*امامت =تجویدوقرأت=حسن صوت*
عَن نَوفَلِ بنِ اَیَاسِ الہُذَلِیِّ قَالَ:کُنَّا نَقُومُ فِی عَہدِ عُمَرَبنِ الخَطَّابِ فِرَقًا فِی المَسجِدِ فِی رَمَضَانَ ہٰہُنَا وَہٰہُنَا-وَکَانَ النَّاسُ یَمِیلُونَ اِلٰی اَحسَنِہِم صَوتًا فَقَالَ عُمَرُ:اَ لَا اَرٰیہُم قَد اِتَّخَذُوا القُراٰنَ اَغَانِیَ-اَمَا وَاللّٰہِ لَاِن اِستَطََعتُ لَاُغَیِّرَنَّ ہٰذَا فَلَم اَمکُث اِلَّا ثَلٰثَ لَیَالٍ حَتّٰی اَمَرَ اُبَیَّ بنَ کَعبٍ فَصَلّٰی بِہِم-ثُمَّ قَامَ فِی اٰخِرِالصُّفُوفِ فَقَالَ:لَاِن کَانَت ہٰذِہِ البِدعَۃُ لَنِعمَتِ البِدعَۃُ ہِیَ
(طبقات ابن سعد-بخار ی فی خلق الافعال-جعفر الفریابی فی السنن)
(کنزالعمال للسیوطی ج8 ص409)
ترجمہ:حضرت نوفل بن ایاس ہذلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ ہم لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں رمضان میں مسجد نبوی میں الگ الگ نماز تراویح اد ا کرتے تھے (کچھ لوگ) یہاں اور (کچھ لوگ) یہاں، اور لوگ اچھی آواز والے کی طر ف مائل ہوتے،پس حضرت عمر فار وق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا میں انہیں نہیں دیکھ رہا ہوں کہ انہوں نے قرآن کو گانے بنا لیا ہے۔قسم بخد ا! مجھے قوت ہوئی تو یقینا اسے بدل ڈالوں گا، پس میں تین ہی رات ٹھہرا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز تراویح پڑھا ئی، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخر ی صف میں کھڑے ہوئے توآپ نے فرمایا۔اگر یہ بدعت ہے تو اچھی بدعت ہے۔
توضیح:مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ عہد فاورقی میں جماعت تراویح کے قیام کے اسباب میں سے ایک اہم سبب لوگوں کا اچھی آواز کی طرف مائل ہونا ہے۔ اچھی آواز سے نفس انسانی کو سکون اورخوشی محسوس ہوتی ہے،لیکن عبادت اللہ تعالیٰ کی خوشی کے لیے کی جاتی ہے،نہ کہ تسکین نفس کے واسطے۔محض اچھی آواز کے سبب کسی امام کو ترجیح دینا خلاف سنت ہے۔ یہ انسانوں کی فطری پسند ہے۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے حق میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی ترجیح خلاف سنت ہوگی اور وہ بلا لحاظ سبب ترجیح،محض حسن صوت کے سبب کسی کی جانب مائل ہوئے،لیکن یہ امربعض دوسرے مومنین کی غلط فہمی کا سبب بن سکتا تھا، اس لیے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح کی جماعت قائم فرمادی۔
یہ امر بھی ملحوظ ر ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے چند قابل امامت افراد میں سے کسی کو محض حسن صوت کی وجہ سے منتخب نہیں فرمایا، بلکہ چند قائم شدہ جماعت تراویح میں سے اس جماعت میں شریک ہوئے، جس میں امام کی آواز اچھی تھی۔ حکم شرعی کا خصوصی تعلق انتخاب امام سے ہے کہ جب چند قابل امامت افراد جمع ہوجائیں اوروہاں کوئی امام متعین نہ ہو، اور نہ کوئی خصوصی استحقاق رکھتا ہو،مثلاً صاحب بیت یا حاکم وسلطان وغیرہ نہ ہو تو اب ان میں سے کسی ایک کوترجیح دینے کے متعدد اسباب ہیں،جن کوشریعت اسلامیہ نے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
نمازتراویح قرائے صحابہ پڑھاتے تھے،اس لیے وہاں گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں لحن کے ساتھ قرآن مجیدکی تلاوت ہوتی تھی،ہرگزنہیں۔ وہاں محض حسن صوت کی تلاش کو نامناسب سمجھا گیا،گرچہ وہاں اس تلاش میں سبب ترجیح کا لحاظ کیا گیا ہو،لیکن اس مشروط تلاش کو بھی ”حسنات الابرار سیئات المقربین“کے اصول کے مطابق خلیفہ راشد ہادی مہدی نے بند فرمادی،اور تراویح کی جماعت کا حکم فرمایا۔
گانا بنانے کا مفہوم یہی ہے کہ جس طرح گانا سننے سے نفس کوسکون حاصل ہوتا ہے، اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت میں سبب ترجیح کا لحاظ کیے بغیرمحض حسن صوت کی تلاش،تسکین نفس کی خاطر سماعت قرآن کا شبہہ پیدا کرتی ہے۔ایسی نیت سے قرآن مجید کی سماعت یقینا معیوب ہے۔قرآن مقدس کی تلاوت وسماعت دونوں ہی عبادت ہیں،لہٰذا تلاوت وسماعت دونوں میں رضائے الٰہی کی نیت ضروری ہے،نیز جب تلاوت وسماعت نماز میں ہوتو حکم مزید مؤکدہوجاتا ہے۔ فرمان فاروقی(قد اتخذوالقرآن اغانی) دراصل منقوشہ ذیل حدیث نبوی(ونشویتخذون القرآن مزامیر) کی تشریح ہے۔
}عَن رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:تَمَنَّوُا المَوتَ عِندَ خِصَالٍ سِتٍّ:عِندَ اِمَارَۃِ السُّفَہَاءِ وَبَیعِ الحُکمِ وَاِستِخفَافٍ بِالدَّمِ وَکَثرَۃِ الشَّرطِ وَقَطِیعَۃِ الرَّحمِ-وَنَشوٍئ یَتَّخِذُونَ القُرآنَ مَزَامِیرَ-یُقّدِّمُونَ الرَّجُلَ لِیُغَنِّیہِم وَلَیسَ بِاَفقَہِہِم{(المعجم الکبیرللطبرانی:ج18ص36-مکتبہ شاملہ)
عَن رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:بَادِرُوا بِالمَوتِ ستًّا:اِمرَۃَ السُّفَہَاءِ وَکَثرَۃَ الشَّرطِ وَبَیعَ الحُکمِ وَاِستِخفَافًا بِالدَّمِ وَقَطِیعَۃَ الرَّحمِ-وَنَشءًا یَتَّخِذُونَ القُرآنَ مَزَامِیرَ-یُقَدِّمُونَہٗ یُغَنِّیہِم وَاِن کَانَ اَقَلَّ مِنہُم فِقہًا{(مسند امام احمدبن حنبل:ج25ص427-مکتبہ شاملہ)
توضیح:حسن صوت فی نفسہ معیوب نہیں ہے،بلکہ صوت حسن(اچھی آواز)کومطلوب یا مثل مطلوب بنالینا معیوب یقینا معیوب ہے۔عہد حاضر میں مساجد کے ائمہ کے انتخاب میں صوت حسن (اچھی آواز) کو بہت ترجیح دی جاتی ہے ، حالاں کہ امام کے لیے تجوید کاعلم ضروری ہے،نہ کہ اچھی آواز والا ہونا۔عوام کی پسند سے بہت خرابیاں پیداہوئیں۔ غنہ کی مقدار ایک الف کے برابرہے،لیکن بعض لوگ تحسین صوت کے قصد سے وہاں کئی الف ادا کردیتے ہیں۔اسی طرح حرف ”ض“کو دال مفخم کی آواز میں ادا کر تے ہیں۔ایک توآسانی ہوتی ہے،دوسری بات عوام کو دال مفخم کی آواز اچھی لگتی ہے۔ بسا اوقات اگر امام ضاد کو اصل آواز میں اداکرے تو پبلک اس کو غلط سمجھتی ہے۔اس طرح عوام الناس کی پسند کے سبب کبھی نماز میں کچھ کمی پیدا ہوتی ہے اور کبھی نماز ہی فاسد ہوجاتی ہے۔ایسی صورتوں میں امام ومقتدی دونوں ہی خطا پر ہیں۔قانون شریعت،بہار شریعت وفتاویٰ رضویہ میں شرعی مسائل مرقوم ہیں۔
حصول لذت کی خاطر سماعت قرآن کی تقبیح
احادیث منقولہ میں ان لوگوں کی تقبیح کی گئی جو حصول لذت کی خاطر نمازکی امامت کے لیے اچھی آواز والے کوآگے بڑھائیں اور اس بارے میں شرعی ہدایات کا لحاظ نہ کریں،پس گویا ایسے لوگ نفس کے تابع ہیں،جب کہ نفس کشی مطلوب شرع ہے۔ حسن صوت کو مطلوب ومقصود بنالینایا مثل مطلوب ومقصود بنالینا یقینا غلط ہے۔ عبادت خداوندی میں محض رضائے الٰہی مطلوب ہوتی ہے۔عبادتوں میں رضائے نفس انسانی کا ایک حصہ محفوظ رکھنا کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے۔حدیث محررہ بالاکی تشریحات مندرجہ ذیل ہیں:
محمد بن اسماعیل امیر صنعانی یمنی زیدی شیعی (1099-1182ھ)نے لکھا:}(یقدمون احدہم لیغنیہم)ای فی الصلاۃ التذاذًا بصوتہ-لا اقبالًا علٰی ما یجب-ولذا قال (وان کان اقلہم فقہًا)مع انہ منہی عن تقدم غیر الافقہ{ (التنویرشرح الجامع الصغیر للسیوطی:جلدچہارم ص528-مکتبہ شاملہ)
قال عبد الرؤف المناوی الشافعی(952-1031ھ):}(ویتخذون القرآن)ای قرأتہ(مزامیر)جمع مزمار-وہو بکسر المیم آلۃ الزمر-یتغنون بہ ویتمشدقون ویأتون بہ بنغمات مطربۃ-وقد کثر ذلک فی ہذا الزمان- وانتہی الامر الی التباہی باخراج الفاظ القرآن عن وضعہا(یقدمون)یعنی الناس الذین ہم اہل ذلک الزمان(احدہم لیغنیہم)بالقرآن بحیث یخرجون الحروف عن اوضاعہا ویزیدون وینقصون لاجل موافاۃ الالحان وتوفر النغمات(وان کان)ای المقدم(اقلہم فقہا)اذ لیس غرضہم الا الالتذاذ والاسماع بتلک الالحان والاوضاع{(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:جلد سوم ص194-مکتبہ شاملہ)
امام طحاوی(238-321ھ) کی تطبیق
امام ابوجعفر طحاوی حنفی نے اس باب کی دومختلف قسم کی حدیثوں میں تطبیق فرمائی ہے۔ بعض احادیث میں حکم ہے کہ قرآن مجید کواچھی آواز میں پڑھا جائے۔بعض حدیثوں میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے،جنہوں نے نماز کی امامت کے لیے اچھی آواز والوں کوترجیح دی۔
امام طحاوی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرنماز کی امامت کے لیے محض حسن صوت کے سبب کسی کوترجیح دی تو یہ خلاف سنت ہے۔اسباب ترجیح میں متعدد امور ہیں اورحسن صوت کا درجہ بہت بعدمیں ہے۔ اب کسی نے مثلاً افقہ پر احسن الصوت کوترجیح دی توگویا کہ اس نے محض حصول لذت کی خاطر حسن صوت کو ترجیح دی۔اگر حکم شرع کے مطابق ترجیح دی تواس کا مطلب یہ ہواکہ وہاں حسن صوت سے حصول لذت مقصود نہیں ہے،بلکہ حسن صوت سے رقت قلب مقصود ہے، پس نیت کی تبدیلی کے سبب حکم بدل جائے گا اور کوئی کسی کی نیت سے واقف نہیں،لیکن قرائن وشواہد نیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
جب عہد حاضر میں علم و فقہ،قرأت وتقویٰ ودیگر صفات مرجحہ کو در کنار کرکے محض حسن صوت کی تلاش وطلب ہوتی ہے توواضح ہے کہ یہاں رقت قلب مقصود نہیں،بلکہ حصول لذت ہی مقصود ہے۔نیت حسن کے ساتھ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسن صوت کے سبب حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت سماعت فرماتے۔یہاں رقت قلب مقصود تھا،نہ کہ تسکین نفس۔
امام طحاوی نے حدیث نبوی:”ونشأ یتخذون القرآن مزامیر یقدمون احدہم لیغنیہم وان کان اقلہم فقہا“کی شرح میں رقم فرمایا:
}فقال قائل:کیف تقبلون ہذا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-وقد رویتم لنا قبلہ عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما تقدم من ہذا الکتاب انہ قال:ما یأذن اللّٰہ عزوجل لشیء ما یأذن لنبی یتغنی بالقرآن-وفی ذلک حض الناس علٰی تحسین اصواتہم بالقرآن-واذا کان ذلک مما یؤمرون بہ فی انفسہم کان دلیلا علٰی اباحتہم استماع ذلک من غیرہم-کمثل ما قد روی عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ-فذکر ما قد حدثنا یونس قال انبأنا ابن وہب قال اخبرنی یونس بن یزید عن ابن شہاب ان ابا سلمۃ اخبرہ قال:
کان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ اذا رأی ابا موسی-قال:ذکرنا یا ابا موسی! فیقرأ عندہ-وکان ابوموسی حسن الصوت-قال:وفیما رویتموہ فی ہذا الباب ما یخالف ذلک۔
کان جوابنا لہ فی ذلک بتوفیق اللّٰہ وعونہ-ان الذی فی الحدیث الذی رویناہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ہذا الباب من المبادرۃ بالموت النشو المذکور فیہ-انما ہو لاتخاذہم ائمۃ فی الصلٰوۃ لاصواتہم-ولیسوا للامامۃ بموضع-اذ کانت السنۃ منہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یؤم القوم اقرؤہم لکتاب اللّٰہ-فان کانوا فی القرأۃ سواء فاعلمہم بالسنۃ-فان کانوا فی السنۃ سواء فاقدمہم ہجرۃ-فان کانوا فی الہجرۃ سواء فاقدمہم سنا-وسنذکر ذلک باسنادہ فی موضعہ فیما بعد من کتابنا ہذا ان شاء اللّٰہ تعالی۔
فکانت سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یؤم القوم من ہذہ صفتہ-کان معہ حسن الصوت او لم یکن معہ حسن صوت-وکان من رغب عن ذلک الی ما سواہ من حسن الصوت راغبًا عن سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مذمومًا فی اختیارہ ممن یجب ان یباشر الموت امثالہ۔
ولیس ذلک ممن یحسن صوتہ بالقرآن لیرق قلبہ او لیرق لہ قلوب سامعیہ منہ فی شیء-ولو اجتمع اثنان فی القرأۃ فی کتاب اللّٰہ تعالی فکانا بذلک مستحقین للامامۃ من حیث ذکر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم استحقاقہما لہا بہ ما کان مکروہًا ان یقدم لہا منہما احسنہا صوتًا علی الذی لیس معہ حسن صوت-ولا یکون من فعل ذلک معنفًا-فبان بحمد اللّٰہ عزوجل وعونہ ان لا تضاد فی شیء مما توہمہ ہذا الجاہل فی احادیث رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم-وکیف یکون ذلک وقد وصفہ اللّٰہ عز وجل بانہ لا ینطق عن الہوی-ان ہو الا وحی یوحی-علمہ شدید القوی-واللّٰہ سبحانہ نسألہ التوفیق{
(شرح مشکل الآثار:جلد چہارم ص13 & 12-مکتبہ شاملہ)
*امامت کے لیے شرعی اسباب ترجیح*
جہاں کوئی امام متعین نہ ہو،وہاں چندقابل امامت افرادکے جمع ہوجانے پر متعدداسباب کی بنا پر ترجیح دی جاتی ہے۔ترجیح کے اسباب اسی ترتیب سے منقولہ ذیل ہیں،جس ترتیب سے ترجیح دی جاتی ہے، یعنی سبب اول میں مساوات ہوتو سبب ثانی -الخ
قال الشرنبلالی:}اذا لم یکن بین الحاضرین صاحب منزلۃ ولا وظیفۃ ولا ذو سلطان-فالاعلم احق بالامامۃ-ثم الاقرأ-ثم الاورع-ثم الاسن-ثم الاحسن خلقًا-ثم الاحسن وجہًا-ثم الاشرف نسبًا-ثم الاحسن صوتًا-ثم الانظف ثوبًا-فان استووا،یقرع-او الخیار الی القوم-فان اختلفوا فالعبرۃ بما اختراہ الاکثر-وان قدموا غیر الاولٰی فقد اساؤوا{(نورالایضاح ص 52-مکتبہ شاملہ)
توضیح:یہ تمام شرعی اسباب ترجیح ہیں۔اگر محض حسن صوت کے سبب کسی کومنتخب کیا تویہ طبعی انتخاب ہوا،اورسنت کے خلاف ہے۔ محض حسن صوت کے سبب انتخاب پرجو اعتراض وارد ہوتا ہے، وہ وارد ہوگا۔ مساجدمیں ائمہ کے تعین کے لیے بھی مذکورہ امور کو گائیڈ لائن بنایا جائے۔یہ شریعت اسلامیہ کے بیان کردہ امور ہیں۔ نما زاہم اعبادت ہے۔شرعی ترجیح کو ملحوظ خاطررکھا جائے۔
حضور صدر الشریعہ قدس سرالعزیزنے رقم فرمایا:”سب سے زیادہ مستحق امامت وہ شخص ہے جونمازو طہارت کے احکام کو سب سے زیادہ جانتا ہو، اگرچہ باقی علوم میں پوری دست گاہ نہ رکھتا ہو،بشر طے کہ اتنا قرآن یاد ہوکہ بطور مسنون پڑھے اور صحیح پڑھتا ہو،یعنی حروف مخارج سے ادا کرتا ہو، اور مذہب کی کچھ خرابی نہ رکھتا ہو،اورفواحش سے بچتا ہو۔اس کے بعد وہ شخص جوتجوید (قرأت) کا زیادہ علم رکھتا ہو، اوراس کے موافق ادا کرتا ہو۔اگر کئی شخص ان باتوں میں برابر ہوں تو وہ کہ زیادہ ورع رکھتا ہو، یعنی حرام توحرام شبہات سے بھی بچتا ہو۔اس میں بھی برابرہوں تو زیادہ عمر والا،یعنی جس کو زیادہ زمانہ اسلام میں گزرا۔اس میں بھی برابر ہوں تو جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں۔اس میں بھی برابر ہوں توزیادہ وجاہت والا،یعنی تہجد گزار کہ تہجد کی کثرت سے آدمی کا چہرہ زیادہ خوبصورت ہوجاتا ہے،پھرزیادہ خوبصورت،پھر زیادہ حسب والا،پھروہ کہ باعتبار نسب کے زیادہ شریف ہو،پھر زیادہ مالدار،پھر زیادہ عزت والا،پھر وہ جس کے کپڑے زیادہ ستھرے ہوں۔غرض چند شخص برابر کے ہوں توان میں جو شرعی ترجیح رکھتا ہو،زیادہ حق دار ہے،اور اگر ترجیح نہ ہو تو قرعہ ڈالا جائے۔جس کے نام کا قرعہ نکلے،وہ امامت کرے،یا ان میں سے جماعت جس کو منتخب کرے، وہ امام ہو،اور جماعت میں اختلاف ہوتو جس طرف زیادہ لوگ ہوں، وہ امام ہو، اور اگر جماعت نے غیر اولیٰ کو امام بنایا تو برا کیا، مگر گنہ گار نہ ہوئے“۔(در مختاروغیرہ)(بہارشریعت حصہ سوم ص 567-مجلس المدینۃ العلمیہ)
توضیح:جہاں متعین امام ہو،وہاں امام متعین ہی امامت کا حقدار ہے،جب کہ وہ شرائط امامت سے متصف ہو۔
صدرالشریعہ علیہ الرحمۃوالرضوان نے تحریر فرمایا:”امام معین ہی امامت کا حقدار ہے۔ اگر چہ حاضرین میں کوئی اس سے زیادہ علم اورزیادہ تجوید والا ہو(در مختار)یعنی جب کہ وہ امام جامع شرائط امام ہو۔ورنہ وہ امامت کا اہل ہی نہیں۔بہتر ہونا در کنار“۔
(بہارشریعت حصہ سوم ص 567-مجلس المدینۃ العلمیہ)
امامت کے شرائط:
حضورصدرالشریعہ علیہ الرحمۃوالرضوان نے تحریر فرمایا:”مرد غیر معذور کے امام کے لیے چھ شرطیں ہیں:(۱)اسلام (۲)بلوغ (۳)عاقل ہونا (۴)مرد ہونا (۵)قرأت (۶)معذور نہ ہونا“۔(بہارشریعت حصہ سوم ص 561-مجلس المدینۃ العلمیہ)
*طارق انور مصباحی* (کیرلا)
*رکن: روشن مستقبل دہلی*
جاری کردہ:20:مئی 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں