مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
پندرہ سو سالہ جشن ولادت اور حساب وکتاب
(1)بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اسی سال یعنی 1447 ہجری کے ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو پندرہ سو سال کی تکمیل ہو گی،یعنی 1499 تاریخ ولادت گزر چکی ہے اور امسال پندرہ سو سال مکمل ہو گا اور یہ پندرہ سواں یوم ولادت یا تاریخ ولادت ہے۔
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ 1498:تاریخ ولادت گزر چکی اور امسال 1499 کی تکمیل ہو گی۔
(2)ہر فریق نے اپنے موقف پر ثبوت پیش کیا ہے،لہذا اس سال بھی دھوم دھام سے جشن ولادت اقدس منائیں اور اگلے سال بھی خوب دھوم دھام سے منائیں اور (اختلاف امتی رحمۃ)کی عملی تصویر پیش کریں۔
عشق نبوی اور محبت مصطفوی میں جو نیک کام آپ کریں گے، ان شاء اللہ تعالی اس کا اجر عظیم تو ضرور ملے گا اور یہ سب ایسے امور نہیں جو شرعی طور پر کسی تاریخ سے مقید ہوں،بلکہ ہر دن عید میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منائیں تو خوش بختی اور نیک بختی ہے۔
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
(3)ایک فریق کا کہنا ہے کہ کسی کی ولادت پر یوم پیدائش منایا جاتا ہے تو جس دن اس کی پیدائش ہوئی،اس پر جب ایک سال گزر جاتا ہے تو وہ پہلا سالگرہ کہلاتا ہے۔یہی عرف اور یہی رواج ہے۔اسی طرح پہلا عرس کسی بزرگ کی وفات کے دن نہیں منایا جاتا ہے،بلکہ جب اس پر ایک سال گزر جاتا ہے،تب پہلا عرس منایا جاتا ہے۔
یعنی اس فریق نے عرف وسماج کے اعتبار سے اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔پھر دوسرا فریق خاص تاریخ ولادت اقدس سے شمار کرتا ہو گا،اور اس کو پہلا یوم ولادت اقدس مان کر پندرہ سو سال کی تکمیل امسال مان رہا ہو گا۔
(4)چوں کہ امسال یعنی 1447 ہجری کی بارہوں تاریخ کو پندرہ سو سالہ جشن ولادت اقدس منانے کی تیاری طویل مدت سے چل رہی تھی اور اس کے لئے ہر طرف ماحول سازی بھی کی گئی ہے اور لوگ اس جانب متوجہ ہو چکے ہیں اور اصل تاریخ کے اعتبار سے امسال پندرہ سو سال کی تکمیل ہو جاتی ہے تو امسال بھی پندرہ سو سالہ جشن ولادت اقدس اصل تاریخ ولادت اقدس کے اعتبار سے منا لیں اور اگلے سال یعنی 1448 ہجری میں عرف مسلمین کے اعتبار سے پندرہ سو سالہ جشن ولادت اقدس منا لیں۔
چوں کہ ان امور سے متعلق شریعت کی کوئی حد بندی نہیں ہے،لہذا دھوم دھام سے جشن ولادت اقدس منائیں۔اگر امسال کا جشن ولادت اقدس چودہ سو پچاسواں ہو تو کیا اسے تزک و احتشام سے نہیں منایا جائے گا۔یہ تو کوئی قانون نہیں ہے کہ صدی کی تکمیل ہو،تب ہی جذبات محبت کا اظہار کیا جائے۔
نہ جانے کتنے لوگ اگلے سال تک زندہ ہی نہ رہیں،لہذا اپنے حبیب وشفیع علیہ الصلاۃ والسلام سے عشق ومحبت کا اظہار ہر دن کریں،بارہ تاریخ کا انتظار بھی نہ کریں،بلکہ جب بھی موقع ملے،فرحت وشادمانی کا اظہار کرتے رہیں۔رب تعالی نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کو رحمت کائنات بنا کر بھیجا ہے۔رحمت ونعمت پر ہر لمحہ شکر الہی کی بجا آوری اور خوشی ومسرت کا اظہار ہونا چاہئے۔
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
(5)چوں کہ ایسے امور سے متعلق شریعت خداوندی میں کوئی قید و بند نہیں ہے،لہذا اس سے متعلق جو تحقیقات ہوں،وہ محض ان محققین کو دی جائیں جو اس پر غور کرنے کے خواہش مند ہوں۔
تیاری تو بہت دنوں سے ہو رہی تھی،کوئی تحقیق کرنی ہی تھی تو پہلے کر لیتے۔یا چند دن صبر کر لیں۔بارہویں تاریخ کے بعد اس پر کام کریں اور اس کو محض اہل علم تک محدود رکھیں۔مجھے تو بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریق کسی نہ کسی طرح صحیح ہیں۔واللہ تعالی اعلم باالصواب عالیہ المرجع والمآب
تحقیقات توجہ طلب ہیں۔ عوام کو سمجھنا مشکل ہے،بلکہ اہل علم کے لئے بھی بہت آسان نہیں اور اس بارے میں شریعت کی حد بندی نہیں،لہذا جشن ولادت اقدس کی تیاریوں میں مصروف و مشغول ہو جائیں۔
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:یکم ستمبر 2025
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں