{فضائے غزہ چھوٹے بچوں کی بکثرت شہادتوں سے آلودہ ہے... یہودی دہشت گردی محو رقص ہے... او آئی سی کا اجلاس بزدل مسلم حکمرانوں کے مذمتی جملوں پر ناکام ہو چکا... 1.92 بلین مسلم آبادی میں غزہ تنہا ہے...}
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
مزاحمت اور دہشت گردی جُدا جُدا چیزیں ہیں....جو اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں؛ وہ ہیرو ہیں... اور جو قابض/غاصب ہے وہ دہشت گرد ہے... کیوں کہ اُس کا ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہے... اس کے ہاتھ ہزاروں ننھے ننھے بچوں کے خون میں لت پت ہیں... اس کا دامن بے گناہ شہریوں کے لہو سے داغ دار ہے... وہ اسرائیل ہے.... جو دہشت گردی کی بدترین مثال بن چکا ہے... جو قاتل ہے... ڈکیت ہے... اس کے خون آلود پنجوں کو 57 مسلم ممالک کی نمائندہ قوت روکنے میں ناکام ہے...
***
حقائق ایسے ہیں کہ کلیجہ منھ کو آتا ہے... اس صدی کا سب سے بڑا قتلِ عام غزہ میں جاری ہے... جہاں کی ہر تصویر دَرد ناک ہے... ساری دنیا میں انسانیت کا دَم بھرنے والے شاید چوڑیاں پہنے ہوئے ہیں... شاید نشے میں ہیں... انھیں یہ دَرد ناک مناظر نہیں دکھائی دے رہے... مناظر ایسے درد ناک ہیں کہ انھیں لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے؛ واردات کے چند احوال ان نکات میں سمیٹے جا سکتے ہیں...
***
ننھا سا بچہ زخموں سے چٗور چٗور ہے... دَرد کی شدت سے مجروح ہے... پورا بدن خون میں تر بتر ہے... معاً اس کے ہاتھ اپنے رب کی بارگاہ میں بلند ہو جاتے ہیں... کرب کے اس لمحے کی دُعا یقیناً قبولیت پائے گی... ہر ہر قطرے کا حساب ہوگا... لیکن حساب ان سے بھی ہوگا جن کے پاس قوت تھی؛ فوج و اسلحے تھے...
***
دلِ درد مند اگر سینے میں ہے تو احساس کی لَو تیز کیجئے... ماؤں کا سایہ سَر سے اُٹھ چکا ہے... سائبان (گھر) زمیں بوس ہو چکا... عزیز شہیدوں کے ساتھ کب کے روانہ ہو چکے... لیکن بچے ماں ماں پکارتے اِدھر اُدھر پریشاں حال پھر رہے ہیں... کوئی مداوا نہیں کوئی ہمدم نہیں.... لیکن! ایسے بچے ہر لمحہ بڑھتے جا رہے ہیں... جن پر یتیمی کا داغ لگ رہا ہے....
***
کیا یہ وقت "مذمت" ہے یا وقتِ مدد....فلسطینیوں کے حقِ دفاع کے لئے جو نوجوان وہاں دہشت گرد سے نبرد آزما ہیں اُن کے لیے مسلم مملکتیں کیا کر رہی ہیں... مذمت کافی نہیں ظلم کے ہاتھوں کو بزور طاقت روکنا ضروری ہے اور یہ انسانی تقاضا بھی ہے....
***
کیا آپ نے اس بچے کو دیکھا ہے جو بہت چھوٹا ہے... والدین سے محروم کر دیا گیا ہے... اس کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی ہیں... شاید آنسو خشک ہو چکے ہیں... اسے بھوک لگی ہے.... سایۂ شفقت اُٹھ چکا ہے... نہ چھت ہے، نہ کوئی عزیز، بے یار و مددگار... ظلم و دہشت کا شکار... اس پر ظلم کس نے کیا؟ تشدد کس نے ڈھایا؟ اسرائیل نے....
***
کپکپاتے بچے... بمباری سے خوفزدہ بچے... ننھی ننھی ٹانگوں پر لڑکھڑاتے... گرتے پڑتے زندگی کی جدوجہد میں مبتلا... بموں کی یلغار میں جینے کے جتن کر رہے ہیں...ان پر دہشت کس نے طاری کی؟ اسرائیل نے...
***
وہ بچی پیاسی ہے...دکھ سے نڈھال ہے... پتہ نہیں کس کس عزیز سے محروم ہے... اچانک اس کی نگاہ ایک خالی پانی کے جار پر پڑتی ہے... پیاس بجھانے کے لیے انگلیاں مس کر کے چاٹتی ہے... نل کو چوستی ہے... یہ افتاد کس نے ڈالی؟ اسرائیل نے...
بچوں کا ہجوم جمع ہے... پانی کا ٹینکر آتا ہے... بکثرت بچے دوڑ پڑتے ہیں... حوصلہ ہے زندگی کا... پیاس بجھ جائے گی تو سکون ملے گا... اچانک دہشت گرد طیارے بم برسا دیتے ہیں... خاک و خوں میں ننھے ننھے بچے تباہ ہو جاتے ہیں... دہشت گرد کون ہے؟ اسرائیل....
***
پہلے وہ حکمران ہوتے تھے کہ ایک بچی ظلم پر چیخ اٹھتی تھی تو سلطانِ اسلام کی نیند اڑ جاتی تھی اور ظالم کو جب تک انجام تک نہیں پہنچاتا تھا اس وقت تک سکون نہیں ملتا تھا...
آج غزہ سے ہزاروں بچیاں مسلم مملکتوں کو پکار رہی ہیں... مدد کے لیے دوہائی دے رہی ہیں... ان کی آوازیں فضاؤں میں تحلیل ہو جا رہی ہیں... کوئی پکار نہیں سُن رہا ہے... کوئی مدد کو نہیں اُٹھ رہا ہے... سب چوڑیاں پہنے آرام گاہوں میں ہیں....
غزہ پر اسرائیلی حملے دہشت گردی کی بدترین مثال ہیں... حق دفاع کا یہ مطلب نہیں کہ آبادیوں کو کچل کر رکھ دیا جائے... یہ عمل ہٹلر/چنگیز کی پیروی ہے... جو مذموم و دل آزار ہے
***
ایک تصویر ایسی واقع ہوئی جس نے جھنجھوڑ ڈالا... فلسطینی مظلوم ماں بمباری میں شہید ہو گئی ہے... اس کا سرمایہ دو کمسن بچیاں ہیں؛ ماں کی لاش کے پاس تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر آسمان کی سمت حسرت سے تک رہی ہیں... اے اللہ! شامِ غم کب دور ہوگی؟ کب صبح ہوگی؟ ہمارا سب کچھ تباہ ہو گیا بس تیری رضا ہے جو امید کی کرنوں کو محفوظ رکھتی ہے...
***
وہ تصویر کتنی دل آزار ہے کہ ایک پناہ گزیں کیمپ پر حملہ ہوتا ہے اور درجنوں فلسطینی شہید ہو جاتے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے... ننھی ننھی لاشیں کفن پوش...جن کی عمریں کھیلنے کی ہے؛ انھیں زندہ درگور کر دیا گیا... انھیں اسرائیل نے مار دیا...
***
وہ چھوٹا سا بچہ ہے... غالباً پورا خاندان شہید ہو چکا ہے... بچہ تنہا بچا ہے... وہ بم سے تباہ شدہ ملبے پر ایک چادر اوڑھ کر چین سے سویا ہے... یقین کی دولت سے مالا مال ہے... اسرائیل بچے سے خوفزدہ ہے جبھی بچے کو کمسنی میں تباہ کر دیا.... ان شاء اللہ بچہ بڑا ہو کر ظلم کے پنجے مروڑ دے گا....بچہ! تو بچہ ہے؛ دہشت گردوں نے اس کا گلشن تاراج کیا؛ دہشت گرد وقت کی گردش میں بربادی کی دہلیز ضرور عبور کریں گے...
***
غزہ کے کھنڈرات درد و کرب کی تصویر بنے ہوئے ہیں... ایک بچہ یقیں کی دولت سے مالا مال ہے... وہ فصیح عربی میں درد دل بیان کر رہا ہے... کرب کے ساتھ لیکن ایمانی جذبات سے پُر یہ نالۂ دل جھنجھوڑ رہا ہے:...... "یہ سچ ہے کہ غزہ سے (دنیا کا) رابطہ منقطع ہو گیا ہے... ایمبولینس اور دفاعی رابطہ مجروح ہے... جہان سے رابطہ منقطع ہے... لیکن! رب العالمین سے ہمارا رابطہ منقطع نہیں ہوا... مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی دشمنوں نے زمین تنگ کرنے کی کوشش کی (اور ناکام ہوئے)... بھوک، پیاس، تھکاوٹ بہت زیادہ ہے... اے اللہ یہود کے پیروں کے نیچے سے زمین ہلا دے... ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما... اے اللہ ہم پر دنیا تنگ کر دی گئی ہے اُسے کشادہ فرما... ہم بہت تھکے ہوئے اور بکھرے ہوئے ہیں... لیکن اللہ عزوجل پر یقین کامل ہے... اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا... واللہ! اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا... "
کرب کے ان احساس کو لفظوں میں کیسے بیان کیا جائے؛ بس خون کے آنسو بہنے کو آمادہ ہیں...دامن انھیں آنسوؤں سے تربتر ہے...
***
وہ بچہ جس کے جسم کے چیتھڑے بکھر چکے ہیں... چہرہ سلامت ہے... درد و کرب میں مبتلا ہے... طبی امداد کا منتظر ہے... ہاسپٹل بمباری کی نذر ہو چکے ہیں... اب علاج کیسے ہو گا؟ اے مسلم ممالک کے حکمرانو! تم بھی اس کے ذمہ دار ہو... تم نے ظالم کے ظلم پر چُپّی سادھ لی... تم نے ظلم کا تماشہ دیکھا، ظلم کے ہاتھ نہیں روکے... ظالم کی گرفت نہیں کی؛ مظلوم کو قوت و اسباب قوت مہیا نہیں کی...ظلم پر تماشائی بنے رہے... اسبابِ ظلم (پٹرول، وسائل، تعلقات) پر بند نہیں باندھا؛ اس لیے تم بھی ظالم ہو، بلاشبہہ ظالم ہو...
***
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں