فتاوی رضویہ سے اختلاف کون کرے؟ / قسط دوم

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

فتاوی رضویہ سے اختلاف کون کرے؟

(قسط دوم)

چند سالوں سے یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ فتاویٰ رضویہ کے فقہی فتاویٰ سے اختلاف کی گنجائش ہے یا نہیں؟ہر عالم ومفتی کو معلوم ہے کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز اہل نظر فقیہ تھے۔ان کی فقہی تحقیقات سے اختلاف کا حق اہل نظر فقیہ کو ہوگا۔ہرایک کو اختلاف کی اجازت نہیں ہوگی۔اسی طرح اسباب ستہ کے سبب بعض فقہی احکام میں تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی بھی اہل نظر فقیہ کے ذریعہ ہوگی۔ واضح رہے کہ ہر فقیہ اہل نظر فقیہ نہیں۔

عہد حاضر میں سب سے بہتر طریق کار یہ ہے کہ جس مسئلہ میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو، اس پر تمام اکابر اصحاب فتویٰ کے اتفاق کے بعدہی اسے منظر عام پر لایا جائے۔ عدم اتفاق کی صورت میں بحث ومباحثہ کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،نااتفاقی کو فروغ ملتا ہے، اور خواص وعوام گروہ بندی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ 

امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:(قد عد فی العقود مسائل کثیرۃ من ھذا الجنس ثم احال بیان کثیر اُخر علی الاشباہ-ثم قال:(فھذہ)کلھا قد تغیرت احکامھا لتغیر الزمان اما للضرورۃ واما للعرف واما لقرائن الاحوال-قال:وکل ذلک غیر خارج عن المذھب لان صاحب المذھب لو کان فی ھذا الزمان لقال بھا-ولوحدث ھذا التغیر فی زمانہ لم ینص علی خلافھا-قال:وھذا الذی جرأ المجتھدین فی المذھب واھل النظر الصحیح من المتأخرین علی مخالفۃ المنصوص علیہ من صاحب المذھب فی کتب ظاھر الروایۃ بناء علٰٰی ماکان فی زمنہ کما تصریحھم بہ:الخ)

(عقود میں ایسے بہت سے مسائل شمار کرائے اور بکثرت دیگر مسائل کے لیے اشباہ کا حوالہ دیا، پھر یہ لکھاکہ یہ سارے مسائل ایسے ہیں جن کے احکام تغیر زمان کی وجہ سے بدل گئے یا تو ضرورت کے تحت، یا عرف کی وجہ سے، یا قرائن احوال کے سبب، فرمایا: اور یہ سب مذہب سے باہر نہیں، اس لیے کہ صاحب مذہب اگر اس دور میں ہوتے تو ان ہی کے قائل ہوتے، اور اگر یہ تبدیلی ان کے وقت میں رونما ہوتی تو ان احکام کے بر خلاف صراحت نہ فرماتے۔فرمایا، اسی بات نے حضرات مجتہدین فی المذہب اور متا خرین میں سے اصحاب نظر صحیح کے اندر یہ جرات پیدا کی کہ وہ اس حکم کی مخالفت کر یں جس کی تصریح خود صاحب مذہب سے کتب ظاہر الروایہ میں موجود ہے، یہ تصریح ان کے زمانے کے حالات کی بنیاد پر ہے،جیسا کہ اس سے متعلق ان کی تصریح گزرچکی ہے: الخ)
(فتاویٰ رضویہ:جلد اول:ص 127-جامعہ نظامیہ لاہور)

منقولہ بالا عبارت سے واضح ہے کہ اسباب ستہ کے سبب مسائل کی تبدیلی مجتہد فی المذہب اور اصحاب نظر فقہائے کرام کے ذریعہ عمل میں آئے گی۔ ہر فقیہ کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔

اسی طرح امام اہل سنت قدس سرہ العزیز متبحر اور صاحب نظر فقیہ تھے۔فقہی تحقیقات میں ان سے اختلاف کا حق صاحب نظر فقیہ کو ہوگا۔ ہر شخص کو اختلاف کا حق حاصل نہیں۔


صرف متبحر فقیہ کو اختلاف کا حق 
فقہی مسئلہ سے فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے:

سوال:مستندعلمائے دین کے فتاویٰ کو جو شخص ہیچ وپوچ سمجھ کر اس پر عمل نہ کرے، اور کہے کہ فتویٰ وہی ہے جوہمارا دل گواہی دٍے۔ایسا شخص شریعت کے نزدیک کیسا ہے؟

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے جواب میں رقم فرمایا:”یہ شخص اگر خود عالم کامل نہیں تو مستند علمائے دین کے فتویٰ کونہ ماننے کے سبب ضال وگمراہ ہے۔قرآن عظیم نے غیر عالم کے لیے یہ حکم دیا کہ عالم سے پوچھو،نہ یہ کہ جس پر تمہارا دل گواہی دے، عمل کرو۔ قال اللہ تعالیٰ: (فسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون)۔جاہل کیا اور جاہل کا دل کیا۔

نعم من کان عالما فقیہا مبصرا ماہرا فہو مامور بقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم:استفت قلبک وان افتاک المفتون“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد نہم:جزدوم:ص 140-رضا اکیڈمی ممبئ)

منقولہ بالا حکم باب فقہیات کے ظنی واجتہادی مسائل سے متعلق ہے۔فقہی مسائل میں بھی عوام کو قیل وقال کی اجازت نہیں،بلکہ مستندومعتمدعلمائے حق کے بیان کردہ حکم شرعی کو ماننا ہے۔اسی طرح جوعالم کامل نہ ہو، اس کو بھی اختلاف کا حق حاصل نہیں۔اختلاف کا حق اس عالم کو ہے جو صاحب بصیرت اور ماہر فقیہ ہو۔عوام مسلمین فقیہ نہیں اور تمام ناقلین فتویٰ  صاحب بصیرت فقیہ نہیں۔

 اگر حضور صدر الشریعہ وصدر الافاضل وملک العلما علیہم الرحمۃ والرضوان نے کسی فقہی مسئلہ میں امام اہل سنت قدس سرہ العزیز سے اختلاف کیا ہو تو ما وشما کو اختلاف کا حق نہیں۔ اختلاف سے پرہیز کیا جائے،اور ملی اتحاد کو بر قرار رکھنے کی کوشش ہو۔  

 طارق انور مصباحی

جاری کردہ:11:جنوری 2023

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے