علامہ قمرالزماں خان اعظمی
(سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن برطانیہ)
امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی شخصیت، اُن کی فکر اور علم و فن پر گزشتہ ایک صدی میں شرق و غرب میں جس قدر لکھا جا چکا ہے؛ اُس کا احاطہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اُن کی شخصیت پر لکھنے والے سیکڑوں اہلِ قلم نے اُن کی حیات اور اُن کے کارناموں کے بے شمار گوشوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ عالَم ہے کہ جب بھی اُن کی زندگی اور اُن کی تحریروں کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو آسمانِ فکر پر سیکڑوں نئے آفاق جلوہ گر ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اُن پر کام کرنے والے کسی مخصوص طبقۂ علم سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ ایک طرف دینی اعتبار سے علما اور راسخین فی العلم کی ایک کثیر تعداد ہے، تو دوسری طرف صوفیا اور زہاد کا ایک طبقہ ہے۔ فلسفۂ قدیم و جدید کے ماہرین کی ایک ٹیم ہے، تو ریاضی اور علم ہیئت کے محققین کی ایک جماعت ہے۔ ناقدین شعر و ادب کا ایک گروہ ہے، تو آشنایانِ رموز معرفت کا بھی ایک طبقہ ہے۔ دُنیا کے تمام بڑے انسانوں کی طرح اُن کے مداحین کی ایک عظیم جماعت ہے، تو ناقدین کا بھی ایک طبقہ ہے، اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ میرے اپنے خیال میں گزشتہ ایک صدی میں اُن کے حوالے سے جتنا کام ہوا ہے وہ صرف دس فی صد ہے، بقیہ ۹۰ ؍فی صد کے لیے کئی صدیاں درکار ہیں۔
میں نے امام احمد رضا اور علوم القرآن کے حوالے سے اُن کے ترجمۂ قرآن کو بالاستیعاب پڑھنے کی کوشش کی، تو مجھے یہ جان کر بے پایاں حیرت ہوئی کہ مفسرین کرام نے جن آیات کی تفسیر میں کئی کئی سطور اور بعض وقت وضاحت میں کئی کئی صفحات تحریر فرمائے ہیں، امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے اُن تفاسیر اور وضاحتوں کو اپنے تفسیری ترجمے میں سمو دیا ہے، اُن کا ترجمہ پڑھنے کے بعد قرآن عظیم کے باب میں کسی آیت سے متعلق کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ یہ ایک مستقل عنوان ہے؛ جس پر ایک مبسوط کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔ فصاحت و بلاغت ،استعارہ اور کنایہ، تشبیہ و تمثیل کی تمام خوبیوں کو انہوں نے اپنے ترجمے میں سمو دیا ہے۔
اسی طرح فہمِ قرآن کے لیے اُصولِ تفسیر کے بعض امور کو جنہیں تفہیم کے لیے ضروری سمجھا گیا، ان کا بھی ترجمے میں بھرپور خیال رکھا گیا۔ صراحۃ النص، دلالۃ النص، اقتضاء النص اور اشارۃ النص کے اُصولوں میں جہاں جس کی ضرورت تھی، ترجمے میں اُس کی مکمل رعایت موجود ہے۔
اسی طرح مقامِ الوہیت اور شانِ رسالت ﷺکی مکمل رعایت کرتے ہوئے ایسے الفاظ یا عبارات کا استعمال کیا گیا ہے، جہاں نہ شانِ الوہیت پر حرف آتا ہے اور نہ ہی مقامِ رسالت متاثر ہوتا ہے۔ ماضی کے مترجمین نے اپنے تراجم میں ایسے الفاظ اور عبارتیں استعمال کی ہیں جن سے مقام الوہیت اور شانِ رسالتﷺ کی تنقیص ہوتی ہے، اور قاری ان ترجموں کو پڑھ کر کانپ جاتا ہے۔ اسلام دُشمن قوتوں نے ان تراجم کو پڑھ کر بہت سے الزامات عائد کیے ہیں، اگر آپ چاہیں تو ’شدھی سنگٹھن‘ کی تحریک کے زمانے میں قرآن پر عائد کیے گئے الزامات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
مثلاً :مسلمانوں کا خدا مکار ہے، معاذاللہ۔ مسلمانوں کا خدا ٹھٹھا کرتا ہے، معاذ اللہ۔ اسی طرح کی سرخیاں قائم کر کے قرآن پاک کی آیات اور اس کے نیچے ان مترجمین کے غلط ترجموں کو نقل کیا ہے۔
کتنا عظیم احسان ہے ملتِ اسلامیہ پر امام اہلِ سُنّت کا، انہوں نے اپنے ترجمے کو ان فروگزاشتوں سے پاک فرما کر ہر طرح کے الزام سے مسلمانوں کو بچا لیا ہے۔
وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی o (سورۃ الضحیٰ :۷) کا ترجمہ جن لوگوں نے یہ کیا تھا کہ: ’آپ کو گمراہ پایا تو ہدایت دی۔‘ اس غلط ترجمے کو سامنے رکھ کر گمراہ فرقوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ: پیغمبر اسلام وحی پاک سے پہلے معاذاللہ دوسرے عربوں کی طرح گمراہ تھے، جب کہ قرآن عظیم نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے: مَاضِلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی(سورۃ النجم:۲) اگر اوپر والے ترجمے کو تسلیم کیا جائے تو قرآن میں تضاد اور اختلاف تسلیم کرنا پڑے گا، جب کہ قرآن عظیم کا ارشاد گرامی ہے: لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاللہِ لَوَ جَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا(سورۃ النساء:۸۲)
امام اہلِ سُنّت کے ترجمۂ قرآن اور دوسرے تراجم کے تقابلی مطالعے پر متعدد کتابیں آ چکی ہیں، اس لیے مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
ترجمۂ قرآن کے حوالے سے ابھی ایک بہت اہم کام باقی ہے۔ سرسید احمد خان نے اپنی تفسیر میں ان تمام معجزات اور ماوراء الطبعیات حقیقتوں کا انکار کیا ہے، یا تاویل کی ہے، جو ان کے ممدوحین، مستشرقین یورپ کی عقل و فہم سے بالاتر تھیں۔ ضرورت ہے کہ ترجمۂ اعلیٰ حضرت کی روشنی میں سرسید کی تفسیرات کا بھرپور تعاقب کیا جائے۔
٭٭٭
ترسیل : نوری مشن مالیگاؤں
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں