چشم وگوش وزارت پہ لاکھوں سلام۔۔۔۔۔🌹
💥امام أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهانی علیہ الرحمہ 430ھ
"حلية الأولياء وطبقات الأصفياء" میں آپ (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ )کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:-
أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، السَّابِقُ إِلَى التَّصْدِيقِ ، الْمُلَقَّبُ بِالْعَتِيقِ ، الْمُؤَيَّدُ مِنَ اللَّهِ بِالتَّوْفِيقِ ، صَاحِبُ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي الْحَضَرِ وَالْأَسْفَارِ ، وَرَفِيقُهُ الشَّفِيقُ فِي جَمِيعِ الْأَطْوَارِ ، وَضَجِيعُهُ بَعْدَ الْمَوْتِ فِي الرَّوْضَةِ الْمَحْفُوفَةِ بِالْأَنْوَارِ ، الْمَخْصُوصُ فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ بِمَفْخَرٍ فَاقَ بِهِ كَافَّةَ الْأَخْيَارِ ، وَعَامَّةَ الْأَبْرَارِ ، وَبَقِيَ لَهُ شَرَفُهُ عَلَى كُرُورِ الْأَعْصَارِ ، وَلَمْ يَسْمُ إِلَى ذُرْوَتِهِ هِمَمُ أُولِي الْأَيْدِ وَالْأَبْصَارِ ، حَيْثُ يَقُولُ عَالِمُ الْأَسْرَارِ : ( ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ ) إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالْآثَارِ ، وَمَشْهُورِ النُّصُوصِ الْوَارِدَةِ فِيهِ وَالْأَخْبَارِ ، الَّتِي غَدَتْ كَالشَّمْسِ فِي الِانْتِشَارِ ، وَفَضَلَ كُلَّ مَنْ فَاضَلَ ، وَفَاقَ كُلَّ مَنْ جَادَلَ وَنَاضَلَ ، وَنَزَلَ فِيهِ : ( لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ) ، تَوَحَّدَ الصِّدِّيقُ فِي الْأَحْوَالِ بِالتَّحْقِيقِ ، وَاخْتَارَ الِاخْتِيَارَ مِنَ اللَّهِ حِينَ دَعَاهُ إِلَى الطَّرِيقِ ، فَتَجَرَّدَ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَعْرَاضِ ، وَانْتَصَبَ فِي قِيَامِ التَّوْحِيدِ لِلتَّهَدُّفِ وَالْأَغْرَاضِ ، صَارَ لِلْمِحَنِ هَدَفًا ، وَلِلْبَلَاءِ غَرَضًا ، وَزَهِدَ فِيمَا عَزَّ لَهُ جَوْهَرًا كَانَ أَوْ عَرَضًا ، تَفَرَّدَ بِالْحَقِّ عَنِ الِالْتِفَاتِ إِلَى الْخَلْقِ ، وَقَدْ قِيلَ : إِنَّ التَّصَوُّفَ الِاعْتِصَامُ بِالْحَقَائِقِ ، عِنْدَ اخْتِلَافِ الطَّرَائِقِ .
ترجمہ :-
امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رسالت کی تصدیق
بارگاہِ رِسالت عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عتیق کا لقب پایا ۔ توفیق الٰہی کی تائید انہیں حاصل رہی ، سفر و حضر میں حضور نبی ٔ پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے رفیق ، زندگی کے ہر موڑ پر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مخلص دوست اوربعدِ وصال بھی روضۂ انور میں ( آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ) ساتھ آرام فرمارہے ہیں،
اللہ عَزَّوَجَلَّنے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا قرآن مجید میں فخر کے ساتھ ذکرفرمایا جس کی وجہ سے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ تمام چنے ہوئے لوگوں سے بڑھ گئے اور رہتی دنیا تک آپ کی بزرگی وشرف باقی رہے گا، کوئی صاحبِ طاقت وبصارت آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بلند رتبہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا : ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ ( پ۱۰، التوبہ : ۴۰ )
ترجمۂ کنزالایمان : صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے ۔
اس کے علاوہ بہت سی آیات و احادیث آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی شان میں وارد ہوئی ہیں جن میں روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہر صاحبِ فضل سے زیادہ فضیلت والے اورہرمقابل سے بر تری لے جانے والے ہیں ۔ نیزیہ آیات مبارَکہ بھی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔ چنانچہ،
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشادفرمایا :
لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ( پ۲۷، الحدید : ۱۰ )
ترجمۂ کنزالایمان: تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ۔
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناصدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے تمام حالات میں اپنی انفرادیت قائم رکھی اور جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کوحضور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسلام کی دعوت دی تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فوراً اِسے قبول کر لیا اور مال و عزت حتی کہ ہر چیز راہِ خدا میں قربان کر دی ۔
توحیدِ الٰہی کو قائم کرناہی آپ کا مقصدو مدعا تھااسی بنا پر پریشانیوں اورمصیبتوں کا نشانہ بنے اور اسلام کی خاطر ہر چیز ترک کر دی اور مخلوق سے منہ موڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ اختیار کی ۔
"منقول بھی یہی ہے کہ راستوں کے اختلاف کے وقت حقائق کو تھامے رکھنا ہی تصوُّف ہے" ۔
•[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء ج.1 ص.28-29-دار الفکر]
•[اللہ تعالی والوں کی باتیں ج.1 ص. 83-84]
⚡️آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا نام اور آپ کی کنیت۔۔۔۔۔۔۔۔
واضح رہے کہ آپ اپنے نام سے نہیں بلکہ کنیت سے مشہور ہیں ، نیز آپ کی اس کنیت کی اتنی شہرت ہے کہ عوام الناس اسے آپ کااصل نام سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کا نام عبد اللہ ہے۔
ابوبکر کنیت کی وجوہات.........
(۱)عربی زبان میں ’’اَلْبَکْر‘‘جوان اونٹ کو کہتے ہیں ، اس کی جمع ’’اَبْکُر‘‘ اور ’’بِکَار‘‘ ہے،
جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جس کا قبیلہ بہت بڑا ہوتا یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘کہتے تھے،
چونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا قبیلہ بھی بہت بڑاتھا اور بہت مالدار بھی تھےنیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لیے آپ بھی’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔
(۲)عربی زبان میں اَبُو کا معنی ہے’’والا‘‘اور’’بَکْر‘‘کے معنی ’’اوّلیت‘‘ کے ہیں ، تو ابوبکر کے معنی ہوئے ’’اوّلیت والا‘‘چونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، ہجرت کرنے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد وصال، قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ ہرمعاملے میں اوّلیت رکھتے ہیں اس لیےسیرت
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو ابوبکر (یعنی اوّلیت والا)کہاگیا۔
•(مرآۃ المناجیح، ج۸، ص۳۴۷)
(۳)کُنِیَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِہِ الْخِصَالِ الْحَمِیْدَۃِ یعنی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی کنیت ابوبکر اس لیے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے۔‘‘
•(سیرت حلبیہ ج.1 ص. 390)
•[فیضان صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ص. 20-21]
💫22 جمادی الآخر یوم وصال
اصدق الصادقین ، سید المتقین ، افضل البشر بعد الانبیاء بالتحتیق ، یار غار و یار مزار مصطفی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے
خوب خوب ایصال ثواب کا اہتمام کریں_
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں