عشق نبوی میں کمی اور اپنی ذات پر نظر
(1)مذہب اہل سنت وجماعت کے خمیر میں عشق نبوی ومحبت مصطفوی شامل وداخل ہے۔لیکن مجھے اپنے عہد کے چھوٹے بڑے کو دیکھ کر حد درجہ تعجب ہوتا ہے کہ عشق نبوی کا بلند وبالا دعویٰ تو ہے،لیکن اس کے اثرات کا ظہور نہیں ہوتا۔اس سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دعویٰ محض دعویٰ ہے یا پھر آداب عشق سے غفلت شعاری ہے۔
(2)جب تک قائدین قوم کے اندر عشق نبوی مستحکم نہ ہو،تب تک اہل سنت وجماعت میں لا مرکزیت کا طوفان برپا رہے گا اور فتنے سر اٹھاتے رہیں گے۔جب بنیادی چیز ہی غائب ہے تو استحکام کس قدر ہو گا۔
مثلا پانچ کروڑ کی فور وہیلر گاڑی ہے اور اس میں پٹرول ہی نہیں ہے تو وہ چار قدم بھی نہیں چل سکتی ہے۔یہی حال برصغیر میں اہل سنت وجماعت کا ہے۔آج سے ساٹھ ستر سال پہلے جب ہمارے پاس اس قدر عظیم الشان ادارے اور اسکول وکالج نہیں تھے اور نہ ہی موجودہ تعداد میں علما و قائدین تھے،تب ہماری تعداد بھی زیادہ تھی اور احباب اہل سنت متصلب سنی تھے۔آج سب کچھ ہو کر بھی ہماری تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔وجہ کیا ہے؟
(3)آج عشق نبوی میں حد درجہ کمی ہو چکی ہے اور ہر قائد،بلکہ ہر فارغ التحصیل یہ سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں۔اگر ہر فارغ التحصیل صرف اتنا سمجھ لے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں،بلکہ میں صرف غلام مصطفیٰ ہوں،تب ان شاء اللہ تعالی چند لمحوں میں سارے برصغیر کا ماحول درست ہو جائے گا اور اہل سنت وجماعت کو فروغ حاصل ہو جائے گا۔
(4)عہد حاضر کو قائدین ملت نے نظریاتی دور بنا دیا ہے۔ہر قائد،بلکہ ہر فارغ التحصیل کوئی نظریہ بناتا ہے اور چاہتا ہے کہ سب لوگ اس نظریہ کو قبول کریں،خواہ وہ نظریہ صحیح ہو یا غلط ہو۔
نیز ہر فارغ التحصیل یہ سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں۔یہی نظریہ زہر قاتل ہے۔
(5)قائدین ملت کی اس فکر کو کیسے ختم کیا جائے،اس کی کوئی موثر تدبیر میرے ذہن میں نہیں۔ہاں،دین اسلام کے خدام سے گزارش ہے کہ امت مسلمہ کو عشق نبوی کا جام پلائیں۔یہ گزارش فارغین مدارس یا قائدین ملت سے نہیں ہے،بلکہ قائدین وغیر قائدین میں ان نفوس قدسیہ سے ہے جو دین اسلام کے مخلص خدمت گزاران ہیں،وہی اس خدمت کو انجام دینے کے اہل ہیں۔
(6)میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ شیطان لعین اور نفس امارہ سے مقابلہ تو بہت مشکل ہے،لہذا موقع بہ موقع اللہ ورسول(عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)سے مدد کا طلب گار ہوتا ہوں۔ایسا نہیں کہ صرف مستجاب الدعوات اولیائے کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی دعا قبول ہوتی ہے،بلکہ گنہ گار مسلمانوں کی دعا بھی فضل خداوندی کے سبب قبول ہو جاتی ہے اور بعض دعا قبول نہیں بھی ہوتی ہے،کیوں کہ شرط قبولیت مفقود ہوتی ہے یا اور بھی کوئی وجہ ہو۔
(7)میں اپنی اصلاح کا طریق کار بتا دیتا ہوں۔اگر ایک مومن کو بھی فائدہ ہو گیا تو طریق کار بتانا کامیاب ہو گیا۔غور سے پڑھیں۔
میں کوئی صاحب نظریہ انسان نہیں۔میرا عقیدہ و نظریہ وہی ہے جو حضور اقدس حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثنا دربار خداوندی سے لا کر ہمیں عطا فر مائے۔
یہ ممکن ہے کہ کبھی ہمارے سمجھنے میں غلطی ہو جائے اور چوں کہ میں خاموش انسان نہیں،بلکہ ایک محرر ہوں۔ہزاروں مضامین تحریر کر چکا۔تقریبا دو سو کتب ورسائل رقم کر کے امت مسلمہ کے سپرد کر چکا۔یہ زندگی بھر کی تحریریں نہیں،بلکہ اکثر تحریریں سال 2021 سے آج تک کی ہیں۔ماقبل کی تحریریں مسودات کی شکل میں محفوظ ہیں۔اگر بفضل خداوندی وباحسان مصطفوی موجودہ برق رفتاری جاری رہی تو شاید دس بارہ سال بعد روئے زمین پر میری طرح کثیر التحریر آدمی ملنا مشکل ہو جائے،ان سب کے باوجود میں یہی کہتا ہوں کہ میری تحریر و تقریر میں جو بات بھی تعلیمات نبویہ کے خلاف ہے،وہ کالعدم اور باطل ہے۔ہم نے اس غلط بات سے توبہ ورجوع کیا۔ہمارا کوئی نظریہ نہیں۔جو تعلیمات نبویہ ہیں،وہی میرا عقیدہ و نظریہ ہے اور میں قائد ملت نہیں،بلکہ غلام رسول امت ہوں۔
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم کسی عالم دین کے طریقے پر چلو تو ہم نے بریلی کے عالم اہل سنت کو اپنا مقتدا وپیشوا بنا لیا ہے،کیوں کہ مجھے طرز نبوی دیکھ کر ظن غالب قریب الیقین حاصل ہو چکا ہے کہ حضور اقدس علیہ التحیۃ والثنا نے ان کی خوب دستگیری فرمائی ہے اور پھر یہ حضرت یعنی اعلی حضرت جن کے متبع تھے،میں بھی ان کا متبع ہوں۔لیکن یہ بات اتباع تک محدود ہے۔جیسے بریلی کے عالم اہل سنت عشق نبوی کی تصویر مجسم تھے،میں اسی طریق کار کو پسند کرتا ہوں اور قائدین ملت کو بھی سوئے طیبہ چلنے کی دعوت دیتا ہوں اور یہی مسلک اعلی حضرت ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:13:ستمبر 2025
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں