مریضِ عشق پر رحمت خدا کی (قسط اول)

🌹مریضِ عشق پر رحمت خدا کی🌹
 (قسط اول) 

طول شب فراق کا قصہ نہ پوچھئے
محشر تلک کہوں میں اگر مختصر کہوں
امیر مینائی

کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کے ظہور سے زیست کے خواب نکھر، یا بکھر جاتے ہیں زندگی سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے یا بنجر زمیں بن کر رہ جاتی ہے_
کہا جاتا ہے زندگی غم اور خوشی کا سنگم ہے مگر جب امیدیں ٹوٹتی ہیں، اور خوشیوں پر زوال آتا ہے تو اس طرح کی باتیں دل بالکل بھی قبول نہیں کرتا_
آج میں آپ کو ایک ایسا ہی دلچسپ قصہ سنانے جا رہا ہوں جو شاید ادھوری رہ گئی اور اس کی تکمیل کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی ع :
نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پر ہم تنہا چلے آئے
موسم سرما اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ شباب پر تھا، شعیب اپنے ایک عزیز دوست کے گھر گیا ہوا تھا، ملاقات کے بعد اس نے محسوس کیا کہ ایں جناب اس سے کچھ چھپا رہے ہیں، جبکہ چہرہ ان کی اداسیوں ، رنجشوں کی خبر دے رہا ہے۔
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
مسکرانا نہ بھول جایا کرو
وہ دریافت کرنے میں عجلت پسندی سے بچتے ہوئے، سنجیدگی اور خاموشی کا دامن تھامے رہا_
سارا دن سیر و تفریح میں گزر گیا دریں اثنا اس کی نظر بارہا دوست کے رخسار پر جاتی رہی، اور وہ سوچ میں پڑ جاتا کہ آخر وہ کون سے رنج و الم کا پہاڑ اس پر ٹوٹ پڑا ہے جو اس ہشاش بشاش شخص کو اداسی کی مورت بنا گیا_
عموماً یہی ہوتا ہے کہ ایک دوست جب دوسرے دوست سے ملاقات کرتا ہے تو اپنے مسرت و مضرات کی کل جمع پونجی سامنے رکھ دیتا ہے اور اس عمل سے اس کے بوجھ کی تکان بھی زائل ہوجاتی ہے۔
ٹھیک رات کے وقت کچھ ایسا ہی ہوا شعیب تو چپی سادھے ہوئے تھا مگر موصوف نے آپ بیتی سنانا شروع کی :
میں فلاں شہر میں ایک کمپنی کے اندر job ( نوکری) کر رہا تھا ٬ وقت وقت پر نمازیں بھی ادا کرلیا کرتا تھا ٬ اچھی salary ( تنخواہ) تھی ٬ گھر بھی آتا جاتا رہتا تھا وہاں کچھ پریشانی نا تھی مگر پھر میں ایک عظیم حادثے کا شکار ہوا جس سے میری حالت تباہ ہوگئی _
ہوا کچھ یوں کہ کمپنی owner (مالک) کے یہاں کسی رشتے دار کی شادی تھی تو انہوں نے مجھے بھی invite (دعوت) کیا تھا سو میں اپنی سادگی کے ساتھ اس تقریب میں حاضر آیا 
میرے اخلاق و کردار اور عادات و اطوار سے تو آپ واقف ہیں ہی شادی میں جہاں سب موج مستی کر رہے تھے میں سابقہ روش پر ٹکا رہا کوئی بزرگ مجھ سے ہم کلام ہوتا تو تہذیب کے دائرے میں، میں ان کی بات کا جواب دیتا وقتاً فوقتاً کچھ نا کچھ کام بھی کر لے رہا تھا دریں اثنا مجھے محسوس ہوا کہ دور سے ایک نظر میرا پیچھا کر رہی ہے جس طرف بھی قدم اٹھاتا ہوں وہ زہرہ نگاہ وہیں خیر مقدم کو تیار رہتی ہے۔
بالآخر آہستہ آہستہ وہ لڑکی میرے روبرو ہوئی اور یک بیک اظہارِ محبت کردیا مجھے تو سانپ سونگھ گیا زندگی میں کبھی ایسا معاملہ ہوا ہی نہیں تھا میں نے کچھ جواب نہیں دیا تھوڑی دیر بعد علم ہوا کہ یہ کمپنی کے owner کی بیٹی ہے اور other Cast (ہندو فیملی) سے ہے مزید خبر لگی کہ یہ لڑکی بہت بگڑی ہوئی ہے مغربی تہذیب کوٹ کوٹ کر اس کے اندر بھرا ہوا ہے میں نے کہا جو ہوا سو ہوا بچ گئے ہم ورنہ تو،،،،،،،،
خیر میں اس رات کو ایک برا خواب سمجھ کر بھول گیا، لیکن جب صبح office (دفتر) گیا تو مجھے بتایا گیا کہ مالک نے بلایا ہے۔ میں فوری طور پر پہنچا دیکھا کہ وہ لڑکی بھی موجود ہے۔ Sir نے کہا کہ میری بیٹی سے شادی کر لو یہ تمہاری محبت کی شکار ہوگئی ہے کل ہی سے پورا گھر سر پر اٹھا رکھا ہے طرح طرح کی دھمکیاں دے رہی ہے اور اتنا ہی روئے جا رہی ہے۔
میں Sir کی باتیں سن کر حیرت و استعجاب کے سمندر میں غرق ہوگیا اور دل ہی دل میں اس مسئلے کا حل تلاش کرنے لگا کچھ دنوں تک میری خاموشی کی کہانی چلی
مگر sir مجھ پر دباؤ بنانے لگے کہ تمہیں فیصلہ کرنا ہوگا جلد از جلد تمہارے اگر کچھ شرائط ہوں تو وہ بھی کہو سنی جائے گی 
میں نے سوچا موقع غنیمت ہے اپنی شرط رکھ دیتا ہوں میں نے کہا میں مسلمان ہوں سو آپ کی لڑکی کو مسلمان بننا پڑے گا ٬ پردہ داری ٬ نماز کی پابندی و دیگر وہ باتیں جو ہمارا مذہب سکھاتا ہے اسے اپنانا ہوگا 
پہلے پہل تو ان کا چہرہ سرخ ہوگیا مگر لڑکی نے آگے سے کہا مجھے منظور ہے مجبوراً لڑکی کے والدین نے بھی اجازت دے دی 
یہ خوشی کی وہ گھڑی تھی جسے میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا میں نے اسے کلمہ پڑھا کر اسلام میں داخل کیا اور اس کا نام ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی مناسبت سے عائشہ رکھا ، نماز کا طریقہ بتایا ٬ قرآن پڑھنا سکھایا ، پردہ پوشی کیسے کرتے ہیں وہ بتلایا _
جانے کیسی نظر پڑی اس کی 
میں وہیں کا وہیں کئی دن سے
میں نے کچھ ہی ایام میں اسے اسلامی ماحول میں ڈھال دیا وہ پنج وقتہ نمازی بن گئی قرآن کی تلاوت کرنے لگی نقاب بھی پہننے لگی اپنے سارے پھوہڑ دوستوں سے ترک تعلق بھی کرلیا مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایک مغربی تہذیب کے دلدل میں پھنسی ہوئی لڑکی اتنی جلدی کنیز فاطمہ بن جائے گی میں نے اس پر رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا 
شعیب نے کہا یہ تو بہت بڑا اور قابلِ تعریف کام آپ نے سر انجام دیا اس پر تو آپ کو خوش ہونا چاہئے پھر یہ اداسیاں ٬ چہرے پر رنج و غم کے اثرات جھوٹی مسکان والی بات میرے سمجھ میں نہیں آ رہی اسے خدشہ ہونے لگا کہ عقیل عباس جعفری نے کہا تھا ع :
ہر عشق کے منظر میں تھا اک ہجر کا منظر
اک وصل کا منظر کسی منظر میں نہیں تھا
دوسرے دوست نے کہا ابھی واقعے کا اختتام نہیں ہوا بلکہ ابھی کچھ باقی ہے 
سب بہتر چل رہا تھا شادی کا دن بھی قریب تھا میں بھی اس کے عشق میں گرفتار ہو چکا تھا مگر زندگی نے ایک ایسی کروٹ بھی لی، کہ میری ساری خوشیاں، میرے سارے خواب ٹوٹ، پھوٹ کر بکھر گئے اور میں اسی دن سے ایک زندہ لاش کے مانند ہوگیا ہوں ع :
سنا ہے موت مداوا ہے زیست کے غم کا
رکو میں جان سے جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں
شعیب سکتے میں پڑگیا کہ آخر ایسا ہوا کیا جو آپ کو اس طرح کی اذیت سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ 
انہوں نے بتلایا کہ عائشہ اور اس کے بھائی گاڑی سے کہیں جا رہے تھے راستے میں پہاڑ کی وادی پڑی اور وہاں وہ گاڑی سنبھال نہیں پائے گاڑی کھائی میں گر گئی اور دونوں مالکِ حقیقی سے جا ملے_
انا للہ وانا الیہ رٰجعون 🥲 
تیرے ہوتے تو بیاباں بھی تھے گلشن سارے
تو نہیں ہے تو یہ دنیا ہے بیاباں جاناں
یہ ایک داستان تھی سچے عشق کی جو مکمل تو نہ ہوسکی، مگر اپنا نقش چھوڑ گئی، ایک بنجر دل میں عشق کا کوپل کھلا گئی۔ اور ایک ہر طرح کی برائیوں میں ملوث خاتون کو پاکیزگی اور حیاء کا محور بنا گئی۔ مگر کیا کر سکتے ہیں وصال واقع نہ تھا، مرضیٔ مولیٰ از ہمہ اولیٰ !!!

راقم التحریر : عارف ابن عبد اللہ 
سدھار تھ نگر اتر پردیش

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے