سائل : شاداب رضا ممبئی،
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مسئولہ میں حکم یہ ہے کہ زکوۃ فرض ہونے کے لیے تین قسم کی چیزوں کاہونا ضروری ہے، اعلی حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: زکوۃ صرف تین چیزوں پر ہے، سونا چاندی کیسے ہی ہوں پہننے کے ہوں یا برتنے کے یا رکھنے کے سکہ ہو یا پتر ہو یا ورق، دوسرے چرائی پر چھوٹے جانور، تیسرے تجارت کا مال باقی کسی چیز پر نہیں، (فتاوی رضویہ قدیم ج4 صفحہ 428)،
تو جگہ زمین پر زکوۃ نہیں ہے البتہ اگر تجارت کی غرض سے خریدا گیا ہے تو زکوٰۃ واجب ہے، جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے:مکانات پر زکوۃ نہیں اگرچہ پچاس کروڑ کے ہوں، کرایہ سے جو سال تمام پر پس انداز ہوگا زکوۃ آئے گی اگر خود یا اور مال سے مل کر قدر نصاب ہو( فتاوی رضویہ قدیم ج4 صفحہ 428)،
اور فتاوی فقیہ ملت میں اسی طرح ہے: لہذا اس شخص نے جو زمین خریدی وہ ان تینوں قسموں میں سے کسی میں بھی داخل نہیں ہے، لہٰذا اس پہلی زمین کی خریداری پر زکوۃ واجب نہیں،(ملخصاً ج1 صفحہ 301)،
اور تفہیم المسائل میں ہے: ذاتی استعمال کا مکان زکوۃ سے مستثنیٰ ہے، اسی طرح ذاتی مکان کے لیے خریدا ہوا پلاٹ بھی زکوۃ سے مستثنیٰ ہے، وہ مکان یا پلاٹ یا دکانیں،فلیٹس جو کرائے پر چڑھے ہوئے ہیں، ان کی سالانہ آمدنی....پر زکوۃ ہے(ملخصأ تفہیم المسائل ج2 صفحہ 170)،
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
٧/رمضان المبارک ١٤٤١ھ مطابق ١ مئ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں