السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
متوفیہ کی عدت چار ماہ دس دن..
بعض ماہ انتیس اور بعض تیس کے ہوتے ہیں..پوچھنا یہ ہیکہ انتیس تیس کا اعتبار ہوگا یا پورے تیس دن کا اعتبار ہوگا...؟؟؟
سائل:اے این رضوی دیناج پور؛
ا_________(💘)___________
*الجواب بعون الملک الوہاب؛*
اگر متوفیہ کےشوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ھواھے تو عدت کا شمار چاند کےمہینہ کے اعتبار سے ھو گا گرچہ کوئ مہینہ انتیس کا ھو اور اگر انتقال درمیانی ماہ میں ھوئ ھے یعنی کی پہلی تاریخ کے بعد تو عدت کا شمار دنوں کی گنتی سے ھوگا یعنی کامل 130 دن۔اور یہی حکم طلاق یا فسخ کا ھے کہ پہلی تاریخ کو طلاق یافسخ واقع ھوئ تو اعتبار چاند کےمہینہ کاھے خواہ مہینہ تیس کا ھو یا انتیس کا ورنہ ہرمہینہ تیس کا شمار کیا جائےگا اور طلاق کےلئے نوےدن اور عدت وفات کےلئے ایک سو تیس دن ھونگے۔
*(📕ردالمحتارمیں ھے:)*
*فی المحیط:اذا اتفق عدۃ الطلاق والموت فی غرۃ الشھر اعتبرت الشھور بالاھلۃ وان نقصت عن العدد وإن اتفق في وسط الشهرفعند الإمام یعتبر بالأیام فتعتد في الطلاق بتسعین یوما وفي الوفاة بمائة و ثلاثین)*
*(📘باب العدۃ،ج5ص187قبیل زوجۃ عدۃ الصغیر،مطبع زکریا)*
*(📙بہارشریعت حصہ ہشتم میں ھے)*
*اگر طلاق یا فسخ پہلی تا ریخ کو ہواگرچہ عصر کے وقت تو چاند کے حساب سے تین مہینے ورنہ ہر مہینہ تیس دن کا قرار دیا جائے یعنی عدت کے کل دن نوے ہونگے۔*
*(📙عدت کابیان مسئلہ6)*
*واللہ تعالی اعلم* ا________(🖊)___________
*کتبـــہ؛*
*حضرت علامہ مفتی عطامحمد مشاھدی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی صدر شعبئہ افتاء دارالعلوم حشمت الرضا پیلی بھیت شریف یوپی الھند؛*
*مورخہ؛8/5/2020)*
*🖊الحلقةالعلمیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎8787253829)*
ا________(🖊)__________
*🖌المشتـــہر فضل کبیر🖌*
*منجانب؛منتظمین الحلقةالعلمیہ گروپ؛محمد عقیل احمد قادری حنفی سورت گجرات انڈیا؛*
ا________(🖊)__________
712
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں