باب اعتقادیات کے جدید مغالطے
قسط پنجم
مغالطہ اول:
ظفر ادیبی اکابر علمائے اہل سنت کا استاذ ہے۔وہ جامعہ اشرفیہ میں طویل مدت تک تدریسی فرائض انجام دیتا رہا۔کیا تم اس کی بھی تکفیر کرو گے؟
جواب اول:
ابلیس فرشتوں کا استاذ تھا اور فرشتوں کو طویل مدت تک تعلیم دیتا رہا,جب اس سے کفر صادر ہوا تو اللہ تعالی نے اس کی تکفیر فرمائی اور اپنے دربار سے اسے نکال دیا۔
قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے۔
رب تعالی نے ارشاد فرمایا:(فاخرج فانک رجیم)(سورہ حجر:آیت 34)
ارشاد الہی ہے:(واذ قلنا للملائکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس ابی واستکبر وکان من الکفرین)(سورہ بقرہ:آیت 34)
ظفر ادیبی بھی دربار حافظ ملت سے نکال دیا گیا,پھر 1996 میں تحقیق وتفتیش کے بعد اس کی تکفیر کی گئی۔اس فتوائے کفر پر اکابر علمائے اہل سنت کی تصدیقات ہیں اور علامہ سید محمد ہاشمی میاں صاحب قبلہ کی بھی تصدیق ہے۔ رسالہ:تحقیق جمیل میں ان کی تصدیق منقول ہے۔
جواب دوم:
ظفر ادیبی نے ابتدائی مرحلہ میں حسام الحرمین میں بیان کردہ احکام سے صریح انکار نہیں کیا تھا,لیکن وہ بہکی بہکی باتیں کرتا تھا۔اس کی باتوں سے طلبائے جامعہ کےمتاثر ہونے کا خطرہ تھا,لہذا اسے جامعہ سے برطرف کر دیا گیا۔
اس کی برطرفی کے بعد بھی بعض طلبہ اس کے گھر پر جا کر کسب فیض کرتے رہے اور اس فیض بے نور کی تاریکیاں ایک مدت بعد فضائے ہند میں پھیلنے لگی ہیں۔ان شاء اللہ تعالی ہم ہدایت کے چراغ روشن کر کے تاریکیوں کو ملیامیٹ کر دیں گے۔واللہ الہادی وہو المستعان
مغالطہ دوم:
حسام الحرمین میں مرزا قادیانی کے بارے میں لکھا گیا تھا:"من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر"جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ کافر ہے۔ اگر یہ عبارت دیوبندیوں عناصر اربعہ سے بھی متعلق ہوتی تو اس طرح لکھا جاتا تھا: "من شک فی کفرھم وعذابہم فقد کفر"-جو ان سب کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ سب کافر۔
جواب اول:
"من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر"ایک قاعدہ کلیہ ہے۔جب تکفیر کلامی کے وقت اس کا استعمال ہو تو اسی قانون اسلامی کی یاد دہانی اور اس کا ذکر مقصود ہوتا ہے۔اس کی ضمیر مفرد کو دیکھ کر یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ کلیہ صرف قادیانی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
جواب دوم:
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے فتاوی رضویہ میں بہت سے مقام پر اشخاص اربعہ کے کفر کا ذکر فرمایا اور مذکورہ قاعدہ کلیہ کو ضمیر مفرد کے ساتھ رقم فرمایا ہے۔
دراصل ایسے مقامات پر اس خاص اسلامی قاعدہ کلیہ کی یاد دہانی مقصود ہوتی ہے۔
جواب سوم:
قرآن مجید میں بہت سے مقام پر جمع کی ضمیر یا جمع کا صیغہ بندوں کے لئے وارد ہے۔اگر ایک بندہ بھی اس کی تلاوت کرے تو اسی ضمیر جمع اور جمع کے صیغے کے ساتھ پڑھنا ہے,مثلا نماز میں بندہ تنہا پڑھتا ہے:
(ایاک نعبد وایاک نستعین)(سورہ فاتحہ)
تنہا نماز پڑھنے والا نعبد کی جگہ اعبد یا نستعین کی جگہ استعین نہیں کہتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے۔(ونحن لہ عابدون)(سورہ بقرہ:آیت 138)
نحن تثنیہ وجمع متکلم کی ضمیر ہے۔بندہ تنہا بھی نماز پڑھے تو اسے نحن پڑھنے کا حکم ہے,نہ کہ وہ(انا لہ عابد)کہے گا۔
اسی طرح قواعد کلیہ کے استعمال کے وقت جو اس کی متعارف شکل ہے,اسی کو نقل کیا جاتا ہے۔
بہت سے صریح کلام کا ذکر ہو تو بھی قاعدہ کلیہ کو مشہور صورت میں بیش کیا جاتا ہے کہ:
الصریح یفوق الدلالۃ
یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ:
الصرائح تفوق الدلالات
اس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
مغالطہ سوم:
لوگ حسام الحرمین کی عبارت کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں جیسا کہ یہ محکم آیت ہے۔آسمان سے اس کا نزول ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس عبارت کی تصدیق تمام علمائے اہل سنت نے کی ہے یا نہیں۔
امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے معاصر علما اور مشائخ میں 75 پرسنٹ نے تصدیق نہیں کی ہے, بلکہ ان کی تاویل و توجیہ کرتے رہے۔
علمائے بدایوں،فرنگی محل و پھلواری شریف،حضرت پیر سید مہر علی شاہ،شیخ الاسلام علامہ محمد انوار اللہ فاروقی حیدرآبادی ودیگر ہزارہا علما نے تصدیق نہیں فرمائی۔کیا ان سب کی تکفیر کرو گے؟
جواب اول:
حسام الحرمین کی عبارتیں ہرگز محکم آیات قرآنیہ نہیں,لیکن محکم آیات مقدسہ میں بیان فرمودہ احکام کے ضرور موافق ہے۔بالفرض اگر وہ آیات محکمہ کے احکام کے مخالف ہے تو معترض اس کا مخالف قرآن ہونا ثابت کرے۔
یہ احکام موافق قرآن ہیں اور ان قرآنی آیات کو امام اہل سنت علیہ الرحمۃ والرضوان نے تمہید ایمان میں نقل فرما دیا ہے۔
اگر مذکورہ احکام آیات محکمہ کےموافق ہے تو مغالط نے جن لوگوں کے بارے میں انکار یا سکوت کا دعوی کیا ہے,ان کے بارے میں وہ بتائے کہ وہ لوگ آیات محکمہ کے احکام وارشادات کی مخالفت کر کے مومن رہے یا کافر ہو گئے؟
معترض کے دعوی کے پیش نظر یہ سوال ہے۔ہمارے نزدیک صرف پھلواری کے متاخرین کا انکار ثابت ہے۔اس کا ذکر درج ذیل ہے۔
جواب دوم:
خانقاہ پھلواری کے متاخرین نے حسام الحرمین میں بیان کردہ احکام کو تسلیم نہیں کیا۔جس کے سبب ان لوگوں پر حکم کفر نافذ کیا گیا۔
علمائے فرنگی محل کے عظیم فرد حضرت علامہ عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ العزیز نے اپنے تمام قابل اعتراض امور سے توبہ کر لی تھی۔ان امور میں عناصر دیوبندیہ کی تکفیر کا مسئلہ بھی ہے۔الطاری الداری میں ان امور کا ذکر ہے۔
توبہ کا تفصیلی تذکرہ ہم نے"عرفانی نظریات کے حساس مقامات"(باب دوم)میں رقم کر دیا ہے۔
فرنگی محل کے متاخرین مختلف الخیال ہیں۔بعض لوگ اہل ندوہ کے ساتھ ہیں اور بعض لوگوں کے بارے میں سنا کہ سنیوں کے ساتھ ہیں۔اہل فرنگی محل سے متعلق تحقیق کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
جواب سوم:
علمائے بدایوں,علامہ انوار اللہ فاروقی حیدرآبادی,پیر مہر علی شاہ قدس سرہم العزیز کی مستند تحریر یا ان حضرات کا صحیح قول پیش کیا جائے کہ ان حضرات نے تصدیق حسام الحرمین سے انکار کیا تھا۔ماقبل کی ایک قسط میں بھی اس مغالطے کا جواب مرقوم ہے۔
جواب چہارم:
اگر پچھتر فی صد علما نے حسام الحرمین کی تصدیق نہیں کی اور پچیس فی صد نے تصدیق کی تو دونوں طبقہ مومن ہے یا دونوں طبقہ غیر مومن ہے؟
یا ایک طبقہ مومن اور ایک طبقہ کافر ہے؟نیز کون سا طبقہ کافر ہے اور کون سا طبقہ مومن؟
جواب پنجم:
کفر کلامی کفر اتفاقی کا نام ہے۔اس میں فقہا ومتکلمین کسی کا اختلاف نہیں ہوتا اور قادیانی,نانوتوی,گنگوہی,انبیٹھوی وتھانوی کی تکفیر کلامی ہوئی ہے,پھر ان لوگوں کے کفر کلامی میں اختلاف کیسے ہو گیا؟ کیا پندرہویں صدی میں دین اسلام کے قطعی احکام بھی بدل چکے ہیں؟
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:10:اگست 2022
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں