المستفتی اشفاق رضا منظر کولکاتا بنگال،.
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مستفسرہ میں جہاں تک نماز فرض کے بعد اجتماعی دعا کا تعلق ہے تو یہ عمل کتاب و سنت سے ثابت ہے، قرآن پاک نے کسی مقام پر بھی دعا کے لیے کوئی وقت متعین نہیں فرمایا، بلکہ بار بار دعا کی تاکید فرمائی اور ترغیب دلائی اور دعا سے انحراف کرنے والوں کو دوزخ کی وعید سنائی،
ارشاد باری ہے: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ(پارہ٢٤ سورہ مؤمن آیت ٥٩) اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بے شک جو لوگ میری عبادت سےتکبر کرتے ہیں جلد ہی جہنم میں داخل ہونگے،
أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ(پارہ ٢ سورہ بقرہ آیت ١٨٦)میں دعا مانگنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں، جب بھی وہ دعا مانگے،
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً(پارہ ٨ سورہ أعراف آیت ٥٤)اپنے رب سے عاجزی اور آہستگی کے ساتھ دعا مانگو، ان آیات مقدسہ میں مطلق دعا کا حکم موجود ہے، إِذَا دَعَانِ، میں عموم پایا جاتا ہے، یعنی کوئی جب بھی دعا مانگے، اب اگر کوئی معترض اس عموم سے نماز فرض کے بعد اجتماعی دعا کو خارج کرنا چاہتا ہے تو دلیل قطعی پیش کرے ورنہ خدائے تعالیٰ کا خوف کرے، منکرینِ دعا کے پاس کونسی دلیل قطعی ہے ،جس کی رو سے وہ دعا کے عموم سے مذکورہ اجتماعی دعا کو خارج کریں گے، هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ،کیا کوئی ایسی آیت دکھائی جاسکتی ہے جس میں ارشاد باری ہو " میں دعا مانگنے والوں کی دعا سنتا ہوں مگر نماز فرض کے بعد اجتماعی دعا کو نہیں سنتا" یا "اپنے رب سے دعا مانگو لیکن نماز فرض کے بعد اجتماعی دعا نہ مانگو، آخر یہ لوگ خدائے تعالیٰ کی بارگاہ سے اس کے بندوں کو جدا کرنے والے کون ہیں، پھر یاد رہے کہ دعا کو عبادت بلکہ مغز عبادت کہا گیا ہے، حدیث پاک میں میں : الدعاء هو العبادة،یعنی دعا عبادت ہے (کنزالعمال ج ١ ص ١٦٧)اور فرمایا : الدعاء مخ العبادة،دعا عبادت کا مغز ہے (جامع ترمذی ج٢ ص ١٧٣) اور فرمایا : أشرف العبادة الدعاء ، أفضل العبادة الدعاء، بہترین عبادت دعا ہے، (کنزالعمال ج ١ ص ١٤٧) ان احادیث نبویہ سے معلوم ہوا کہ دعا بہترین عبادت ہے، اور جو آدمی اللہ تعالیٰ کی بہترین عبادت سے انحراف کرتا ہے وہ یقیناً جہنم کا مستحق ہے، اور نتیجہ زبان نبوت سے ملاحظہ کیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدعاء هو العبادة ثم قرأ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ هذا حديث حسن صحیح، یعنی دعا عبادت ہے پھر آپ نے (یہ آیت) تلاوت فرمائی اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں جلد ہی جہنم میں داخل ہونگے، (ترمذی ج٢ ص ١٧٣) اس حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کو عبادت کا درجہ دے کر اس سے تکبر کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنا رہے ہیں،. یاد رہے کہ أدعوا میں اجتماعی دعا کا حکم ہے،یعنی تم سب کے سب مسلمان دعا مانگو، میں تم سب کی دعا قبول کروں گا،اب رہ گیا " نماز فرض کے بعد اجتماعی دعا" کا عمل تو اس سے کسی دلیل قطعی نے منع نہیں کیا، لہذا اصول فقہ کے مطابق بلکہ فرمان مصطفیٰ کے مطابق جائز ہے، ترمذی شریف کی حدیث ہے:الْحَلاَلُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ،(كتاب اللباس، باب مَا جَاءَ فِي لُبْسِ الْفِرَاءِ)کہ حلال وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، منکرینِ دعا مذکورہ اجتماعی دعا کو بدعت قبیحہ کا درجہ دے کر گویا اس کو حرام قرار دے رہے ہیں، لہذا اس خود ساختہ شریعت کا وبال ان کی ہی گردن پر ہوگا،
اور احادیث صحیحہ میں دعا مانگنے کا جو مسنون طریقہ بیان کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے مہربان رب کی بارگاہ میں اٹھا کر دعا مانگی جائے اور آخر میں اپنے چہرہ پر پھیر لے، حضور صل اللہ علیہ وسلم سے یہی طریقہ مبارکہ تواتر سے ثابت ہے، حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے سے حیا فرماتا ہے کہ وہ اس کی طرف ہاتھ اٹھائے اور وہ ان کو خالی موڑ دے، یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے(مستدرک ج ١ ص ٥٣٥) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم جب دعا میں اپنے ہاتھ دراز کرتے تو واپس پھیرنے سے پہلے انہیں اپنے چہرہ اقدس پر پھیر لیتے(ایضاً ص ٥٣٦) اور محدثین کرام نے دعا میں ہاتھ اٹھانے کے باب باندھے ہیں، مثلاً بخاری شریف میں ہے:بَابُ رَفْعِ الأَيْدِي فِي الدُّعَاءِ، جب دعا کا بنیادی ادب یہ ہے کہ دعا ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے تو ماننا پڑے گا کہ دعا انفرادی ہو یا اجتماعی ہو، نماز سے پہلے ہو یا نماز کے بعد ہو، بہتر اور مسنون عمل یہی ہے کہ ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے، اور یہی احادیث سے ثابت بھی ہے، اور جہاں تک انفرادی طور پر یا نفلی نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا تعلق ہے تو اس کو نماز فرض کے بعد اجتماعی دعا کے منکر بھی تسلیم کرتے ہیں، انہیں صرف فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت نظر آتی ہے، ہم نے دعا کے عمومی دلائل بیان کر کے، یہ سوال کرتے ہیں کہ ان عمومی دلائل کی روشنی میں مذکورہ اجتماعی دعا کو کس دلیل نے خارج کیا ہے، اگر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ ہرگز نہیں تو پھر اجتماعی دعا بھی جائز ہے،
اور منکرین کے دعوے کا یہاں تک تعلق ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے نماز فرض کے بعد کبھی اجتماعی دعا نہیں کی، تو یہ منکرینِ دعا کا مغالطہ ہے، اور وہ اپنے اس دعویٰ سے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں، اور ایک فعل مسنون سے روکنا چاہتے ہیں، ایسی بہت سی احادیث موجود ہیں جن میں ہر نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا مانگنے کا ذکر ہے، کیا ہر نماز سے فرض نماز ، باجماعت نماز،خارج ہے،
دیکھیے قرآن پاک کا ارشاد ہے: فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب یعنی جب تو فراغت پائے تو مشقت کر اور اپنے رب کی طرف راغب ہو"اھ ( پ 30 سورہ الم نشرح )
اور تفسیر جلالین شریف میں ہے کہ " فاذا فرغت من الصلوة فانصب اتعب فى الدعا والى ربك فارغب تضرع " اھ یعنی جب تو نماز سے فارغ ہو تو دعا میں تعب و مشقت کر اور اپنے رب کے سامنے تضرع و زاری بجالا " اھ ( تفسیر جلالین شریف ص 596 )، اور اس آیت کی شرح میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے، فإذا فرغت من الصلوة فانصب في الدعا، یعنی جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو دعا میں مشغول ہوجاؤ (تفسیر ابن جریر) اور علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے بھی یہی تفسیر بیان کی ہے، اور تفسیر مظہری میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت قتادہ جیسے مشہور مفسرین نے فرمایا ہے: فإذا فرغت من الصلوة المكتوبة، یعنی جب تم فرض نماز سے فارغ ہوجاؤ تو دعا مانگو،
دیکھیے احادیث مبارکہ:
مسلم شریف میں موجود ہے، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہر نماز میں سلام پھیرنے کے بعد فرماتے تھے: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شيء قَدِيرٌ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَلاَ نَعْبُدُ إِلاَّ إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ،.اور انہوں نے فرمایا:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلاَةٍ. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے،
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا قَضَى الصَّلاَةَ:(لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شيء قَدِيرٌ اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ جب بھی کسی نماز سے فارغ ہوتے یہ (مذکورہ دعا) پڑھتے،
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونسی دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے فرمایا:جَوْفُ اللَّيْلِ الآخِرُ وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ،یعنی آدھی رات اور فرض نماز کے بعد(ترمذی شریف) اس کی سند حسن ہے،
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین بار استغفار کرتے اور دعا فرماتے:اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ(مسلم کتاب المساجد)،
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف:اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ،پڑھنے کی مقدار تک بیٹھتے تھے،
حضرت مسلم بن ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ہر نماز کے بعد دعا کرتے:اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ، میں بھی یہ دعا پڑھنے لگا ،میرے والد نے فرمایا بیٹا، یہ دعا کہاں سے حاصل کی، میں نے کہا آپ سے، انہوں نے فرمایا:إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُهُنَّ فِي دُبُرِ الصَّلاَةِ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دعا فرمایا کرتے تھے، (سنن نسائی)
حضرت سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ان کلمات سے دعا مانگتے تھے:اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ،(ترمذی شریف)،
حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد دعا کرتے:اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ أَنَا شَهِيدٌ أَنَّكَ أَنْتَ الرَّبُّ وَحْدَكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ اجْعَلْنِي مُخْلِصًا لَكَ وَأَهْلِي فِي كُلِّ سَاعَةٍ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ اسْمَعْ وَاسْتَجِبِ اللَّهُ أَكْبَرُ الأَكْبَرُ اللَّهُمَّ نُورَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ،(ابوداؤد شریف)،
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ قَالَ:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز سے سلام پھیرتے تو یہ دعا فرماتے(ابوداؤد شریف)،
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:يَا مُعَاذُ وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ فَقَالَ:أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لاَ تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ تَقُولُ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ، ایے معاذ اللہ کی قسم مجھے تم سے محبت ہے، میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد اس دعا کو ہرگز نہ چھوڑنا"مذکورہ دعا" (ابوداؤد شریف)،
ان تمام احادیث مبارکہ میں حضور صل اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرمان سے ثابت ہوا، کہ ہرنماز کے بعد دعا کرنا مسنون ہے، کئی مقامات پر في دبر كل صلاة یعنی ہر نماز کے بعد کے الفاظ موجود ہیں، کئی مقامات پر صلاة مكتوبة یعنی فرض نماز کے بعد کے الفاظ موجود ہیں، ہمیں افسوس ہے ان اہل حدیث بلکہ" اہل حدث" پر اتنی واضح احادیث کی موجودگی میں بھی یہ رٹ لگا رہے ہیں کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا ثابت نہیں، ہم پوچھتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہر نماز، جماعت اور اجتماع کے بغیر ہوا کرتی تھی، جب وہ لوگ ہر نماز کے بعد دعا کیا کرتے تھے، تو ہر نماز میں فرض نماز کی جماعت کے بعد اور نفل نماز کے بعد کی اجتماعی دعا اور انفرادی دعا ثابت ہوگئی، کیا کوئی آدمی تصور کرسکتا ہے کہ فرض نماز ختم ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دعا میں مصروف ہو جاتے تھے اور صحابہ کرام اٹھ کر چلے جاتے تھے، یہ کام ان اہل حدیث سے تو متوقع ہے، مگر دیدار مصطفیٰ کے پروانوں سے متوقع نہیں،
اور ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں واضح طور پر، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ، ہے یعنی فرض نمازوں کے بعد دعا کی مقبولیت کا ذکر ہے، ظاہر ہے فرض نمازوں کی جماعت ہوا کرتی تھی اور جماعت کے بعد جو دعا مانگی جاتی تھی وہ اجتماعی ہوا کرتی تھی، نہ کہ انفرادی،
منکرینِ دعا کو اس لیے وہم گیا ہے کہ شاید حدیث میں اجتماعی دعا کا لفظ نہیں، ہم پوچھتے ہیں، کیا حدیث میں انفرادی دعا کا لفظ ہے، اجتماعی دعا کے لفظ کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہر صاحب عقل جان سکتا ہے کہ اجتماعی نماز کے بعد دعا بھی اجتماعی ہوتی ہے،
منکرینِ دعا کا ایک اشکال یہ بھی ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم فرض نماز کے بعد جلدی اٹھ جایا کرتے تھے، لہذا اجتماعی دعا کا تصور ہی ناپید ہوجاتا ہے، حالانکہ یہ جلدی اٹھ جانا یا صرف اللهم أنت السلام کے الفاظ کی مقدار کے برابر بیٹھنے کے بعد اٹھ جانا دوام و استمرار پر محمول نہیں،حضور صل اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی سہولت کے پیش نظر نہ کسی دعا کو معین فرمایا اور نہ کسی مقدار کو متعین فرمایا، بعض روایات میں جو جلدی اٹھنے یا تھوڑی مقدار کے برابر بیٹھنے کے بعد اٹھنے کا ذکر ہے، تو بعض روایات میں فرض نماز کے بعد طویل دعا کا ذکر بھی ہے،
جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے بعد معوذتین پڑھنے کا حکم دیا(سنن نسائی)اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں طویل دعا مذکور ہے، اور مسلم شریف، کتاب المساجد میں ہر فرض نماز کے بعد ٣٣مرتبہ سبحان الله اور ٣٣مرتبہ الحمد لله اور ٣٤مرتبہ الله أكبر(دُبُرَ كُلِّ صَلاَةٍ مَكْتُوبَةٍ ثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ تَسْبِيحَةً وَثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ تَحْمِيدَةً وَأَرْبَعٌ وَثَلاَثُونَ تَكْبِيرَةً) پڑھنے کا ذکر ہے، لہذا فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا اور طویل ذکر کا انکار درست نہیں،
مزید اور دیکھیے: اجتماعی دعا کا واضح ثبوت حدیث سے،
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رفع قوم أكفهم إلي الله عزوجل يسئلونه شيأ إلا كان حقا علي الله أن يضع في أيديهم ألذي يسئلوه، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جب کوئی قوم اللہ عزوجل کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعا کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ جو مانگ رہے ہیں وہ ان کے ہاتھوں میں دے یعنی انہیں عطا کرے، (أخرجه الطبراني في الكبير جلد ٦صفحہ ٢٥٤١)،اس حدیث میں قوم کی دعا کا ذکر ہے اور قوم کی دعا اجتماعی دعا ہے نہ کہ انفرادی،.
عن حبيب بن مسلمة الفهري قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا يَجْتَمِعُ مَلأٌ فَيَدْعُو بَعْضُهُمْ وَيُؤَمِّنُ سَائِرُهُمْ إِلا أَجَابَهُمُ اللَّهُ، حبيت بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا انہوں نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کچھ لوگ جہاں کہیں جمع ہوں ان میں ایک آدمی دعا کرے دیگر تمام لوگ آمین، آمین کہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرما لیتا ہے،(ایضاً جلد٤ ص ٢١)،.
یہ دونوں حدیث اجتماعی دعا میں نص یے واضح اور بالکل مبرہن ہے،
بحمدالله تعالي نمازپنجگانہ جماعت کے بعد اجتماعی دعا کا عمل کتاب و سنت سے ثابت ہوگیا،.
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
العبد المعتصم بحبله المتين محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
١٦/شعبان المعظم ١٤٤١ھ مطابق ١١ اپریل ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں