مساجد میں ‏ ‏Social Distancing ‎کا شرعی جواز ایک تجزیہ

مساجد میں Social Distancing کا شرعی جواز ایک تجزیہ

*غلام مصطفیٰ نعیمی*
جنرل سیکریٹری تحریک فروغ اسلام
روشن مستقبل دہلی

کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں سارے معمولات زندگی بند ہیں۔مساجد میں بھی چند نمازیوں کے علاوہ سب پر پابندی لگی ہوئی ہے۔فی الحال اس مرض کی دوائی تیار نہیں ہوپائی ہے اس لیے احتیاطی تدبیر کے طور پر سماجی دوری (Social Distance) کا فارمولہ اختیار کیا گیا ہے۔حالیہ دنوں میں حکومت نے کچھ شرائط کے ساتھ "مذہبی عبادت گاہوں" میں مکمل اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔ان شرائط میں نماز میں سماجی دوری(فاصلے) کا اہتمام کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ فتوے وائرل ہورہے ہیں جن میں "سماجی دوری"(social distance) کو "اضطرار اور حکومتی پابندی" کی وجہ سے جائز قرار دیا گیا ہے۔اس تحریر میں ہم تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ نماز باجماعت میں اتصال صفوف کی اہمیت اور تاکید کے ہوتے ہوئے فاصلے (social distens) کو جائز قرار دینا کیسا ہے؟
*اتصال صفوف کی اہمیت*
نماز میں صف بندی کی بڑی اہمیت اور سخت تاکید آئی ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
سَوُّوا صُفُوفَکُمْ، فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصَّفِّ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ۔
"تم اپنی صفوں کو درست کیا کرو کیونکہ صفوں کی درستی سے نماز قائم ہوتی ہے۔"
(صحیح البخاري ۱/۱۰۰)
حدیث مذکور میں "تسویۃ الصف" کو اقامت صلواۃ کا حصہ قرار دیا گیا ہے، علامہ بدرالدین عینی "اقامت صلواۃ" کی تشریح یوں بیان فرماتے ہیں:
یراد بھا ایضاً سد الخلل الذی فی الصف۔
"اقامت صلواۃ کا مطلب یہ ہے کہ کہ صف میں نمازیوں کے درمیان ذرا سی جگہ بھی خالی نہ رہے"(عمدۃ القاری:4/353)

عن أبي هريرة - رضي الله عنه - أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: أَقِيمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّ إِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلَاةِ.
(صحیح البخاری: ج1 ص100 باب اقامۃالصف من تمام الصلاة)
"نماز میں صف کو درست کرو اس لئے کہ صف کو درست کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔"

سیدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ إِقَامَةَ الصَّفِّ.
(مسند احمد:22 ص346 رقم الحدیث14454)
"بیشک نماز کی تکمیل صفوں کی درستی سے ہوتی ہے۔"

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ حضور اقدس ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
فَقَالَ:أَلَا تَصُفُّونَ کَمَا تَصُفُّ الْمَلاَئِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا؟، فَقُلْنَا:یَا رَسُولَ اللّٰہِ،وَکَیْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا؟، قَالَ: یُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْـأُوَلَ، وَیَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ۔
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم اس طرح کیوں صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے ہاں صفیں بناتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا :یا رسول اللہ! فرشتے اپنے رب کے یہاں کس طرح صفیں بناتے ہیں؟ فرمایا: وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے یوں مل کر کھڑے ہوتے ہیں کہ درمیان میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔"(صحیح مسلم : ۱/۱۸۰)

روایت مذکورہ میں حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو درستی صف کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرشتوں کی صف بندی کا تذکرہ فرمایا جب صحابہ کرام نے اشتیاق ظاہر کیا تب آپ نے صفوف ملائکہ کی کیفیت بیان فرما کر لوگوں کو ویسی ہی صف بنانے کی تاکید فرمائی۔

ان روایات میں 'درستی صف' کو "اقامت صلواۃ ، حسن صلواۃ، تکمیل صلواۃ اور طریقہ ملائکہ" قرار دیا گیا ہے۔ جس سے اس بات کا بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ نمازوں میں صفوں کو درست رکھنا کس قدر مطلوب ومحبوب ہے،اب ایک نظر ان روایات پر بھی ڈال لیں جن میں صفوں کی بے ترتیبی اور عدم درستی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے:
عن نعمان بن بشیر یقول: کان رسول اللّٰہﷺ یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بہا القداح حتی رأٰی اناقد عقلنا عنہ،ثم خرج یوماً فقام حتی کاد ان یکبر فرأٰی رجلا بادیا صدرہ من الصف‘ فقال عباد الله الا تسوون صفوفکم او لیخالفن الله بین وجوھکم
(صحیح مسلم:1/182)
"حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا کرتے تھے گویا ان کے ذریعہ آپ تیروں کو سیدھا کریں گے، یہاں تک کہ آپ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم لوگ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں کس طرح سیدھا اور کھڑا ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لئے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہوگئے، قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرمادیں کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے بندو! اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے رخ ایک دوسرے کے مخالف کردے گا۔

عموماً تیر سے دیگر چیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے لیکن درستی صف میں حضور ﷺ اس قدر مبالغہ فرماتے کہ صحابہ کو محسوس ہوا کہ ہماری صفیں اس قدر سِیدھی ہیں کہ تیر کو سیدھا کیا جاسکتا ہے۔

2: عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ان رسول الله ﷺ قال: اقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بایدی اخوانکم ولاتذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفّا وصلہ الله ومن قطع صفّا قطعہ الله
(سنن ابی داود:ج1 ص104 باب تسویۃ الصفوف)
"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: صفیں قائم کرو‘ کندھے ایک دوسرے کی سیدھ میں کرو،خلا کو پُر کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ میں نرم ہوجاؤ، شیطان کے لئے صفوں میں خالی جگہ نہ چھوڑو، جس نے صف کو ملایا، اللہ اسے ملائے گا اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اسے کاٹ دے گا۔

درج شدہ روایت میں درستی صف کی شکلیں بیان کی گئی ہیں،بایں طور کہ نمازیوں کے کندھوں اور پاؤں کے درمیان ذرا سی بھی خالی جگہ نہ رہے۔خالی جگہ شیطان کے داخل ہونے کا ذریعہ بنتی ہے اس لیے آقائے کریم ﷺ نے "بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجانے" کی ہدایت فرمائی، نرم ہوجانے کی تشریح میں اعلی حضرت فرماتے ہیں:
"مسلمانوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجانا یہ کہ اگر اگلی صف میں کچھ فرجہ(فاصلہ) رہ گیا اور نیتیں باندھ لیں اب کوئی مسلمان آیا وہ اس فرجہ میں کھڑا ہونا چاہتا ہے مقتدیوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرے تو انہیں حکم ہے کہ دب جائیں اور جگہ دے دیں تاکہ صف بھر جائے۔"
(فتاوی رضویہ کتاب الصلاۃ)
یعنی شرع مطہرہ میں اتصال صفوف اس قدر اہم ہے کہ قیام نماز کے بعد بھی خالی جگہ رہ جائے تو نماز میں مشغول نمازیوں کو دب جانے اور جگہ پر کر لینے کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ صورت حال تب کی ہے جب صف اول میں کچھ جگہ خالی تھی تو دوسری صف میں آنے والا شخص اگلی صف میں داخل ہوجائے اور وہ نمازی دب جائیں اور جگہ دیں لیکن اتصال صف کی اہمیت اس قدر ضروری ہے کہ پہلی صف میں خلا رہ جائے اور اس کے پیچھے دوسری صف بھی بھر جائے تو پیچھے آنے والے شخص کو دونوں صفیں چیرنے کی اجازت ہے، امام احمد رضا فرماتے ہیں:
"نہایت یہ کہ اگر اگلی صف والوں نے فرجہ(فاصلہ) چھوڑا اور صف دوم نے بھی اس کا خیال نہ کیا مگر اپنی صف گھنی کرلی اور نیتیں بندھ گئیں حالانکہ ان پرلازم تھا کہ صف اول والوں نے بے اعتدالی کی تھی تویہ پہلے اس کی تکمیل کرکے دوسری صف باندھتے،اب ایک شخص آیا اور اس نے صف اول کارخنہ دیکھا اسے اجازت ہے کہ اس دوسری صف کو چیر کر جائے اور فرجہ بھر دے کہ صف دوم بے خیالی کرکے آپ تقصیروار ہے اور اس کا چیرنا روا۔ قنیہ و بحرالرائق و شرح نورالایضاح و درمختار وغیرہ میں ہے:
"واللفظ لشرح التنویر لو وجد فرجۃ فی الاول لاالثانی، لہ خرق الثانی لتقصیر ھم۔"
شرح تنویر کے الفاظ یہ ہیں اگر کسی نے صف اول میں رخنہ پایا حالانکہ دوسری میں نہ تھا تو اس کے لئے دوسری صف والوں کی کوتاہی کی وجہ سے دوسری صف کو چیرنا جائز ہوگا۔
(۱؎ درمختار باب الامۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۴)
(فتاوی رضویہ کتاب الصلاۃ)

3: عن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ قال: کان رسول اللهﷺ یتخلل الصف من ناحیة یمسح صدورنا ومناکبنا ویقول لاتختلفوا فتختلف قلوبکم .
(سنن ابی داود:ج1 ص104 باب تسویۃ الصفوف)
"حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صف میں ایک جانب سے دوسری جانب تشریف لے جاتے تھے اور صف کو برابر کرنے کے لئے ہمارے سینوں اور کندھوں پر دست مبارک پھیرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ تم آگے پیچھے نہ ہونا ورنہ تمہارے دل باہم مختلف ہوجائیں گے۔

اتصال صفوف کو اتحاد و اتفاق اور افتراق صفوف میں اختلاف وانتشار قرار دینا، کیا اس سے درستی صف کی اہمیت معلوم نہیں ہوتی؟

4: عن انس بن مالک انہ قدم المدینة، فقیل لہ ما انکرت منا منذ یوم عہدت رسول اللہﷺ قال :ما انکرت شیئا الا انکم لایقیمون الصفوف۔
(صحیح بخاری:ج1 ص100 باب اثم من لم یتم الصفوف)
"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے مدینہ تشریف لائے، تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے رسول اللہﷺ کے زمانہ کے لحاظ سے اس زمانہ میں کونسی بات ناپسندیدہ پائی ہے؟ انہوں نے فرمایا:اور تو کوئی خاص بات نہیں، البتہ یہ کہ تم لوگ صفوں کو سیدھا نہیں کرتے ہو۔"

اللہ اکبر! حضرت انس رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں درستی صف اس قدر اہم تھی کہ آپ نے اتصال صفوف سے غفلت کو "ناپسندیدہ" قرار دیا۔
ان روایات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صفوں کی برابری اور درستی کس قدر ضروری اور مطلوب ہے ایسے میں حکومتی آرڈر کے نام پر طریقہ عبادت میں چھیڑ چھاڑ کرنا کہاں تک جائز ہے؟
جو علما حکومتی پابندی کی بنا پر فاصلے(social distending) کو جائز قرار دے رہے ہیں ہمیں ان کی نیتوں پر شک نہیں لیکن انہیں چند امور نگاہ میں رکھنا چاہیے:
🔹نماز اسلام کی اہم ترین عبادت ہے۔اس کا مکمل طریقہ حضور علیہ السلام نے بیان فرما دیا ہے اب حکومتی آرڈر کی بنیاد پر اس میں تبدیلی کی راہ نکالنا حضور اکرم ﷺ کے حکم کو ہلکا کرنا اور اس بات کا چور دروازہ کھولنا ہے کہ حکومتی پابندی کے خوف سے حضور اقدس ﷺ کے واضح احکامات میں بھی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
🔹دستور ہند کے بنیادی حقوق دفعہ 25، 26 کے مطابق ہر شخص کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کا حق حاصل ہے۔اتصال صفوف نماز باجماعت کا اہم حصہ ہے اس میں تبدیلی کا حکم دینا خلاف دستور بھی ہے۔
🔹اگر سماجی دوری کا فارمولہ نمازوں میں تسلیم کرلیا گیا تو کل اس کا اطلاق درس گاہوں پر بھی کیا جا سکتا ہے اب اندازہ لگائیں کہ اس پابندی کے ساتھ درس وتدریس کا کام کس طرح متاثر ہوگا؟مکاتب اور چھوٹے مدارس تو دور بڑے مدارس بھی اس پر عمل در آمد سے معذور ہوں گے۔
🔹ڈاکٹر کورونا وائرس کے علاوہ دیگر کئی امراض کو بھی متعدی بتاتے ہیں کل انہیں بیماریوں کی آڑ لیکر نمازوں ،درس گاہوں اور دیگر مذہبی محافل پر سماجی دوری کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔
🔹کورونا کی روک تھام کے لیے سماجی دوری اتنا ہی مؤثر ہوتی جیسا کہ بتایا جارہا ہے تو سورت، احمدآباد اور آنند وہار دہلی میں لاکھوں مزدوروں کی بھیڑ اور شراب خانوں پر ہزاروں شرابیوں کے اختلاط سے لاشیں بچھ جانا چاہیے تھیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، سماجی اختلاط سے مرض کا بڑھنا یقینی نہیں ہے تو محض امر موہوم کی خاطر نمازوں کی ہئیت میں تبدیلی پر رضامندی کیوں؟
🔹"الضرورات تبیح المحظورات" کے تحت طریقہ عبادت میں تبدیلی کی راہ نکالنا حکومت کو دیگر امور میں مداخلت پر آمادہ کر سکتا ہے کل کو اسی قاعدہ کی آڑ لیکر دیگر اسلامی احکامات پر پابندی لگائی گئی تو تب علما کیا کریں گے؟
🔹یہاں "صحت انسانی" کے مد نظر "فر من المجذوم" سے استدلال مفید نہ ہوگا کہ وہاں یقینی مریض سے پرہیز کا حکم ہے جبکہ موجودہ معاملے میں مریض کا یقینی ہونا موہوم اور ظنی ہے اس لیے موہوم مریض سے پرہیز چہ معنی دارد؟
🔹کسی کے ذہن میں یہ بات نہ رہے کہ یہ معاملات عارضی ہیں حالات نارمل ہوتے ہی واپس معمول پر لوٹ آئیں گے۔حکومت ہرگز اپنے ایجنڈے سے واپس نہیں لوٹے گی۔
🔹اس سے قبل بھلے ہی چند نمازیوں کو مسجد جانے کی اجازت تھی مگر نمازیں تو شرعی طور ادا کی جاریی تھیں لیکن نمازیوں کی تعداد بڑھانے کے چکر میں شرعی ضوابط کی پامالی کس لیے؟
خوب یاد رکھیں کہ حکومتی احکام کے زیر اثر جو علما بھی گنجائشیں نکال رہے ہیں وہ سب حکومت کے ریکارڈ میں محفوظ رہے گا۔اس لیے "لچک اور حالات زمانہ کی رعایت" کے نام پر رخصت کی راہیں نکالنا مستقبل میں نقصان دہ ثابت ہوگا۔
لاک ڈاؤن کے ایام میں دکانوں، شراب خانوں اور دیگر عبادت گاہوں میں لمبی قطاریں نظر آئیں لیکن کسی بھی مذہبی رہنما نے اپنے طریقہ عبادت میں تبدیلی کے لیے کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا لیکن ہمارے مذہبی رہنماؤں کی عجلت اور جوش دیکھتے ہی بنتا ہے۔
ان امور کے مد نظر سماجی دوری کو جائز قرار دینا سخت محل نظر اور نظر ثانی کا متقاضی ہے بہتر ہوگا اکابر علما ومفتیان ارباب حکومت کے سامنے شرعی مسائل کو دو ٹوک انداز میں بیان کریں کہ شرعی امور میں تبدیلی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ساتھ ہی دستور ہند سے حاصل اختیار کو ماہرین قانون کی تشریح کے مطابق پیش کریں تاکہ ہر دو طرف سے ہمارا پہلو مضبوط رہے۔اگر آج عزیمت سے کام نہیں لیا گیا تو کل نئی نئی دخل اندازیوں کے لیے تیار رہئے۔

10 شوال المکرم 1441ھ
3 جون 2020 بروز بدھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے