مسلمانوں کے پاس صرف چارنام ‏

مسلمانوں کے پاس صرف چارنام  

قوم مسلم پر الزام تراشیوں کی گرم بازاری ہے۔اہل تعصب ہنودکاکہنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس صرف چار چہرے ہیں،جن کو دکھا کروہ اپنی وفاداری ثابت کرتے ہیں:
(1)اشفاق اللہ خاں (1900-1927) (2)ویر عبد الحمید (1933-1965) 
(3) ابوالکلام آزاد (1888-1958)(4)ڈاکٹراے پی جے عبد الکلام (1931-2015)
حکومت ہند کی سفارش پرڈاکٹر بی این چوپڑا نے تین جلدوں میں پہلی جنگ آزادی:1857سے 1947 تک کے سرفروشوں ودیگر مجاہدین وطن کاتذکرہ جمع کیاہے،جنہوں نے بھارت کے لیے اپنی جانیں قربان کیں،جس کااردوترجمہ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان (دہلی)نے دوجلدوں میں ”شہیدان آزادی‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں ہر قوم کے ان مجاہدین آزادی کا ذکر ہے، جنہوں نے بھارت کے لیے اپنا خون بہایا،اور اپنی جانیں قربان کیں۔اس میں بے شما ر مسلمانوں کے نام درج ہیں،لیکن تعصب اندھا،بہر ا اور گونگا ہوتا ہے۔انگریزوں کے کاسہ لیس آج وفادار وطن بن چکے۔
انگریزوں کی آمد سے لے کر پہلی جنگ آزادی:1857 تک بھارت کے تحفظ وآزادی کے لیے مسلمانوں نے اپنا خون پانی کی طرح بہایا۔جب 1857میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اورانگریزوں کویقین ہوگیا کہ اس غدرمیں مغل بادشا ہ، مسلم امر ا ونواب اورعلما کا مرکزی کردار ہے تو بغاوت کے خاتمے کے بعد انگریزی حکومت کئی سالوں تک مسلمانوں پر سخت ظلم وستم کرتی رہی۔بے شمار مسلم عوام،علمااورارباب اقتدار کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔جاگیریں ضبط ہوئیں۔ مسلمانوں کو سرکاری ملازمت سے نکال دیا گیا۔
ادھرقوم مسلم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے،اسی عہد میں آرین قوم انگریزی حکومت کو ملکی حکومتوں سے بہتر بتارہی تھی،ان سے وفاداری کاوعدہ کررہی تھی،پھر جب انگر یز یہاں سے چلے گئے،تووہی لوگ خود کو وفادار وطن اور مجاہدین آزادی کہنے لگے،اور جس قوم نے آزادی کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیا تھا،اس کو غدار بتانے لگے۔کمزوری کا دوسرا نام مظلومیت ہے۔میدان کربلا سے لے کرآج تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔  
بھارتی مؤرخ تاراچند(1888-1973)نے لکھا:”1857کی بغاوت کے فوراً بعد یہ خیال جڑیں پکڑنے لگا کہ اس کے باوجود کہ وہ ماضی کی مطلق العنان حکومتوں سے بہتر ہے اورہرحال میں اٹھارہویں صدی اور انیسوں یں صدی کے اوائل کی بدنظمی کے مقابلے میں زیادہ قابل مقبول ہے،پھر بھی برطانوی حکومت لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔چناں چہ برطانوی حکومت کے فوائد کو تسلیم کرنے،برطانیہ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کی تصدیق اوربرطانوی تاج کے ساتھ وفاداری کے اعلان کے باوجود ہندوستان کے رہنماؤں کو ضروری معلوم ہوا کہ شکایتوں کی طرف حکومت کوتوجہ دلائی جائے۔
انہیں امید تھی کہ لبرل ذہن رکھنے والے حکمرانوں کو جوں ہی ان کا علم ہوگا،وہ انہیں دور کردیں گے۔ انہیں بالکل یقین تھا کہ برطانوی حکومت مفید ہے،لیکن اس میں چند سیاسی اور معاشی خامیاں ہیں۔سیاست کی حدتک دو اہم خامیاں تھیں۔حکومت کی کونسلوں میں عوامی آواز کی عدم موجود گی اور اعلیٰ عہدوں پر ہندوستانیوں کا تقررنہ کیا جانا۔معاشی میدان میں بنیادی شکایت تھی ہندوستانیوں کا افلاس،جو بہت کم قومی اور انفرادی آمدنیوں سے،قحطوں سے، کسانوں کے قرضے سے،زندگی کی کم مدت سے اور زیادہ شرح اموات وغیرہ سے ظاہر ہوتا تھا۔اس کے علاوہ عام طورسے سمجھا جاتا تھا کہ افلاس کی ایک اہم وجہ تھی ہندوستان سے دولت کانکاس“۔(تاریخ تحریک آزادی ہند (تارا چند): جلد دوم ص469- قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان:دہلی-ترجمہ:از،ڈاکٹر ایم ہاشم قدوائی:علی گڑھ)
جس عہد میں مسلمانوں کو بغاوت کے جرم میں پھانسیوں پر لٹکایا جارہاتھا،اسی عہد میں برطانوی تاج کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرنے والے ہندوستانی لیڈ ر کون لوگ تھے؟انگریزو ں سے اپنی وفاداری کے عوض حکومتی اعلیٰ عہدوں کی تمنا کرنے والے لوگ کون تھے؟بھارت کی ساری دولت لوٹ کر انگلینڈ لے جانے والی حکومت کے فوائدکویقینی تسلیم کرنے اوران سے عمدہ تعلقات کی خواہش رکھنے والے لوگ کون تھے؟دراصل یہی لوگ غدار وطن تھے۔آج ان کے وارثین محب وطن بن چکے ہیں!!!

طارق انور مصباحی (کیرلا)

جاری کردہ:31:مئی 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے