🌹•┈┈❍﷽❍┈┈•🌹
بروز اتوار ۵ اپریل سن ۲۰۲۰عیسوی ۹ بجے سے ۹ منٹ تک دیا چراغ موم بتی ٹارچ وغیرہ جلانے کے متعلق حکم شرعی
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
_*********************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
5 اپریل کوجو رات 9 بجے 9 منٹ تک موم بتّی یادیاوغیرہ جلانے کیلئے کہا گیا جس میں کافی مسلمان بھی شریک ہوئے تو جو مسلمان شریک ہوئے انکے بارے میں حکم شرع کیا ہے
💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢نورالحسن اشرفی بریلی شریف
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
اس کے متعلق تین صورتیں ہیں
(1) پہلی صورت میں کفر
(2)دوسری صورت میں فضول خرچی
(3)تیسری صورت میں بچنا بہتر ہے
👈پہلی صورت میں کفر ہے
اگر مسلمانوں نے بروز اتوار ۵ اپریل سن ۲۰۲۰ عیسوی رات ۹ بجے سے ۹ منٹ تک موم بتی چراغ دیا ٹارچ وغیرہ جلایا یہ سمجھ کر کہ یہ کفار کا ایک تہوار ہے تو عند الشرع کفر ہے کیونکہ نو راتری ہندومت کا ایک مشہور تہوار ہے، نو راتری کا مطلب ہے نو دن ان نو راتوں اور دس دنوں کے درمیان طاقت کی دیوی (مہا لکشمی، سرسوتی، درگا) کے نو روپو کی پوجا کی جاتی ہے، دسوا دن دشہرہ کے نام سے مشہور ہے،
نو راتری سال میں چار بار آتی ہے. یعنی چار مہینوں میں ۱- پوس ۲- چیتر، ۳- آساڑھ ۴- اشون
دوسرے مہینے یعنی چیتر میں ہندؤون کے فرضی دیوتا "رام" کی پیدائش (رام نومی) ہوئی ہے،*
چیتر کا پہلا دن ۲۵ مارچ سے شروع ہوگیا تھا، اس حساب سے ۹ واں دن ۲ اپریل کو تھا. اس دن رام نومی منائی جانی تھی، جو کہ کورونا کے ڈر کی وجہ سے دھوم دھام سے نہیں منائی گئی، لہذا ہندو احیا پرستون کو اس بات سے تکلیف ہوئی اور انہوں نے اس کا توڑ نکال کر اس غلطی کی اصلاح کرلی ہے، لہذا مودی نے ۵ تاریخ کی رات نو بجے نو منٹ تک دیا جلانے کا مشورہ/حکم دیا ہے!
*اب نو منٹ دیا جلانے کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے دھرم میں نو کی گنتی کی بڑی اہمیت ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ نو دنوں میں طاقت کی دیوی کے نو روپوں کی پوجا ہوتی ہے وہیں ان کا فرضی بھگوان بھی نویں دن پیدا ہوا تھا، اس حساب سے یہ نو منٹ بھی ان کے دھرم کا حصہ ہے،*
ہر مہینے مین دو ترتیب ہوتی ہے ۱۵ دن شُکل کی ترتیب اور ۱۵ دن کرشن آسٹمی کے. پہلی ترتیب یعنی شکل میں ۱۱ تاریخ کو ورت رکھنے سے ہندو مت کے سب سے بڑے گناہ (براہمن کے قتل) کی معافی مل جاتی ہے.
*اس حساب سے رام نومی کا دھوم دھام سے نہ منایا جانا بھی ایک گناہ ہے جس کے لئے انہوں نے ۴ اپریل کو ورت رکھا تھا
رام نومی منانے کے متعلق فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص رام نومی کے جھنڈے تلے ناچے تو اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے تو اس کے متعلق مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس نے کفر کیا
📗✒فتاوی شارح بخاری ج 2ص 562 کتاب العقائد باب الفاظ الکفر
مذکورہ بالا حوالہ سے معلوم ہوا کہ اگر واقعی میں مسلمانوں نے اس طور پر دیا وغیرہ کو جلایا ہے تو وہ سب اس فعل کی وجہ سے کافر ہوگئے لہذا ان پر ضروری ہےکہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ و استغفار کریں و تجدید ایمان اگر شادی شدہ ہیں تو تجدید نکاح اور اگر کسی سے مرید ہیں تو تجدید بیعت کریں اس طرح کریں تو ٹھیک ورنہ تمام مسلمانوں پر ضروری ہےکہ وہ ان سب کا بائیکاٹ کردیں
(2)دوسری صورت میں ضیاع مال
اگر مسلمانوں نے مومبتی چراغ دیا ٹارچ وغیرہ جلایا اس طور پر کہ جلانے کی وجہ سے کرونا وائرس کے خطرات سے نجات حاصل ہوگی یہ عمل احمقانہ ضیاعِ مال اور یہ غیر سَائنٹیفِک بھی ہے۔
اور ضیاع مال کے متعلق شریعت مطہرہ میں یہ حکم ہے وہ شیطان کے بھائی ہیں
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَالَّذِینَ إِذَا اٴَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا
وہ لوگ کہ خرج کرتے وقت اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں ۔
📗✒(فرقان ۔۴۷)
٭وَلَاتُسْرِفُوا إِنَّہُ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ اسراف نہ کرو کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
📗✒(انعام ۔۱۴۱،اعراف۔۳۱) ۔
٭ ۔۔۔۔۔۔۔ وَاَنَّ الْمُسْرَفِینَ ھُمْ اٴَصْحَابُ النَّارِ
اور یقینا مسرفین اصحاب دوزخ ہیں ۔ 📗✒(مومن ۔۴۳) ۔
٭ ۔۔۔۔۔۔ وَلَاتُطِیعُوا اٴَمْرَ الْمُسْرِفِینَ
اور مسرفین کے حکم کی پیروی کی اطاعت نہ کرو ۔
📗✒(شوراء۔۱۵۱) ۔
٭ ۔۔۔۔۔۔ مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِینَ
مفسرین پر تیرے پروردگا ر کی طرف سے نشان لگا دیئے گئے ہیں ۔
📗✒(ذارعات ۔۳۴)
٭ ۔۔۔۔۔ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الْمُسْرِفِینَ
شک نہیں کہ فرعون روئے زمین پر بڑا بن بیٹاٹھاتھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ مسرفین میں سے تھا ۔
📗✒ (یونس۔۸۳)
٭ ۔۔۔۔۔ إِنَّ اللهَ لَایَھْدِی مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ
یقینا اللہ جھو ٹے مسرف کہ ہدایت نہیں کرتا
📗✒ (مومن ۔۲۸)
٭ ۔۔۔۔۔۔ وَاٴَھْلَکْنَا الْمُسْرِفِینَ
اور ہم نے مفسرین کو ہلاکت کر ڈالا ۔
📗✒(انبیاء ۔۲۸)
لھذا اس طرح کے موہوم و غیر سَائنٹیفِک امور سے پرہیز کیا جائے اور دفعِ ضرر و وبا کے لیے انہیں باتوں پر عمل کیا جائے جن کی اسلامی شریعت نے اجازت دی ہے۔
اس لیےاحتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کثرت کے ساتھ توبہ و استغفار کریں اور غرباء و مساکین کی امداد کریں,جان کاصدقہ نکالیں, تلاوتِ قرآن, درود و سلام اور ذکر و دعا کی کثرت کریں اور گھروں میں دفعِ وباء و حصولِ برکت و رحمت کے لیے بنا مائک کے اذان کہیں اور اس بات کا لحاظ رکھیں کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِذَا اَذَّنَ فِیْ قَرِیَةٍ اٰمَنَھَا اللہُ مِنْ عَذَابِهٖ فِیْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ"جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ
📗✒المعجم الکبیر مرویات انس بن مالك، جلد 1، صفحہ257، حدیث:746، مطبوعہ المکتبة الفیصلیه بیروت
📗✒فتاوی رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور
وبا کے زمانہ میں اذان دینا ایک مستحب امر ہے کہ فقیہِ اجَلّ ، محققِ بےبدل ، صاحب العلم وبالفضل ، امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
”وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے“
📗✒فتاویٰ رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاجور
📗✒بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ سوم، صفحہ 466، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی
کیونکہ اس وبا کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے جسکی وجہ سے عوام بھی پریشان ہے۔ اور گھبراہٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ان حالات میں بھی اذان سکونِ قلب اور خوف و ہراس دور کرنے کا سبب ہے۔
ابونعیم و ابن عساکر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کرتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
نَزَلَ آدَمُ بِالْھِندِ فَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام فَنَادیٰ بِالْاَذَاَنِ یعنی: جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔
📗✒حلیة الاولیاء مرویات عمرو بن قیس الملائی ، جلد 2، صفحہ 107، رقم:299 ، مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت
مسند الفردوس میں حضرت جناب امیرُ المومنین مولٰی المسلمین سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے:قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ یعنی: مولا علی کہتے ہیں مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔
📗✒مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 149، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
حدیث میں ذکر اللہ کی فضیلت:
عن عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنھما عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان لکل شیئ صقالۃ وان صقالۃ القلوب ذکرﷲ وما من شیئ انجا من عذاب ﷲ من ذکرﷲ
ترجمہ : حضرت عبدﷲ ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما کی سند سے حضوراکرم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہے:
ہر شَے کی صفائی کے لئے کوئی نہ کوئی چیزہے اور دلوں کی صفائی ﷲ تعالٰی کے ذکر سے ہوتی ہے کوئی چیز خدا کے عذاب سے نجات کے سلسلے میں ذکرالٰہی سے بڑھ کر مفید نہیں
📗✒*(📕الترغیب والترہیب )*
محققِ جلیل,امام اہل سنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے مصیبت کے وقت روشنی کرنے کے بارے میں ایک سوال کیا گیا کہ برائے دفعِ وَبا اکثر محلوں میں چندچندلوگ ایک ایک جماعت ہوکر راتوں کو مع عَلم ونشان وروشنی وغیرہ نکلتے ہیں اور ہرگلی کوچہ وشارعِ عام میں آوازیں ملاملاکر بآواز بلند۔شعر:
لی خمسۃ اطفی بھا حرالوباء الحاطمہ
المصطفٰی والمرتضٰی وابناھما والفاطمہ
پڑھتے ہیں۔کیا یہ جائز ہے؟
آپ جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
مضمونِ شعرفی نفسہٖ حَسن ہے اور محبوبانِ خدا سے تَوَسُّل محمود۔
اور آگے تحریر فرماتے ہیں:
مگر عَلم ونشان مُہْمَل اور ان سے تَوَسُّل باطل اورہیأت مذکورہ لہو اشبہ
👈(24/مسئلہ نمبر 57)
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
عملیات وتعویذ اسمائے الٰہی وکلام الٰہی سے ضرورجائزہیں جبکہ ان میں کوئی طریقہ خلافِ شرع نہ ہو مثلاً کوئی لفظ غیرمَعلومُ المعنی جیسے حفیظی، رمضان، کعسلہون۔اور دعائے طاعون میں طاسوسا، عاسوسا، ماسوسا، ایسے الفاظ کی اجازت نہیں جب تک حدیث یا آثار یااقوالِ مشائخِ معتمدین سے ثابت نہ ہو👈(24/مسئلہ نمبر 66)
نیز کرونا وائرس سے بچنے کے لیے لیے اطباء و ڈاکٹرز سے مشورہ کر کے مناسب اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔اور حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے جو بھی احتیاطی تدابیر اپنانے کو کہا گیاہےمثلا سمجاجی دوری بنائے رکھنا, بنا کسی ضرورت کے گھر سے نہ نکلنا, حفاظت کے لیےماسک وسینیٹائزر وغیرہ کا استعمال کرنا, صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنا, لوگوں سے زیادہ میل جول سے بچنا وغیرہ ان باتوں پر عمل کیا جائے۔
🕹لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں کوئی وقت خاص نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاءاللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے۔ اور اللہ کریم ﷻ امان نصیب فرمائے گا۔
🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ کرونا وائرس کے خطرات سے بچنے کیلئے اپنے گھروں پر یا گھروں میں دیا چراغ موم بتی ٹارچ وغیرہ جلانا ضیاع مال یعنی فضول خرچی ہے
👈(3)اور رہی تیسری صورت جس میں بچنا بہتر ہے وہ یہ ہے کہ جیسا کہ بروز جمعہ 3/4/2020 کو ہمارے ملک ہندوستان کے پردھان منتری نے اپنے دیش واسیوں سے ایک مرتبہ یہ درخواست کی کہ : 5 اپریل رات 9 بجے 9 منٹ تک اپنے گھر کی تمام لائٹس بند کر کے گھر کے دروازے یا بالکنی میں آکر موم بتی ، دِیا ، اور فون کی لائٹس ، وغیرہ جلائیں ؛ اور وجہ یہ بتلائی کہ : یہ " کورونا وائرس " سے متحدہ طور پر لڑنے کی طاقت کا ایک اظہار ہے لہذا اگر مسلمانوں نے اس وجہ سے اس فعل کو انجام دیا ہے تو ان پر عند الشرع کوئی حکم لاگو نہیں ہوگا کیونکہ اگر اس فعل کو نہیں کرتے ہیں تو مسلمان ہندوستان کفار کی نظروں میں آجاتے اور یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بہتر نہیں
فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ سے ایک سوال ہوا کہ غیر مسلم مسلمانوں سے دباؤ ڈال کر اپنے مذہب کے لیے چندہ وصول کرتے ہیں۔ چندہ نہ دینے پر تمام طرح کی رکاوٹیں کام کرنے میں مسلمانوں کو دینے لگتے ہیں اور مسلمانوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں ۔ ہم ان کافروں سے سوال کرتے ہیں کہ ہم تو اپنے مذہب کے لیے آپ سے چندہ وصول نہیں کرتے ہم آپ کو
چندہ نہ دیں گے ۔ تو وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ ہم سے چندہ لیں یا نہ لیں ہم آپ سے ضرور چندہ لیں گے۔ آپ بھی اپنے مذہب کے لیے ہم سے چندہ لیجئے ہم دینے کے لیے تیار ہیں ۔ تو ہم غیر مسلموں سے مدرسہ یا مسجد یا کسی اور نیک کےلئے چندہ وصول کر سکتے ہیں؟ مفتی صاحب قبلہ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ان کے شر سے بچنے کی نیت سے بقول حضرت سعدی’’دہن سگ بلقمه دوختہ بہ کچھ دے دیا کریں اور اس کے عوض کی نیت سے ان سے بھی لیں ۔ مال موزی نصیب غازی کی نیت سے
📗✒فتاوی شارح بخاری ج 2ص 576 کتاب العقائد باب الفاظ الکفر
جب ان کے شر سے بچنے کیلئے ان کو چندہ دے سکتے ہیں اور ان سے لے سکتے ہیں تو اس صورت میں بدرجہ اتم ہم دیا ٹارچ موم بتی چراغ وغیرہ جلا سکتے ہیں لیکن اس فعل سے بچنا ہی بہتر ہے
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـ*(بتاریخ ۷/اپریل بروز منگل ۲۰۲۰/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
💡الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی
💡ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ و جامع و تحقیق جواب ہے ماقال المجیب فھو حق واحق ان یتبع الجواب' ھوالجواب واللہ ھو المجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)
💡الجواب صحیح والمجیب نجیح ماشاء اللہ بہت عمدہ مدلل ومفصل جواب ۔اللہ ﷻ اپنےحبیبﷺ کے صدقے علم وعمل میں برکتیں عطافرماۓ ۔آمین العبد محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام بتھریاکلاں ڈومریا گنج سدھارتھنگر یوپی
💡الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط *محمداسماعیل خان امجدی* رضوی دارالعلوم شہیداعظم دولھاپورپہاڑی پوسٹ انٹیاتھوک تھانہ ضلع گونڈہ یوپی الھند
💡*ماشاءاللہ بہت عمدہ*الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محمد الطاف حسین قادری خادم التدریس دارالعلوم غوث الورٰی ڈانگا لکھیم پور کھیری یوپی الھند*
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں