Header Ads

آزادی کی صبح اسلاف کی لہو خیزی سے طلوع ہوئی

آزادی کی صبح اسلاف کی لہو خیزی سے طلوع ہوئی....!

*ذکر رسول ﷺاور مجاھدِ آزادی علامہ سید کفایت علی کافی مرادآبادی*

  مجاہدِ جنگِ آزادی 1857ء علامہ سید کفایت علی کافی مرادآبادی کو جب پھانسی کا حکم سُنایا گیا؛ مولانا کافیؔ مسرور و وارفتہ تھے۔ آپ کو 6 مئی 1858ء کو مرادآباد چوک پر پھانسی دی گئی- قتل گاہ جاتے ہوئے زبان پر یہ اشعار جاری تھے ؎

کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دینِ حَسَنْ رہ جائے گا

ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا
بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا

سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

  مولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشقِ محبوب سرد نہ کرسکا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمۃ آپ کی نعت گوئی کے مداح تھے- فرماتے ھیں؎

کافی امامِ نعت گویاں ھیں رضا
ان شاء اللہ میں وزیر اعظم 

  اخیر میں علامہ کافی علیہ الرحمۃ کے مذکورہ نعتیہ اشعار پر خوب صورت اور دل پذیر تضمین مطالعہ کے گلشن میں سجائیں؛ تا کہ ذکرِ خاتم الانبیاء ﷺ کی خوشبو سے دل و دماغ معطر ہو جائیں....

*تضمین*

منظرِ عالم بدل کر دفعتاً رہ جائے گا
رہنما، رہبر نہ کوئی راہزن رہ جائے گا
حُسن کا پیکر نہ کوئی سیم تن رہ جائے گا

"کوئی گل باقی رہے گا، نے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دینِ حَسن رہ جائے گا"

سر پٹکتا اہلِ فن کا زعمِ فن رہ جائے گا
ہاتھ ملتا کفر کا باطل سخن رہ جائے گا
تلملاتا دشمنِ شاہِ زمن رہ جائے گا

"کوئی گل باقی رہے گا، نے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دینِ حَسن رہ جائے گا"

رنگ بدلے گا جہانِ رنگ و بو بے شک ہزار
آئیں گے، آکر فنا ہوں گے شہنشہ بے شمار
خاک میں مل کر رہے گا ہر کسی کا اقتدار

"انقلابِ دور گو دنیا میں ہوگا لاکھ بار
سکہِ دینِ نبی کا پر چلن رہ جائے گا"

آج گلشن میں بہ ہر سو مہکی مہکی ہے فضا
گل کھلے ہیں ہر طرف، چھائی بہارِ جانفزا
ہے مگر یہ بھی حقیقت، عارضی ہے سلسلہ

"ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا
بلبلیں اْڑ جائیں گی سُونا چمن رہ جائے گا"

آگہی، فکر و ہنر، ادراک پر نازاں نہ ہو
زورِ بازو اور دلِ بیباک پر نازاں نہ ہو
طولِ شرق و غرب کی املاک پر نازاں نہ ہو

"اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا"

دولت و شہرت کے بل پر اس قدر شاداں نہ ہو
منصب و اعزاز ملنے پر کبھی رقصاں نہ ہو
کیا خبر منزل لحد کی آپ پر آساں نہ ہو

"اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا"

یہ زمین و آسماں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
صاحبانِ خوش بیاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
شان والوں کے نشاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں

"نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا"


کیوں نہ ان پر ہر گھڑی بھیجے دلِ مضطر درود
قبر کی تیرہ شبی میں حامی و یاور درود
حشر کی گرمی میں ہے تسکین کی چادر درود

"جو پڑھے گا صاحبِ لَولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا"

یا الہی! نیک و بد کی التجا سنتا ہے تُو
یا الہی! خاتمہ بالخیر کی ہے جستجو
یا الہی! بہرِ اشکِ مصطفٰے، رکھ آبرو

"یا الہی! گر نہ پائی میں نے اپنی آرزو
دستِ حسرت سینہ پر زیرِ کفن رہ جائے گا"

ماند پڑ جائے گی ماہِ میر و غالب کی چمک
بھول جائیں گے چمن نغماتِ بلبل کی لَــلَک
آبؔ کا بھی ہے یہی ایماں، نہیں اس میں ہے شک
"سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ و لیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا"
*تضمین نگار:* ابو المیزاب محمد اویس آبؔ رضوی / کراچی

*ترسیل:* نوری مشن مالیگاؤں
***
یومِ آزادی مبارک...
اللہ تعالیٰ ہمیں نصارٰی کے ساتھ ساتھ مشرکین کی غلامی سے بھی محفوظ رکھے آمین بجاہ حبیبہٖ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
(MOHAMMAD SAJJAD AHMED )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے