(قسط دوم)
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
ندا فاضلی
ایک بنجر و بیاباں ، پریشاں حال دل جسے کہیں تسکین میسر نہیں آتا تھا، جس کے رنج کا کوئی مداوا نہیں تھا، جس کی پرسشِ حال کو کوئی نہ تھا، جو تنِ تنہا تکالیف کا شجر کاٹ رہا تھا_ ایسا دل کہ جسے تاریکی ہی تاریکی نظر آ رہی تھی، جس پر الجھنوں کا سیلاب بھی امنڈ پڑتا تھا اور ایسی ہلاکت خیز داء لا دوا بھی لاحق ہوگئی تھی، جس کا علاج کوسوں میل تلک نہیں دکھ رہا تھا _
اچانک ایک دن مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے دل کش و دل آویز صدا رب تعالیٰ کی حمد کی صورت میں سنی اور فوراً میں سکون سا محسوس ہونے لگا، ایک وقت کے لیے ایسا لگا کہ دل پر سکینہ نازل ہوگیا ہے۔ پھر کیا تھا اب دیگر ضروریات سے فراغت کے بعد وہ شب و روز آذان کا منتظر رہنے لگا۔ اور جمعہ کے دن امام صاحب کی تقریر کا بھی_
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
فراق گورکھپوری
"بے شک دلوں کا سکون تو اللہ کے ذکر ہی میں ہے" جیسے ہی رب تعالیٰ کا ذکر اس کی سماعت سے ٹکراتا، اس کے رخسار پر ایک چمک نمودار ہوجایا کرتی تھی، اور اسے غم سے افاقہ ہوجاتا تھا۔ یہ واقعہ کچھ دنوں تک مسلسل گردشِ ماہ و سال کے ساتھ چلتا رہا۔ اس نے اس کے متعلق کسی سے بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا، حتیٰ کہ اپنی ذات سے بھی چھپاتے رہا–
جب اسی کیفیت میں کئی ایام گزر گئے، اور توفیقِ الٰہی اس کے ساتھ ہی رہی، تو اس نے سمجھ لیا کہ در بدر بھٹکنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اسی چوکھٹ پر اپنی جبین رکھ دیتا ہوں، اور سرِ تسلیم خم کر دیتا ہوں۔ کہتے ہیں ناں کہ "رحمت حق بہانہ می جوید" اللہ کی رحمت بندوں پر مہربان ہونے کا بہانہ ڈھونڈتی رہتی ہے۔ اور رحمت خداوندی کو وہ بہانہ مل گیا تھا۔ کیا ہی خوب کہا تھا مرزا غالب نے ع
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
یہی بات قلب و ذہن میں لئے ہوئے اسلام کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسلام کا گرویدہ بن گیا۔ اسلام کی محبت اس کے دل میں گھر کر گئی۔ الحاصل اس نے ایک عالمِ دین کے دست حق پرست پر توبةً نصوحا کا فریضہ انجام دے ہی دیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا _
اب چونکہ وہ علاقہ غیر مسلموں کے جبر و تشدد والا تھا، سو اس نے اپنے ایمان کا اعلان نہیں کیا، بلکہ خفیہ طور عبادت و ریاضت کرتا رہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ابتدائے اسلام کے مسلمان کیا کرتے تھے۔
اس خوش بخت انسان نے اس کا تذکرہ کسی سے کیا نہیں تھا سو تھوڑا سا فکر مند رہتا تھا کہ آگے کیا کیا جائے ؟
وہ اپنی فرماں بردار بیوی کو آہستہ آہستہ اسلام کی تاریخ اور اس کی حقانیت بتاتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے بھی ہدایت نصیب ہوئی۔ اس نے بھی کلمہ شہادت کا ورد کیا داخلِ اسلام ہو کر، خاتونِ جنت سیدہ طیبہ طاہرا فاطمہ زہرا کے کنیزوں میں اپنا نام لکھوا لیا _
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
نوٹ:- یہ کوئی مفروضی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کا حقیقت سے گہرا تعلق ہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے یہ واقعہ پیش آیا ہے۔
دعا گو ہوں، اللہ تعالٰی زوجین کو ایمان پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔!
راقم السطور : عارف ابن عبد اللہ
مقیم حال ؛ ناسک مہاراشٹر
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں