ہے۔کیونکہ اخلاق ہی وہ شیئ ہے جس کے ذریعہ ایک انسان اپنے مد مقابل کا دل اور اعتماد حاصل کرتا ہے۔بنابریں بڑے۔بڑے ماہرین اور اہل فکر و نظر نے تحریر و تقریر کے ذریعہ اس پر خاص توجہ دی ہے۔حتی کہ نبی آخرالزماں نے اخلاق حسنہ پر زور دیتے کہا ’’میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘(شرح السنۃ للبغوی:3622سنن الکبری للبیہقی:20782 ) لہٰذاایک عام فہم لفظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخلاق در اصل زندگی کے طریقے، سلیقے اور قرینے کا نام ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے موت و حیات کی تخلیق کااصل مقصد اخلاق حسنہ کی آزمائش ہے۔ جیسا کہ اللہ نے سورہ ملک آیت نمبر ۲میں کہا ’’اللہ ہی ہے جس نے موت و حیات کو پیدا کیاتاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے۔‘‘اور سورہ بلد آیت نمبر ۱۰میں کہا ’’ہم نے اسے دونوں راستہ دکھا دیا ہے۔‘‘اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے سورہ دہر آیت نمبر ۳کے اندر کہا ’’یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے اب یہ شکر گذار بنے یا ناشکرا۔‘‘ یعنی اللہ نے انسانوں کو خیر وشر دونوں کا راستہ بتا دیا ہے،اب اسے اختیار ہے جو راستہ چاہے پسند کرے۔لہٰذا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اخلاق وکردار کا وہ پہلو اختیار کریں جس سے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔
مذکورہ بالا باتوں کے پیش نظر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ توحید کے ساتھ اخلاق حسنہ کی تعلیم وتربیت ہی در اصل دین اسلام کا حقیقی مقصد ہے۔لہٰذا ہمیں کتاب وسنت کی روشنی اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔اللہ کا فرمان ہے ’’تم اس چیز کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔اس کے سوادوسرے اولیا کی اتباع نہ کرو۔بہت کم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ اورسورہ احزاب آیت نمبر ۲۱میں کہا ’’اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے رسول اللہ کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اور انس ابن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے حامل تھے۔(بخاری:6203 مسلم:659)اور ایک مرتبہ حضرت عائشہ سے جب نبی کے اخلاق کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ قرآن ان کا اخلاق تھا۔
ان اوصاف کے علاوہ ذخیرہ احادیث میں نبی کریمﷺکے اخلاق حسنہ کی ایک لمبی فہرست ہے ، جن میں سے دو واقعہ بطور مثال یہاں رقم کرتا ہوں پہلاواقعہ انس بن مالک کا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہﷺکی خدمت کی لیکن آپ نے مجھ سے کبھی اف تک نہیں کہا اور نہ ہی یہ کہا کہ ایسا کیوں نہیں کیا یا ایساکیوں کردیا۔(مسلم:2309) اور دوسرا واقعہ فتح مکہ کا ہے،ہر پڑھا لکھا طبقہ مسلمانوں اور نبی کریمﷺکے خلاف اہل مکہ کی ایذا رسانیوں سے اچھی طرح واقف ہے،لیکن ۸ہجری میں جب مکہ فتح ہوتا ہے اور اہل مکہ بےکس ومجبورآپ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، آپ چاہتے تو ایک۔ایک فرد سے بدلہ لے لیتے اور بعض صحابہ کرام نے یہ نعرہ بھی بلند کردیا تھا کہ آج بدلے کا دن ہے، لیکن اس کی خبر جب نبی کریم ﷺکو ملی تو آپ نے اپنے عظیم اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاآج رحم وکرم کا دن ہے لہٰذاجاؤ آج تم پرکوئی زور و زبردستی نہیں تم سب کے سب آزاد ہو۔(سنن الکبری للبیہقی:18276)
لہٰذانبی کریم ﷺنےخود ایک اعلیٰ صفات انسان ہونے کے ساتھ۔ساتھ اپنے متبعین کو مختلف مواقع سے اخلاق حسنہ کی تر غیب دلائی ہے۔حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے کہا’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہےاور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکا پیدا کرے اور تم اس بات کو ناپسند کرو کہ لوگ اسے جانیں۔‘‘(مسلم:2553)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ کس چیز کی وجہ سے انسان بکثرت جنت میں داخل ہوگاتو آپ نے کہا ’’اللہ کا خوف اور بہترین اخلاق‘‘ پھر پوچھا گیا کہ جہنم میں بکثرت لے جانے والی چیزکیا ہے تو آپ نے جواب دیا ’’منہ اور شرمگاہ۔‘‘ (سنن ترمذی:627)
حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ’’روز قیامت میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی دوسری چیز نہیں ہوگی۔‘‘ (مکارم الاخلاق للطبرانی:4)
جابر بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا’’قیامت کے دن تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور مجلس کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگاجو تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہوگا….الخ‘‘ ( ایضا:6) اور جابر ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’یقینا اسلام کے اعتبار سے سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو۔‘‘ (ایضا:8)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’ایمان کے اعتبار سے سب سے کامل مومن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔‘‘ (ایضا:9)
مذکورہ بالا روایات کو ذخیرہ احادیث میں سے مشت نمونہ از خروارہ رقم کیا گیا ہے،جن کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی کا اصل مقصد عبادت الٰہی کے ساتھ۔ساتھ اخلاق حسنہ سے متصف ہونابھی ضروری ہے۔کیونکہ نبی کریم ﷺکی بعثت کا ایک مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل ہے، اور انہیں مکارم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز بھی کیا گیا۔اسے تکمیل ایمان کی نشانی کے ساتھ ۔ساتھ روز قیامت نبی کریم ﷺ کی قربت کا ذریعہ بھی بتایا گیاہے۔نیز پاکیزہ اخلاق ہی در اصل خوف الٰہی اور مضبوطی ایمان کی دلیل ہے۔اور اسی اچھے اخلاق ہی کے نتیجہ میں انسان کو دلی سکون ملتا ہے۔اور یہی اطمینان اس کو کردار کا اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں نے کتاب و سنت کے مطابق اخلاق حسنہ کو پکڑے رکھا دنیا میں سرخ رو ہوئے اور جب اس کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیا تو ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں جاگرے۔اور آج تک اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہیں،لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔
عصر حاضر کے مسلم معاشرہ اور اس کےتہذیب وتمدن کو دیکھ کر دل سے ایک آواز آتی ہےکہ کیا واقعی یہ لوگ امت محمدیہ کے متبع ہیں۔ حالانکہ ان کے کردار نبی آخرالزماں کے کردار اور تعلیمات سے بہت ہی زیادہ مختلف ہیں۔یہ کیسے لوگ ہیں کہ اپنے نبی و رہنما کی پیروی نہیں کرتے۔کسی شاعر نے سچ کہا
تَعْصِي الإِله وَأنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ هذا محالٌ في القياس بديعُ
لَوْ كانَ حُبُّكَ صَادِقاً لأَطَعْتَهُ إنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيعُ
ترجمہ: تم اللہ کی نافرمانی کے باوجود اس سے محبت کا اظہار کرتے ہو ۔یہ تو وہم و گمان سے بہت دور کی بات ہے۔اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اس کی اطاعت کرتے۔یقینا ایک محب اپنے محبوب کے نقش قدم کی پیروی کرتاہے
لہٰذا ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگاکیونکہ نبی کا طریقہ تو یہ تھا کہ جب کسی سے ملتے تو مسکراتے، لین دین کرتے تو صاف گوئی سے کام لیتے،چلتے تو میانہ روی اختیار کرتے،فیصلہ کرتے تو انصاف کرتے، بچوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام کرتے اور نظافت و طہارت پر خاص توجہ دیتے تھے۔لیکن اس کے برعکس موجودہ مسلمانوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ ان کے یہاں ملاقات میں تلخی ، لین دین میں جھوٹ و دھوکا،متکبرانہ چال،انصاف سے کوسوں دور اور بچوں کے ساتھ سختی اور بڑوں کی تذلیل کرنا ایک عام بات ہو گئی ہے۔ان کی نظافت و طہارت کا معاملہ یہ ہے کہ جسم سے لگے کپڑے تو صاف ہوتے ہیں مگر خواب گاہ، استنجا خانہ اور شاہراہ عام وغیرہ سے بدبو پھوٹتی ہے۔عید قرباں کے موقع پر ہفتوں جانوروں کے بکھرے ہوئےاعضا کی تعفن سے مسلم علاقوں کی فضا مکدر رہتی ہے۔الغرض جہاں موقع پاتے ہیں وہیں گندگی ڈال دیتے ہیں۔ لیکن جب باتیں کرین گے تو ایسی جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ نے کہا ’’تم ایسی باتیں لوگ کیوں کرتے ہو جو خود کرتے نہیں۔‘‘ (سورۃ الصف: 2)
لہٰذا ہمیں اپنے قول و فعل میں اتحاد پیدا کرنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر عزت و رفعت ممکن نہیں۔ ایک دور تھا جب لوگ کسی علاقے کی صفائی و ستھرائی کو دیکھتے تو بلا تردد کےکہتے کہ یہ مسلم علاقہ ہے ۔لیکن آج گندگی ان کی شناخت بن گئی ہے۔حالانکہ شریعت اسلامیہ نے جگہ۔جگہ طہارت و نظافت کا حکم دیا ہے۔ شاہراہ عام پر قضا ئے حاجت کرنے اور تکلیف دہ چیزوں کے ڈالنے سےمنع کیا ہے۔رات میں سونے سے پہلے برتن وغیرہ کو ڈھکنے اور چراغ کو بجھانے کا حکم دیا ہے۔صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے تین بار دھولنے کا حکم دیتا ہے۔الغرض اسلام نے انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو صاف و ستھرا بنانے کا حکم دیا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ حدیث و فقہ کی تقریبا تمام کتابوں کا آغاز کتاب الطہارۃ سے ہوتا ہے،کیونکہ اسلامی عبادتوں کا انحصار ہی طہارت پر ہے۔لیکن آج ہم مسلمانوں کا کردار بہت حد تک اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔جس پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی زندگی کا اصل حسن بہترین اخلاق ہے،کیونکہ اسی کے ذریعہ لوگوں کے ساتھ ہمارے رشتے بنتے یا بگڑتے ہیں۔نیز تکمیل ایمان کا ایک اہم جز ہے۔لہٰذا ہمیں اپنے اخلاق کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔
*از قلــم✍🏻 شکیل الرحمن بن اکبر علی، ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 110025۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں