العارض عرفان رضانوری پلاموں جھارکھنڈ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت معروضہ میں بکر کا" اگلاجنم میں ہوگا" کہنا ضلالت و گمراہی ہے، اور اسکا عقیدہ رکھنا کفر ہے، اگلا جنم، آواگون، تناسخ،یہ سب مترادف الفاظ ہیں، جیسا کہ لغات وغیرہ سے ظاہر ہے: اگلاجنم : ہندوؤں کے عقیدے میں اگلی پیدائش، فیروز اللغات،جديد، ص 110،آواگون : آنا، جانا، آمد و رفت، ہندوؤں کے اعتقاد کے مطابق باربار مرنے اور جنم لینے کا سلسلہ، تناسخ،ایضاً صفحہ 64، تناسخ: ایک صورت سے دوسری صورت اختیار کرنا، روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں جانا، ایضاً صفحہ 382، اور ایڈوانس اردو لغت، ایپ میں ہے: آواگون، ہندوؤں کا عقیدہ کہ مرنے کے بعد رُوح پھر دوسرے جسم میں اپنے کرموں کے بموجب جاتی ہے۔ اگر اچھے کام کئے ہیں تو انسان کے جون میں۔ اگر بُرے کام تو اپنے سے کم ذات یا جانوروں کے جون میں۔ یہاں تک کہ آخر پاک صاف ہو کر مکتی یا نجات ہوجاتی ہے۔ یعنی رُوح جونوں سے چُھٹ کر رُوح خداوندی کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے،
اور صدرُ الشَّریعہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ الرحمہ فرماتے ہیں:یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کوتَناسُخ اور آواگون کہتے ہیں۔ محض باطِل اور اُسکا ماننا کُفر ہے،(بہار شریعت ج1 صفحہ 103، مکتبۃ المدینہ)،
اسی طرح کے ایک استفتاء کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : اس قول سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص تناسخ یعنی آواگون کا قائل ہے، کیوں کہ وہ کہتا ہے کہ اپنے اعمال کے مطابق باردیگر پیدا ہونا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر اعمال اچھے ہوں تو اس کی روح اچھے جسم میں جنم لیتی ہے، اور برے اعمال ہوں تو جانور وغیرہ کے جسم میں جنم ہوتا ہے اور تناسخ کا قول باطل محض ہے ،مسلمان تو مسلمان کسی اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے نزدیک بھی درست نہیں،(اورآخر میں فرماتے ہیں) بالجملہ یہ قول ضلالت و گمراہی ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو گمراہی سے بچائے(فتاوی امجدیہ ج 4 ص 444)،.
هذا ما ظهرلي والعلم عند الله
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
٢٠/شعبان المعظم ١٤٤١ھ مطابق ١٥ اپریل ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں