ناموسِ رسالت ﷺ میں توہین کی جسارتیں اور میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی بہاریں
پندرہ سو سالہ میلاد مصطفیٰ ﷺ کی مناسبت سے خصوصی تحریر
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن، مالیگاؤں
اللہ تعالیٰ نے کونین کی تخلیق محبوب پاک ﷺ کے صدقے فرمائی۔اسے سجایا، سنوارا، آراستہ کیا۔ ستاروں، سیاروں، چاند و سورج سے زینت بخشی۔ پانی جیسی نعمت آسمان سے اتار کر زمین کو جِلا بخشی۔نظامِ کہکشاں، صبح کا نمودار ہونا، شام کا چھا جانا، باغ و بہار کی زیبائش۔ لالہ و گل کی خوشبو سب ایسی نعمتیں ہیں جو محبوب پاک خاتم الانبیاء ﷺ کی آمدآمد کا عطیہ ہیں۔ نورِ پاک ﷺ کیا چمکا جہان چمک گیا؛ اہلِ جہاں چمک گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں:
’’نورِ محمدی ﷺ اربوں اور کھربوں سال فضاؤں میں چمکتا دَمکتا رہا… اللہ کی حمد کرتا رہا… وہ دیکھتا رہا جو کسی آنکھ نے نہ دیکھا…وہ سنتا رہا جو کسی کان نے نہ سنا… اللہ نے اپنے کرم سے اپنا علم دکھایا… فرمایا: اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ(سورۃ المجادلہ:۷) کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے، سب جانتا ہے؟… جب زمین و آسمان پیدا ہورہے تھے، آپ مشاہدہ فرمارہے تھے… ارشاد ہوا، اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ (سورۃ الابراہیم:۱۹) کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان و زمین کو ٹھیک ٹھیک پیدا فرمایا…؟ ہاں! وقت آیا، اللہ نے جب نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو آشکار کرنا چاہا تو آدم علیہ السلام کی پیشانی میں رکھا جو آفتاب کی طرح چمک رہا تھا… فرشتوں کو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کا حکم ملا… آن کی آن میں سب سر بسجود ہوگئے(سورۃ الحجر:۲۰، سورۃ الاعراف:۱۱، سورۃ الکہف:۵)… مگر ابلیس، نظر سے محروم تھا، کھڑا رہا، مردود ہوا… اور یہ راز پہلی مرتبہ کھلا کہ محبوب کریمﷺ کی تعظیم و تکریم، اللہ ہی کی تعظیم و تکریم ہے… جو یہ راز نہیں سمجھتا وہ حرفِ محبت سے نا آشنا ہے۔‘‘(آمد بہار، ص۷۔۸)
محبت و تکریم کا درس دیا گیا۔ احترام کی تعلیم دی گئی۔صحابۂ کرام نے بھی اسی درس کی تجدید کی۔ سلفِ صالحین نے بھی تکریم مصطفیٰ ﷺ کا درس مہیا کیا۔ توہین کی جرأتیں کی گئیں۔ ان کے سدِ باب کی مثالیں بھی قائم ہوئیں۔ مسیلمہ کذاب اٹھا؛ صحابہ نے گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ ہر دور میں توہین کی جسارتیں کی گئیں اور ان فتنوں کی بیخ کنی کو سلفِ صالحین نے قربانیاں پیش کیں-
مسلمانوں کی شوکت و قوت کا رازِ روحِ محمد میں مستور ہے۔ یہ راز دشمنوں نے جان لیا تھا؛ اسی لیے دلوں سے محبت و عشق رسول ﷺ کی تپش کم کرنے کے لیے تمام تر سازشیں کی گئیں۔ مستشرقین کا فتنہ اٹھا، ہند میں آریاؤں نے توہین کی۔ بعد کو مشرک لیڈروں نے توہین رسالت کا بازار گرم کیا۔ مرزا قادیانی اور اس جیسے گستاخوں کی عبارتوں نے بکثرت عاشقانِ رسول کے دلوں کو مجروح کیا۔ ان طوفانوں کا مقابلہ علماے حق نے عزیمت کے ساتھ کیا۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب ناموسِ رسالت ﷺ پر حملہ ہو تو اہم ترین کام فتنوں کا جواب دینا ہوتا ہے۔ یہی کام اکابر امت نے کیا۔ پادریوں کے اعتراضات کے جوابات میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، صدرالافاضل علامہ سیدنعیم الدین مرادآبادی اور ان جیسے علما نے تحریری و تقریری طور پر کام کیا۔ خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی نے عالمی سطح پر توہین رسالت کے مرتکب قادیانی کو بے نقاب کیا۔ اعلیٰ حضرت نے زمانی تقاضوں کے مطابق کام کیا۔ درجنوں کتابیں ایسی تصنیف کیں جن میں توہین رسالت کے مرتکبین کامدلل رد کیا۔ دلائل سے عظمت رسالت ﷺ کا بیان کیا۔ ہر ہر اعتراض کا جواب دیا۔ کتاب و سنت کی روشنی میں عظمت و شانِ رسالت ﷺ اجاگر کی۔ عظمت رسالت ﷺ پر ایسی کتابیں تصنیف کیں جو توہین رسالت کے مقابل ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے پاکیزہ جذبات پروان چڑھانے کا موجب بنیں۔
چوں کہ اس زمانے میں بلکہ اس زمانے میں بھی باطل قوتیں اس کوشش میں ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو عام درجے پر پیش کیا جائے تا کہ تعظیم کا نقش دلوں پر نہ جم سکے۔ ایسے حالات میں لازم ہے کہ فضائل و کمالاتِ مصطفیٰ ﷺ کو ازبر کرانے والا مواد سامنے لایا جائے۔
[۱] اعلیٰ حضرت نے ’’تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین‘‘(۱۳۰۵ھ) تصنیف کی۔ حضورﷺ کے سب نبیوں سے افضل ہونے پر دس آیتیں سو حدیثیں اس میں جمع کی ہیں۔
[۲] حضورﷺ کے فضائل و کمالات پر اعلیٰ حضرت نے ۴۵؍ آیات اور ۲۴۰ ؍احادیث کا مجموعہ؛ خاص طور سے حضور کے دافع البلاء ہونے کا بین ثبوت ’’الامن و العلٰی لناعتی المصطفیٰ بدافع البلاء‘‘ (۱۳۱۱ھ) میں یکجا فرمایا۔
[۳] اعلیٰ حضرت نے ’’زواہر الجنان من جواہر البیان‘‘ (۱۲۹۷ھ) تصنیف کی جس میں بکثرت آیات و احادیث و اقوال علماے دین سے یہ ثابت فرمایا کہ ساری کائنات حضورﷺ کے زیرنگیں ہے۔
[۴]نقش محبت رسول ﷺ جمانے کے لیے اعلیٰ حضرت نے ’’عروس الاسماء الحسنی فیما لنبینا من الاسماء الحسنی‘‘(۱۳۰۶ھ) تصنیف کی جو حضورﷺ کے ہزار سے زائد اسماے گرامی کا مجموعہ ہے۔
[۵] رسول اللہ ﷺ کا بے مثل ہونا۔ بے عیب ہونا۔ سایہ نہ ہونا بھی اہم عنوان رہا ہے۔ اس پر ’قمر التمام فی نفی الظل عن سیدالانام‘‘ (۱۲۹۶ھ) اور ’’نفی الفیٔ عمن بنورہ انار کل شیٔ‘‘ (۱۲۹۶ھ) تصنیف کی۔
[۶] اعلیٰ حضرت نے ’’طیب المنیہ فی وصول الحبیب الی العرش والرویۃ معروف بہ منبہ المنیہ بوصول الحبیب الی العرش و الرویۃ‘‘ (۱۳۲۰ھ) حضور ﷺکے شب معراج عرش تک پہنچنے اور دیدار الٰہی کے بیان میں تصنیف کی۔
[۷]اختیاراتِ مصطفیٰ ﷺ پر اعتراض کے جواب میں ’’منیۃ اللبیب ان التشریع بیدالحبیب‘‘(۱۳۱۱ھ) تصنیف کی، جس میں یہ مدلل ہے کہ بعطاے الٰہی تمام احکام شریعت حضور ﷺکے اختیار میں ہیں۔
حالات کا تقاضا ہے کہ نسلِ نو کے دل و دماغ پر تعظیم و تکریم مصطفیٰ ﷺ کا نقش جمایا جائے۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی تو یہی چال رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تکریم دلوں سے نکال دی جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی کتابیں مطالعہ میں لائیں جن سے رسول اللہ ﷺ کا احترام ازبر ہو۔
٭ ٭ ٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں