ایصال ثواب کے مختصر دلائل
جس طرح میت کو اپنے بعض اعمال کا اجر وثواب پہنچتے رہنا متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور اہل ایمان کا ان احادیث پر عمل بھی پایاجاتا ہے، اسی طرح میت کو کسی نیک عمل کے ذریعہ نفع پہنچانا اور میت کا اس سے نفع اٹھانا احادیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔البتہ گمراہ فرقہ معتزلہ اموات کیلئے دعا،ایصال ثواب،صدقہ وخیرات وغیرہ کے ثواب پہنچنے کے بالکل قائل نہیں ہیں ایصال ثواب کا منشا عموماً یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے میت سے عذاب میں تخفیف کردیتا ہے یا دور فرمادیتا ہے، کبھی میت کے درجات کی بلندی یا میت پر شفقت وترحم ہوتا ہے، کبھی اس کا مقصد والدین کی طاعت ہوتا ہے اور کبھی میت کے حق کی ادائیگی یااس کے احسان کا بدلہ دینا ہوتا ہے۔ اور ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ خود ایصال ثواب کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہو۔ یہ سب دینی مقاصد ہیں جو احادیث میں مذکور ہیں، بہرحال ایصال ثواب ایک شرعی مقصد ہے۔
ایصال ثواب کے مختلف طریقےہیں
ایصال ثواب چاہے مالی عبادت کے ذریعہ ہو، جیسے صدقات و خیرات کرنا یا مسکین و حاجت مند کو کھلانا، پلانا یا پہنانا یا ان کی کوئی اور ضرورت پوری کرنا یا بدنی عبادت سے ہو، جیسے نفل نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن وذکر واعتکاف اور طواف یا نفل حج یا عمرہ ایسے عمل کے ذریعہ ہو جس سے مخلوق کو نفع پہنچے اور اللہ کا قرب حاصل ہو، جیسے کنواں یا نہر کھدوانا (آج کل بورنگ کردینا) یا پل یا مسافرخانہ بنوانا، پھل دار یا سایہ دار درخت لگانا، مسجد کی تعمیر کرنا یا مصحف شریف یعنی قرآن مجید کو تلاوت کے لیے وقف کرنا یا اولاد کو دینی تعلیم دلانا وغیرہ ان سب چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراس سے میت کو خوشی وراحت ملتی ہے۔
حضرت سَیِّدَتُنا مریم بنت فَروَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ جب حضرت سیّدنا عمران بن حُصَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے وصالِ مبارک کا وقت قریب آیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا :
اِذَا اَنَا مُتُّ فَشُدُّوْا عَلَی بَطَنِیْ عِمَامَۃً وَاِذَا رَجَعتُم فَانْحَرُوْا وَاَطعِمُوا ۔
(المعجم الکبیر،ص104ج18)
یعنی جب میں فوت ہو جاؤں تومیرے پیٹ پر عمامہ باندھ دینا اور جب تم (تدفین کے بعد) واپس آؤ تو جانور ذبح کر کے لوگوں کو کھانا کھلانا۔
قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إنه لو كان مسلما فأعتقتم عنه، أو تصدقتم عنه، أو حججتم عنه بلغه ذلك
(رواہ أبو داود)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اگرتم میت کی طرف سے غلام آزادکرو،یا اسکی طرف سے کوئی صدقہ وخیرات کرو یا حج ادا کرو اسے ان تمام نیکیوں کاثواب ملے گا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔
عن أمّ المؤمنين عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا ( أي ماتت فجأةً ) وَ أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا ؟ قَالَ : نَعَمْ
(البخاري 1388)
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیااورمیراخیال ہے کہ اگرانکو مہلت ملی ہوتی تووہ صدقہ وخیرات کرتیں تواگرمیں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔ حضورپاکؐ نے فرمایا۔ہاں
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْه ِ وَ سَلَّمَ : إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ : أَنَّى هَذَا ؟ فَيُقَالُ :باسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ
(سنن ابن ماجہ بسند صحیح)
حدیث میں آتاہے کہ کسی شخص کا مرنے کے بعد درجہ بلند کردیاجاتاہے وہ پوچھتاہے کہ اے اللہ میرادرجہ اوررتبہ بلند کردیاگیااس کی کیاوجہ ہے توجواب ملتاہے کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لئے دعااوراستغفار کا ہدیہ بھیجاہے اوریہ اسی کا ثمرہ ہے
عن ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا ، أَنَّ سَعدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِي اللَّه عَنْهما تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَ هُوَ غَائِبٌ عَنْهَا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَ أَنَا غَائِبٌ عَنْهَا أَيَنْفَعُهَا شَيْءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا ؟ قَالَ : ( نَعَمْ ) قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ ( اسم لبستان كان لها صَدَقَة ٌ عَلَيْهَا .(صحیح البخاری )
حضرت سعد بن عبادہ سے روایت ہے کہ انکی غیرموجودگی میں ان کی والدہ کا انتقال ہوگیاانہوں نے اس تعلق سے حضورپاک سے پوچھاکہ اگرمیں ان کی جانب سے صدقہ کروں توکیااس کا ثواب ان کوملے گا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ہاں ۔اس پر انہوں نے اسی وقت اپناباغ جس کانام مخراف تھاصدقہ کردیا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی وصیت
وکان قد أمر أهله أن یطبخوا لهم شاة من غنمه لیأکلوه بعد الموت، وقد أرسل عثمان بن عفان إلی أهله فضمّهم مع أهله. انتهی.
(البدایہ والنھایہ ص157ج7)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے بعداپنے گھروالوں کو وصیت فرمائی کہ میری موت کے بعد ایک بکری ذبح کرکے لوگوں کو کھلانا
عن عاصم بن کلیب عن ابیہ ان رجلامن الانصار اخبرہ قال خرجنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی جنازة فلما رجعنا لقینا داعی امراةمن قریش فقال یارسول اللہ ان فلانة تدعوک ومن معک الی طعام فانصرف فانصرفنا معہ فجلسنا مجالس الغلمان من آبائھم بین ایدیھم ثم جیء بالطعام فوضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدہ ووضع القوم ایدیھم ففطن لہ القوم وھویلوک لقمتہ لایجیزھا فرفعوا ایدیھم وغفلواعناثم ذکروا فاخذوا بایدینا فجعل الرجل یضرب اللقمةبیدہ حتی تسقط ثم امسکوابایدینا ینظرون مایصنع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلفظھا فالقاھا فقال اخدلج شاة اخذت بغیر اذن اھلھا فقامت المراة فقالت یارسول اللہ انہ کان فی نفسی ان اجمعک ومن معک علی طعام فارسلت الی البقیع فلم اجد شاةتباع وکان عامر بن ابی وقاص ابتاع شاةامس من البقیع فارسلت الیہ ان ابتغی لی شاة فی البقیع فلم توجد فذکرلی انک اشتریت شاة فارسل بھا الی فلم یجدہ الرسول ووجداھلہ فدفعوھا الی رسولی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اطعموھا الاساری"
مسند احمد بن حنبل 294ج5
ابوداود، ص 117ج2
اس حدیث کاخلاصہ یہ ھے کہ ایک عورت کا بچہ فوت ہوا اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنازے کیلئے بلوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاکر قبر پر تشریف لے گئے واپسی پر اس عورت کاقاصد آگیا جس نے کہا یارسول اللہ وہ عورت آپ کو اور آپ کے ساتھ والے صحابہ کواپنےگھر بلارہی ھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر تشریف لائے تو اس نے بکری ذبح کی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب کھانا پیش کیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش کے باوجود اس گوشت کو چبا نہ سکے توقوم نے بھی کھانےسے اپنے ھاتھ کھینچ لئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید یہ بکری اپنے مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کی گئی ھے تواس عورت نے کہا میں نے بقیع کی طرف بکری خریدنے کیلئے ایک قاصد بھیجا لیکن مجھے بکری نہیں مل سکی تو میں نے یہ بکری آپ کیلئے اور آپ کے ساتھیوں کیلئے ذبح کروادی جب اس بکری کا مالک آجائیگا تو اسے اس کی قیمت ادا کردوں گی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چونکہ یہ بکری بغیر اجازت ذبح کی گئی ھےاس لئے اس کو قیدیوں کوکھلادو۔
"عن عائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم انھا کانت اذامات المیت من اھلھا فاجتمع لذلک النساء ثم تفرقن الا اھلھا وخاصتھا امرت ببرمة من تلبینة فطبخت ثم صنع ثریدا فصبت التلبینة علیھا قالت کلن منھا"
(صحیح بخاری ص815ج2)
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ان کے گھر میں جب بھی کوئی فوتگی ہوتی تو وہ اپنے گھر کی عورتوں کو پتھر کی ایک ھانڈی میں تلبینہ پکا کر پھر اس کو ثرید کو انڈیل کر مکس کرکے کھلاتی تھی۔
سنن دارمی میں ھے
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ: " كَانَ أَنَسٌ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ، جَمَعَ وَلَدَهُ وَأَهْلَ بَيْتِهِ، فَدَعَا لَهُمْ "
یعنی انس رضی اللہ عنہ جب قرآن ختم کرتے تو اپنے اہل و عیال کو جمع کرتے اور انکے لیے دعاء کرتے ۔
عن طاوس اليماني قال:
" إِنَّ الْمَوْتَى يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ سَبْعًا ، فَكَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُطْعَمَ عَنْهُمْ تِلْكَ الْأَيَّامِ "
رواه الإمام أحمد بن حنبل في " الزهد "
(حلية الأولياء ص11ج4)
حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے۔
چناچہ شیخ المحدثین شاہ عند الحق محدث دہلوی نے فرمایا
وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز۔
( اشعةاللمعات شرح مشکوٰۃ) “
اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے۔“
امام طبرانی رحمہ اللہ اپنی سند سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں
"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ أَسْلَمَ الصَّدَفِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُنْكَدِرِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ الشَّامِيَّ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَذْكُرُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَمُوتُ مِنْهُمْ مَيِّتٌ فَيَتَصَدَّقُونَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ، إِلَّا أَهْدَاهَا إِلَيْهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى طَبَقٍ مِنْ نُورٍ، ثُمَّ يَقِفُ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ، فَيَقُولُ: يَا صَاحِبَ الْقَبْرِ الْعَمِيقِ، هَذِهِ هَدِيَّةٌ أَهْدَاهَا إِلَيْكَ أَهْلُكَ فَاقْبَلْهَا، فَيَدْخُلُ عَلَيْهِ، فَيَفُرَحُ بِهَا وَيَسْتَبْشِرُ، وَيَحْزَنُ جِيرَانُهُ الَّذِينَ لَا يُهْدَى إِلَيْهِمْ بِشَيْءٍ» لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ "
(المعجم الأوسط،ص314ج6)
اگر کوئی آدمی مر جاتاہے اور اس کے گھر والے اس کی طرف سے موت کے بعدکوئی صدقہ وخیرات کریں تو جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کو ایک نورانی طبق میں رکھ کر صاحب قبر سے کہتے ہیں
اے قبر والے یہ ھدیہ ہے جو تیرے گھر والوں نے تیری طرف بھیجا ہے۔
اس حدیث کی بعض اسناد پرجرح مبھم ھے جوکہ نا معتبر ھے جرح کیلئے مفسر ہونالازمی ھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایاکہ
»مَا الْمَیِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا کَالْغَرِیقِ الْمُتَغَوِّثِ، یَنْتَظِرُ دَعْوَۃً تَلْحَقُہُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِیقٍ، فَإِذَا لَحِقَتْہُ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، وَإِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُدْخِلُ عَلَی أَہْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَائِ أَہْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ ہَدِیَّۃَ الْأَحْیَاء ِ إِلَی الْأَمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَہُمْ۔ «
البیھقی فی الشعب رقم7527،ج10،رقم8855ج11
مسند الفردوس للدیلمی ص24ج5
میزان الاعتدال،416ج4،
ترجمہ :میت توقبر میں بس ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی غرق ہونے والا فریادی ہوتا ہے ، جو اپنے ماں ، باپ ، بھائی یا دوست کی جانب سے ملنے والی دعا کے انتظار میں ہوتی ہے ، جب اسے ان کی جانب سے دعا پہنچتی ہے تو وہ اس کے نزدیک دنیا و ما فیھا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور بلاشبہ اللہ تعالی زمین والوں کی دعا سے قبر والوں پر پہاڑوں برابر رحمتیں نازل کرتے ہیں اور بے شک زندوں کا تحفہ مردوں کے لیے ان کے حق میں استغفار ہے۔
نوٹ: اس حدیث کی سند میں اگرچہ کچھ کلام ھے مگر متابع،وتعدداسناد کی وجہ سے قابل اعتبار ھے یہی وجہ ھے کہ اس حدیث کو امام الوھابیہ محمد بن عبدالوہاب نجدی نے اپنی کتاب "احکام تمنی الموت" ص66 میں بھی محل استدلال میں پیش کیاھے۔
علماء کرام کے درمیان اس پر اجماع ہے کہ میت کیلئے دعا اورصدقہ کرنا جائز ہے۔اسی بات کو امیرالمومنین فی الحدیث حضرت عبداللہ بن مبارک نے اس طورپر تعبیر کیاہے کہ میت کی جانب سے صدقہ کئے جانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
وقَالَ مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ عِيسَى الطَّالْقَانِيَّ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْحَدِيثُ الَّذِي جَاءَ «إِنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْبِرِّ أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَيْكَ مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صَوْمِكَ» . قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، عَمَّنْ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَذَا مِنْ حَدِيثِ شِهَابِ بْنِ خِرَاشٍ فَقَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ " قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ بَيْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ تَنْقَطِعُ فِيهَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَكِنْ لَيْسَ فِي الصَّدَقَةِ اخْتِلَافٌ
(مقدمہ صحیح مسلم ص 16)
اورامام نووی اس بارے میں لکھتے ہیں
فَإِنَّ الصَّدَقَةَ تَصِلُ إِلَى الْمَيِّتِ وَيَنْتَفِعُ بِهَا بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَهَذَا هُوَ الصَّوَابُ وَأَمَّا مَا حَكَاهُ أَقْضَى الْقُضَاةِ أَبُو الْحَسَنِ الْمَاوَرْدِيُّ البصرى الفقيه الشَّافِعِيُّ فِي كِتَابِهِ الْحَاوِي عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ الْكَلَامِ مِنْ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَلْحَقُهُ بَعْدَ مَوْتِهِ ثَوَابٌ فَهُوَ مَذْهَبٌ بَاطِلٌ قَطْعًا وَخَطَأٌ بَيِّنٌ مُخَالِفٌ لِنُصُوصِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِفَلَا الْتِفَاتَ إِلَيْهِ وَلَا تَعْرِيجَ عَلَيْهِ
(شرح النووی علی صحیح مسلم ص90ج1)
سوال:
آج کل لوگ،تیجہ،دسواں،بیسواں
،چالیسواں اور برسی کرتے ہیں کیا صحابہ نے ایسا کیا تھا؟
جواب:
احکام شر عیہ دو طرح کے ہیں۔ایک وہ جس کے لئے شریعت میں وقت ،ہیئت اور مقدار مقرر ہے۔جیسے نماز،روزہ،زکوۃ اور حج وغیرہ ۔ان کا حکم یہ ہے کہ شریعت نے جو وقت اور ہیئت ومقدار مقرر کردیا ہے اسی وقت اور ہئیت ومقدار کے ساتھ اِن عبادتوں کو کوئی انجام دے سکتا ہے اور اگر خلاف کیا تو ادا نہ ہوگی۔دوسرے وہ جن کے لئے شریعت نے کوئی خاص وقت ،ہئیت اور مقدار متعین نہ کیا ۔جیسے تلاوت قرآن ،ذکر خدا ورسول،درود شریف اور دوسرے نیک کام ۔ان کا حکم یہ ہے کہ کرنے والا جس وقت ،جس ہئیت اور مقدار میں چاہے کرے اسے اس کا ثواب ملے گا بشر طیکہ کوئی خاص وقت یا ہئیت سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ایصال ثواب بھی اسی دوسری قسم میں سے ہے۔تو آدمی جب چاہے کرے میت کو اس کا ثواب پہونچے گا۔رہی بات ،تیجہ ،دسواں ،بیسواں یا چالیسواں وغیر ہ کی یہ تعیین عرفی ہے شرعی نہیں جو بلا شبہ جائز ہے۔مشہور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے لئے خاص فر مایا تھا،ہر سال شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے ،اس کے علاوہ آپ ﷺ نے اپنے ہر کام کے لئے اوقات مقرر فر مایا تھا ۔اس لئے اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ہاں یہ ضروری ہے کہ ان تاریخوں کو آدمی ضروری نہ سمجھے کہ اس تاریخ کو نہیں کیا تو اب ہوگی ہی نہیں۔اور الحمد للہ ایسا کوئی جاہل سے جاہل آدمی بھی نہیں سمجھتا۔اس لئے اس پر طعن کرنا در حقیقت احادیث مبارکہ پر طعن کرنا ہے۔اور بلاوجہ مسلمانوں کے درمیا ن تفرقہ ڈالنا ہے جو سخت مذموم ہے۔
سوال:
آج کل لوگ روپیہ پیسہ دے کر قرآن خوانی کراتے ہیں اور پڑ ھنے والا ان روپیوں کے بدلے قرآن خونی کرتاہے اور پھر اس کا ثواب مردوں کو پہونچایا جاتاہے ،تو کیا اس طرح سے کرنا جائز ہے؟
جواب:
قرآن خوانی پر اجرت لینا دینا منع ہے ۔چنانچہ جب پڑھنے والے نے ان روپیوں کے بدلے پڑھا تو یہ خود حرام ہے اور حرام کام پر ثواب نہیں ملتا ۔تو جب خود پڑ ھنے والے کو ثواب نہیں ملا تو پھر اسے دوسرے تک پہونچانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ہاں اگر اخلاص کے ساتھ ایصال ثواب کی غرض سے قرآن شریف کی تلاوت کر کے یا کسی دوسرے سے کراکے ،ایصال ثواب کرے جس میں روپئے پیسے کی کو ئی بات نہ ہو تو بلا شبہ جائز ہے۔نیز پڑھنے والے نے اخلاص کے ساتھ بغیر اجرت کی نیت سے پڑھا مگر بعد میں صاحب خانہ نے قرآن شریف پڑھنے کی اجرت کی نیت سے نہیں بلکہ محبتاََ تحفہ کےطور پرکچھ دیاتوپھر اس کےجائز ہونے میں کوئی کلام نہیں
نوٹ:
بزرگان دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رھمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است۔
(زبدۃ النصائح،ص 132)
اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے۔“
علامہ ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں ایک جگہ پوری صفائی و وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ
"فلَا نِزَاعَ بَیْنَ عُلَمَائِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فِي وُصُولِ ثَوَابِ الْعِبَادَاتِ الْمَالِیَّۃِ کَالصَّدَقَۃِ وَالْعِتْقِ کَمَا یَصِلُ إلَیْہِ أَیْضًا الدُّعَائُ وَالِاسْتِغْفَارُ وَالصَّلَاۃُ عَلَیْہِ صَلَاۃَ الْجَنَازَۃِ وَالدُّعَائُ عِنْدَ قَبْرِہ ۔ وَتَنَازَعُوا فِي وُصُولِ الْأَعْمَالِ الْبَدَنِیَّۃِ : کَالصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ وَالْقِرَاء َۃِ وَالصَّوَابُ أَنَّ الْجَمِیعَ یَصِلُ إلَیْہ‘‘ ۔
ترجمہ :علمائے اہل سنت والجماعت کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عبادات مالیہ جیسے صدقہ کرنے اور غلام کو آزاد کرنے کا ثواب پہنچتا ہے جس طرح دعا ،استغفار ، نماز جنازہ اور قبر کے پاس دعا کرنے کا ثواب پہنچتا ہے اور عبادات بدنیہ کے بارے میں علما نے اختلاف کیا
(المبدع شرع المقنع ص288ج2)
علامہ ابن القیم فرماتے ہیں
"وبالجملۃ فأفضل ما یہدی إلی المیت العتق والصدقۃ والاستغفار لہ والدعاء لہ والحج عنہ ، و أما قراء ۃ القرآن وإہداؤہا لہ تطوعاً بغیر أجرۃ فہذا یصل إلیہ کما یصل ثواب الصوم والحج‘‘ ۔
خلاصہ یہ کہ میت کے لیے جس کا ہدیہ دینا افضل ہے وہ غلام کا آزاد کرنا ، صدقہ دینا ، اس کے لیے استغفار و دعا کرنا اور اس کی جانب سے حج کرنا ہے ، رہا قرآن کی تلاوت اور اس کا بلا اجرت میت کو بھیجنا، تو یہ بھی اس کو پہنچتا ہے جس طرح کہ روزے اور حج کا ثواب پہنچتا ہے۔
(کتاب الروح ص497)
معروف غیرمقلد عالم و محدث علامہ امیر الیمانی نے ’’سبل السلام شرح بلوغ المرام ‘‘میں ایک حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ:
’’و فیہ أن ہذہ الأدعیۃ ونحوہا نافعۃ للمیت بلا خلاف ، وأما غیرہا من قراء ۃ القرآن لہ فالشافعي یقول : لا یصل ذلک إلیہ ، وذہب أحمد، وجماعۃ من العلماء إلی وصول ذلک إلیہ وذہب جماعۃ من أہل السنۃ و الحنفیۃ إلی أن للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ ، صلاۃً کان أو صوماً ، أو حجاً ، أو صدقۃً ، أو قراء ۃ قرآن، أو ذکراً، أو أي أنواع القرب ، و ہذا ہو القول الأرجح دلیلاً ۔
ترجمہ :اس حدیث میں یہ مسئلہ ہے کہ یہ دعائیں اور اس جیسی دعائیں میت کو نفع پہنچاتی ہیں ، اب رہی ان کے علاوہ میت کے لیے قرآن کی تلاوت تو امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور امام احمد رحمہ اللہ اور علما کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اہل سنت علما کی ایک جماعت اور علمائے حنفیہ اس جانب گئے ہیں کہ انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے کو دے ، خواہ وہ نماز ہو یا روزہ ، حج ہو یا صدقہ ، قرآن کی تلاوت ہو ذکر و اذکار یا کسی اور قسم کی نیکی اور یہی قول دلیل کے لحاظ سے راجح ہے۔
(سبل السلام،ص119ج2)
معروف غیر مقلد عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ
"قرآن مجید پڑھ کر یا صدقہ خیرات کر کے میت کے لیے استغفار کرنا جائز ؛بل کہ احسن طریقہ ہے ، رسمی طور پر دن مقرر نہ کرے۔"
(فتاوی ثنائیہ ص32ج2)
علامہ عبدالحیی لکھنوی علیہ الرحمہ نے امام دمیاطی کے حوالے سے امام حسن بن محمدبن الحسن کے بارے میں لکھا ھے
"وکان معہ مولود حکم بموتہ فی وقتہ، فکان یترقب ذلک الیوم فحضر وھو معافی فعمل لاصحابہ طعاما شکرا"
(الفوائد البھیةفی تراجم الحنفیة،ص63)
یعنی امام حسن بن محمد نے اپنے بچے کی وفات پر وہاں تعزیت کیلئے موجود اپنے احباب کیلئے شکرانہ کے طور پر طعام تیارکروایا
شاہ ولی اللہ محدث دھلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
"اگرملیدہ وشیربرنج بنابر فاتحہ بزرگے بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پزند وبخورانند مضائقہ نیست جائزست وطعام نذر اللہ اغنیاء راخوردن حلال نیست واگرفاتحہ بنام بزرگے دادہ شد پس اغنیاء را ھم خوردن دراں جائزست"
(زبدةالنصائح)
اگرکسی بزرگ کی فاتحہ کیلئے ان کی روح مبارک کوایصال ثواب کے قصدسے ملیدہ اور چاول کی کھیرپکائیں اور کھلائیں تومضائقہ نہیں، جائزھے اورخداکی نذر کاکھانا اغنیاء کیلئے حلال نہیں لیکن اگرکسی بزرگ کے نام کی فاتحہ دی جائے تواس میں اغنیاء کوکھانا بھی جائزھے۔
مولوی خرم علی دیوبندی بلھوری (دیوبندی طائفہ کے معلم ثالث) نصیحةالمسلمین میں لکھتے ہیں
"حاضری حضرت عباس کی، صحنک حضرت فاطمہ کی، گیارھویں عبدالقادر جیلانی کی، مالیدہ شاہ مدار کا، سہ منی بوعلی قلندر کی، توشہ شاہ عبدالحق کا، اگرمنت نہیں صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظورہو تو درست ہے اس نیت سے ھرگز منع نہیں"
نصیحةالمسلمین،ص41
مولوی اسماعیل دھلوی لکھتاھے
"اگر شخصے بزے را خانہ پرورکندتاگوشت او خوب شود، اورا ذبح کردہ وپختہ فاتحہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ خواندہ بخوراند خللے نیست"
(زبدةالنصائح)
اگرکوئی شخص کسی بکری کوگھرمیں پالے تاکہ اس کا گوشت عمدہ ہو اس کو ذبح کرکے اورپکاکر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی فاتحہ پڑھ کر کھلائے توکوئی خلل نہیں۔
شاہ رفیع الدین دھلوی اپنے فتاوی میں فرماتےہیں
سوال: تخصیص ماکولات درفاتحہ مثل کھچڑا درفاتحہ امام حسین رضی اللہ عنہ وتوشہ درفاتحہ عبدالحق رحمة اللہ علیہ وغیرذلک وھمچناں تخصیص خورندگان چہ حکم دارد؟
جواب: فاتحہ وطعام بلاشبہ ازمستحسنات ست وتخصیص کہ فعل مخصص است باختیاراوست کہ باعث منع نمی تواندشد ایں تخصیصات از قسم عرف وعادت اند کہ بمصالح خاصہ ومناسبت خفیہ ابتداء بظہور آمدہ و رفتہ رفتہ شیوع یافتہ"
(فتاوی شاہ رفیع الدین دھلوی)
سوال: بزرگوں کی فاتحہ میں کھانوں کو خاص کرنا مثلا امام حسین رضی اللہ عنہ کی فاتحہ میں کھچڑا، شاہ عبدالحق رحمةاللہ علیہ کی فاتحہ میں توشہ،وغیرہ یوں ہی کھانے والوں کو خاص کرنا ان سب کا کیاحکم ھے؟
جواب: فاتحہ اور طعام بلاشبہ مستحسنات ہیں اور تخصیص جو مخصص کافعل ھے وہ اس کے اختیار میں ھے ممانعت کاسبب نہیں ہوسکتا یہ خاص کرنے کی مثالیں سب عرف اور عادت کی قسم سے ہیں جو ابتداء میں خاص مصلحتوں کی وجہ سے رونما ہوئیں پھر رفتہ رفتہ عام ہوگئیں۔
فتاوی فریدیہ میں مشہور دیوبندی عالم مفتی محمد فرید لکھتاھے
"اھل میت کی طرف سے تصدق علی المساکین والطلبہ(یعنی غریبوں اور طالبعلموں کیلئے خیرات کرنا) ھروقت جائز ھے جبکہ مال میں غائب اور یتیم کی شرکت نہ ہو اور یامال وصیت سے ہو"
فتاوی فریدیہ ص308ج3
شیخ عبدالحق محدث دھلوی علیہ الرحمہ جو علماء اھل سنت ودیوبند کے یکساں ممدوح ہیں ملک زین الدین اور ملک وزیرالدین رحمھما اللہ کے متعلق فرماتے ہیں
"وتمام متعلقان او از خدمت گاران وغیرھم ھمہ نصف آخرشب برائ تہجد بر می خاستند وتاوقت چاشت درمنزل او جزباشارت دست وزبان کارنمی شد ازجہت مشغولی اوراد و نوافل گویند کہ وے را شب جمعہ بر روح مطہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقدار چند من برنج قبول می کنند کہ بر ھر برنجی سہ کرت قل ھو اللہ احد خواندہ مے دمیدند"
(اخبارالاخیار ص248)
ترجمہ: ملک زین الدین و ملک وزیر الدین کے تمام ملازمین ونوکر آدھی رات کے بعد تہجد کیلئے اٹھتے تھے اس وقت سے لے کر نماز چاشت تک ان کے محل میں کوئی شخص اشارہ کے سوا کوئی بات زبان سے نہیں کرتے تھے اس لئے کہ تمام لوگ ذکر واذکار میں مشغول ہوتے تھے
جمعرات کے دن آدھی رات کے وقت کچھ من چاول پکاتے تھے اوران چاولوں کے ھردانے پر تین تین بار سورہ اخلاص پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو ایصال ثواب کیا کرتے تھے جن کی جمعہ کے روز قبول پکتی اورپھرغریبوں میں تقسیم کی جاتی تھی۔
واللہ اعلم
محمد عرفان الحق نقشبندی
دار العلوم حنفیہ رضویہ
سیمنٹ فیکٹری ڈیرہ غازیخان
03007824224
03457132487
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں