Header Ads

عید سعید / مسلم امہ کی حالت زار اور ہماری ذمہ داریاں

عید سعید / 
مسلم امہ کی حالت زار اور ہماری ذمہ داریاں

غلام مصطفیٰ رضوی 
(نوری مشن مالیگاؤں)

  ہر روز نئی افتاد ہے، نئے فتنے ہیں، نئی نئی سازشیں ہیں۔ نفرت کی فضا میں جی رہے ہیں۔ اسلامی شناخت، ثقافت، تہذیب اور روایات کے آثار مٹانے کی تیاری کی جا چکی ہے۔ ایک صدی قبل بھی کچھ اِسی طرح کے حالات تھے۔ مغلوں کے زوال کے بعد سے ہی انگریز پھر مشرکین کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح مسلمان-مسلمان نہ رہنے پائے۔ اِسی لیے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو مال، طاقت، اخلاق، کردار، بود و باش کے رخ سے کم زور کیا گیا۔ تلمیذ اعلیٰ حضرت صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ ۹۶؍برس پہلے (۱۳۴۹ھ میں) لکھتے ہیں:
  ’’دین سے بے اعتنائی برت کر موجودہ صدی کے مسلمانوں نے دُنیوی ثروت کس قدر حاصل کر لی؟ اور وہ دُنیا جس کے عشق میں دین سے بغاوت گوارا کی تھی؛ ان کے پاس کتنی آگئی؟ اور پچاس سال ترقی کی کوشش کر کے انھوں نے کتنی ترقی کر لی؟ اس کا حال ظاہر ہے کہ باپ دادا کی چھوڑی ہوئی جاگیریں اور جائیدادیں سب ہاتھ سے نکل گئیں۔‘‘(مقالاتِ صدرالافاضل،ص۲۳۹)
  مسلمان افلاس و تنگ دستی میں مبتلا کیے گئے، رہی سہی کسر اخلاقی زوال نے پوری کر دی۔ دین سے دوری کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہر آن زوال کی گھاٹیوں میں داخل ہوتے چلے گئے۔ مال کا ضیاع، فضول خرچی حد سے بڑھ گئی۔ جس سے گھریلو حالات زوال پذیر ہوئے۔ تعلیم سے رشتہ ٹوٹا۔ اخلاق سے ناطہ ختم ہوا۔ کردار آلودہ ہوئے۔ دین سے دوری نے کہیں کا نہ رکھا۔بقول صدرالافاضل:
  فضول خرچی حد سے گزر گئی۔ آمدنی نہیں ہے مگر مصارف بڑھتے جاتے ہیں۔ اور بے جا مصارف اس ناداری میں بھی ہزارہا روپیہ تھیٹروں، سنیماؤں، کھل تماشوں اور رقص و سرور پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ قرض لیتے ہیں، گھر رہن رکھتے ہیں اور حرام میں روپیہ خرچ کر کے دنیا و آخرت کے خسارہ کا سامان کرتے ہیں۔(ایضاًص۲۳۹)
  قرض لینے کی لعنت آج کچھ زیادہ بڑھ چکی ہے۔ پہلے بنیے قرض دیتے تھے اب بینکوں سے لیے جاتے ہیں۔بھاری سود پر بڑے بڑے قرض لے کر پریشانیوں کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بندہ مضبوط کیا ہوا؛ کہ کاروبار کو وسیع کرنے کے لیے لون لے لیا، پھر اس پر شرح سود کی ادائیگی میں بسا اوقات کمر ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ یوں دنیا و آخرت دونوں نقصان میں پڑتے ہیں۔ 
  شراب و نشہ کو ام الخبائث کہا گیا ہے۔ یہ برائی کی جڑ ہے۔ آج ہماری بستیوں میں بکثرت نشہ خوری میں مبتلا افراد مل جائیں گے، جن کی عادت نے بکثرت خاندان برباد کر دیے۔ نوبت فاقوں کی آجاتی ہے۔ جائیدادیں ختم ہو جاتی ہیں۔ نشہ کی عادت اخلاق، مال، خاندانی نظام سبھی برباد کرنے کا باعث ہے۔اخلاقی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ بلکہ اب نشہ فیشن بن چکا ہے۔ جو ان بری عادتوں سے دور ہیں انھیں اجڈ، گنوار، دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔
  شراب کوکین اور نشہ کی عادتوں نے صحت و تندرستی بھی خراب کر دی ہے۔ اچھے خصائل اور نیک عادات جو ان کا طرۂ امتیاز تھے ان سے جدا ہو گئے ہیں اور جو لوگ ابھی تک پرانی وضع اور پرانے خیال کے موجود ہیں انھیں نئی نسل حقارت کی نظر سے دیکھتی اور بے وقوف سمجھتی ہے۔(ایضاًص۲۴۰)
  موجودہ صدی میں جو ہمارا طرز عمل رہا وہ نہایت مضر ہوا۔ اب ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے اور پچھلے مسلمانوں کے قدم بہ قدم چل کر اپنے آپ کو ان مصائب و آفات سے بچانا چاہیے۔ اور دین اسلام پر اس سرعت سے جھک پڑنا چاہیے کہ بہت تھوڑے عرصہ میں ہماری حالت کم سے کم تیرہویں صدی کے مسلمانوں کی مثل ہو جائے۔ (ایضاًص۲۴۰)
  ان نکات پر عمل کی اشد ضرورت ہے:
[۱] سلفِ صالحین کا اتباع و پیروی-
[۲] احکامِ دین کی پابندی-
[۳] اسلامی تہذیب و ثقافت پر استقامت-
[۴] خیر خواہی مسلمین-
[۵] شرکیہ مراسم سے اجتناب۔
[۶]شریعت پر سختی سے قائم رہنا-
[٧] بری عادات سے توبہ و ندامت-
عید الفطر کی بہاروں میں نیک و صالح اعمال کی انجام دہی سے دل و دماغ کی تطہیر کا سامان کریں- تا کہ صحنِ حیات میں خوشبو پھیل جائے اور غیر شرعی راہوں کا خاتمہ ہو- 
٭ ٭ ٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے