عوام کی اصلاح علما و مشائخ کرتے ہیں
علما و مشائخ کی اصلاح کون کرے؟
مفتی قوم وملت،فاضل شہیر حضرت علامہ مفتی محمد مظفر حسین رضوی مصباحی صاحب قبلہ۔بانی و مہتمم دار العلوم غریب نواز روپن فتح پور ضلع گیا بہار کا سوال کہ علما و مشائخ کی اصلاح کا طریق کار بتایا جائے۔
اس سوال کا جواب مشکل ہے،کیوں کہ حق بات بتا دینا بھی کمال ہے،لیکن حق بات منوا لینا کمال در کمال ہے۔بسا اوقات لوگ حق بات کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ جو حق بات ماننے کے عادی ہیں،وہ بھی ہمارے طور طریقے سے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں اور نتیجہ بر عکس ظاہر ہوتا ہے۔
اس نکتہ سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ہے کہ مخاطب ہماری حق بات کو اسی وقت تسلیم کرے گا،جب وہ توفیق الہی سے سرفراز ہو گا۔
اصحاب خذلان حق کو حق جان کر بھی قبول نہیں کر سکتے۔
جب بجلی غائب ہو تو صحیح و سالم بلب بھی روشن نہیں ہو سکے گا۔
توفیق الہی بھی جس سے جس باب میں اپنا رشتہ منقطع کر لے تو وہ صحیح و سچا مسلمان ہو کر بھی حق بات کو قبول نہیں کر سکے گا۔
شیطان نے رب تعالی سے حکم سجدہ سنا اور قبول نہ کیا۔منافقین تو براہ راست حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے دین و ایمان کی باتیں سنا کرتے تھے،لیکن وہ مومن نہ بن سکے۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ارباب فضل و کمال بھی کسی کی تربیت و رہنمائی کریں تو بلا توفیق الہی اس تربیت و ہدایت کے نتائج و اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔
امدم بر سر مطلب
علما و مشائخ کی کثیر و غالب تعداد پابند شرع ہے۔ہاں، یہ بھی سچ ہے کہ بعض لوگ رضائے الہی کے طلب گار اور عقائد حقہ پر مستحکم ہیں۔اس کے باوجود بعض اعمال غیر محمودہ کا صدور ان سے دیکھا جاتا ہے۔
بعض حضرات بدمذہبوں سے متعلق شرعی احکام کی پابندی نہیں کر پاتے اور بعض حضرات اسلامی تہذیب و ثقافت اور دینی معاشرت کے اصولوں پر کھرے نہیں اترتے۔خواہ اس کا سبب کچھ بھی ہو،لیکن جو ناجائز امور ہیں،وہ کسی عالم یا جاہل کی تفریق کے بغیر ہر ایک کے لئے غیر مباح ہیں۔
باب اخلاقیات کے چند مشہور غیر مباح امور پر توجہ کم دی جاتی ہے۔خوف ہے کہ کہیں یہ ناپسندیدہ امور وبائی شکل نہ اختیار کر لیں۔
غیبت و چغل خوری،غرور و گھمنڈ،بغض و حسد وغیرہ امور قبیحہ علما و مشائخ کی جانب دبے پاوں چلے ا رہے ہیں۔
ایسے امور قبیحہ سے علما و مشائخ کے معاشرہ کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان امور کی اعلانیہ تقبیح کی جائے۔کسی مرتکب کا نہ صریح ذکر ہو،نہ ہی اشارہ و کنایہ کے طور پر۔ صرف ان امور غیر محمودہ کی شناعت و قباحت کا ذکر ہو۔
بہارشریعت سولہویں حصہ میں اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و اداب کا مفصل بیان ہے۔اس کے مطالعہ کی ترغیب دی جائے۔یہ حصہ اسلامی اخلاق و اداب کے نام سے بھی ہند و پاک میں شائع ہو چکا ہے۔
در حقیقت جب کوئی ناجائز و غلط کام فیشن کا روپ دھار لیتا ہے تو اس کے ناجائز و غلط ہونے کے باوجود اس امر کے ارتکاب کو لوگ معیوب نہیں سمجھتے ہیں۔اس لئے اج سے پوری کوشش کی جائے کہ ارباب فضل و کمال کے معاشرے میں امور قبیحہ فیشن کی صورت نہ اختیار کر سکیں۔
ہماری فہم و فراست اور ناقص تجربہ کی روشنی میں علما و مشائخ کے درمیان پھلنے پھولنے والے اور پروان چڑھتے امور غیر محمودہ کو روکنے کا موثر طریقہ یہی ہے کہ ان امور کی اعلانیہ شناعت و قباحت،اس کے نقصانات،مذہب اسلام میں ایسے امور کا ناجائز و غلط ہونا بیان کیا جائے اور اپنے اپنے ماحول میں چند لوگ اس خدمت کو انجام دیتے رہیں،تاکہ یہ ناجائز و حرام امور کبھی فیشن کی صورت اختیار نہ کر سکیں:و اللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والماب
طارق انور مصباحی
مدیر؛
ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
جاری کردہ:02:اگست2020
1 تبصرے
مفکر اسلام حضرت علامہ ومولانا طارق انور مصباحی صاحب قبلہ دام فیوضکم
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
آج آپ نے انتہائی حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے........اس موضوع پر عام طور پر مجھے کوئی تحریر نظر نہ آئی......وہ جماعت جو روحانی پیشوا کہلاتی ہے....جنکو مریدین ولی سے کم نہیں سمجھتے، جنکی زیارت مریدین کیلئے جنت کی ضامن ہوتی ہے......جن کی عقیدت میں مریدین پروانہ وار نثار ہوتے ہیں........جنکی کرامتیں بیان کرکے مریدین محبت کا دم بھرتے ہیں.....جنکی دعائیں مریدین کے مصائب وآلام کا ازالہ فرماتی ہیں.......بھلااس جماعت کی اصلاح یاشرعی گرفت کے بارے میں مریدین تصور بھی کرسکتے ہیں؟.........ایسے عالم میں مشائخ کے بارے میں لب کشائی کی جرات خطرے سے خالی نہیں........ہاں مگر جن کے قلوب میں ایمانی جذبے موجزن ہوتے ہیں اور جو شریعت سے واقف ہوتے ہیں وہ پرواہ نہیں کرتے.........اور جو صرف عالم ہیں انکی تو عوام پرواہ نہیں کرتی.......عالموں کا حال جگ ظاہر ہے........الاماشاءاللہ
مصیبت کی بات یہ ہیکہ پیری مریدی کے مقدس ماحول اور سلسلةالذهب کا ناجائز فائدہ نااہل نقلی اور مکار نام نہاد جعلی پیربھی اٹھا رہے ہیں.......ساری گمراہیت انہی جعلی پیروں نے پھیلائی ہے.......اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہیکہ عوام کتنے جاہل بھولےبھالے اور سادہ لوح ہوتے ہیں.......ایسے پرآشوب ماحول میں آپ جیسے علمائے حق کی شدید ضرورت آن پڑی ہے........پیش نظر تحریر کے ایک جملے نے خوش کردیا اور فکرواندیشوں کو کم کردیا......آپ نے فرمایا ہے کہ *علماءومشائخ کی کثیروغالب تعداد پابندشرع ہے*
اگر یہ جملہ صداقت پر مبنی ہے تو پھر ابھی برا وقت نہیں آیا بلکہ اصلاح معاشرہ کی پوری امید ہے.....اللہ کریم سے دعا گو ہوں کہ وہ پاک پروردگار ہمارے علماءومشائخ کو شریعت پر روزافزوں عزیمت واستقامت عطافرمائے اور ہم تمامی اہلسنت کے ایمان واعمال صالحہ کی حفاظت فرمائے
ازقلم،محمد افتخار حسین رضوی
ٹھاکرگنج کشنگنج بہار
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں