شرعی معلومات نہ ہونے اور نہ لینے کے نقصانات
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 نہ جاننے والے کو جاننے والے سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کیونکہ ناواقف کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ وہ واقف سے دریافت کرے اور جہالت کے مرض کا علاج بھی یہی ہے کہ عالم سے سوال کرے اور اس کے حکم پر عمل کرے اور جو اپنے اس مرض کا علاج نہیں کرتا وہ دنیا و آخرت میں بہت نقصان اٹھاتا ہے۔
چند نقصانات ملاحظہ ہوں
*(1)* ایمان ایک ایسی اہم ترین چیز ہے جس پر بندے کی اُخروی نجات کا دارومدار ہے اور ایمان صحیح ہونے کے لئے عقائد کا درست ہونا ضروری ہے، لہٰذا صحیح اسلامی عقائد سے متعلق معلومات ہونا لازمی ہے۔
اب جسے اُن عقائد کی معلومات نہیں جن پر بندے کا ایمان درست ہونے کا مدار ہے تو وہ اپنے گمان میں یہ سمجھ رہا ہو گا کہ میرا ایمان صحیح ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے اور اگر حقیقت بر عکس ہوئی اور حالت ِکفر میں مر گیا تو آخرت میں ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑے گا اور اس کے انتہائی دردناک عذابات سہنے ہوں گے۔
*(2)* فرض و واجب اور دیگر عبادات کو شرعی طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے،اس لئے ان کے شرعی طریقے کی معلومات ہونا بھی ضروری ہے۔ اب جسے عبادات کے شرعی طریقے اوراس سے متعلق دیگر ضروری چیزوں کی معلومات نہیں ہوتیں اور نہ وہ کسی عالم سے معلومات حاصل کرتا ہے تو مشقت اٹھانے کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جیسے نماز کے درست اور قابلِ قبول ہونے کے لئے ’’طہارت‘‘ ایک بنیادی شرط ہے اور جس کی طہارت درست نہ ہو تووہ اگرچہ برسوں تک تہجد کی نما زپڑھتا رہے، پابندی کے ساتھ پانچوں نمازیں
باجماعت ادا کرتا رہے اور ساری ساری رات نوافل پڑھنے میں مصروف رہے، اس کی یہ تمام عبادات رائیگاں جائیں گی اور وہ ان کے ثواب سے محروم رہے گا۔
*(3)* کاروباری، معاشرتی اور ازدواجی زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کے لئے شریعت نے کچھ اصول اور قوانین مقرر کئے ہیں اور انہی اصولوں پر اُن معاملات کے حلال یا حرام ہونے کا مدار ہے اور جسے ان اصول و قوانین کی معلومات نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے تو حلال کی بجائے حرام میں مبتلا ہونے کا چانس زیادہ ہے اور حرام میں مبتلا ہونا خود کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حقدار ٹھہرانا ہے۔
سرِ دست یہ تین بنیادی اور بڑے نقصانات عرض کئے ہیں ورنہ شرعی معلومات نہ لینے کے نقصانات کی ایک طویل فہرست ہے جسے یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو عقائد، عبادات ،معاملات اور زندگی کے ہر شعبے میں شرعی معلومات حاصل کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
*سوال کرناعلم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:*
سوال کرنا علم حاصل ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’علم خزانے ہیں اور ان خزانوں کی چابی سوال کرنا ہے تو تم سوال کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، کیونکہ سوال کرنے کی صورت میں چار لوگوں کو اجر دیاجاتا ہے۔
(1) سوال کرنے والے کو۔
(2) سکھانے والے کو۔
(3) سننے والے کو۔
(4) ان سے محبت رکھنے والے کو۔
*( الفقیہ والمتفقہ، باب فی السؤال والجواب وما یتعلّق بہما۔۔۔ الخ، ۲ / ۶۱، الحدیث: ۶۹۳)*
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اچھا سوال کرنا نصف علم ہے۔
*( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۷۴۴)*
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں در پیش معاملات کے بارے میں اہلِ علم سے سوال کرنے اور اس کے ذریعے دین کے شرعی اَحکام کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وسلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں