دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے

 « امجــــدی مضــــامین » 
-----------------------------------------------
دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 دنیا کی عیش و عشرت اور زیب و زینت اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو، یہ دھوکے کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ، لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے ہر گز دھوکہ نہ کھائے، ذلیل دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی قیمتی ترین آخرت کو ہر گز تباہ نہ کرے، اسی کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ *(لقمان:۳۳)* 
 *ترجمہ:* اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والا ہوگا۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیتا ہے اور شخص اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے، لہٰذا تم فنا ہوجانے والی (دنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت ) کو ترجیح دو۔ 
*(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)* 

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بزرگ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: 
’’اے لوگو! اس فرصت کے وقت میں نیک عمل کرلو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ امیدوں پر پھولے مت سماؤ اوراپنی موت کو نہ بھولو۔ دنیا کی طرف مائل نہ ہوجاؤ، بے شک یہ دھوکے باز ہے اور دھوکے کے ساتھ بن ٹھن کر تمہارے سامنے آتی ہے اور اپنی خواہشات کے ذریعے تمہیں فتنے میں ڈال دیتی ہے، دنیا اپنی پیروی کرنے والوں کے لیے اس طرح سجتی سنورتی ہے جیسے دلہن سجتی ہے۔ دنیا نے اپنے کتنے ہی عاشقوں کو ہلاک کردیا اور جنہوں نے اس سے اطمینان حاصل کرنا چاہا انہیں ذلیل ورسوا کر دیا، لہٰذا اسے حقیقت کی نگاہ سے دیکھو کیونکہ یہ مصیبتوں سے بھرپور مقام ہے، اس کے خالق نے اس کی مذمت کی، اس کا نیا پرانا ہوجاتا ہے اور اسے چاہنے والا بھی مرجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور اس سے پہلے نیند سے آنکھیں کھول لو کہ یوں اعلان کیا جائے: فلاں شخص بیمار ہے اور اس کی بیماری نے شدت اختیار کرلی ہے، کیاکوئی دوا ہے؟ یا کسی ڈاکٹر تک جانے کی کوئی صورت ہے؟ اب تمہارے لیے حکیموں (اور ڈاکٹروں ) کو بلایا جاتا ہے، لیکن شفا کی امید ختم ہو جاتی ہے، پھر کہاجاتا ہے: فلاں نے وصیت کی اور اپنے مال کا حساب کیا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: اب اس کی زبان بھاری ہوگئی، اب وہ اپنے بھائیوں سے بات نہیں کرتا اور پڑوسیوں کو نہیں پہچانتا، اب تمہاری پیشانی پر پسینہ آگیا، رونے کی آوازیں آنے لگیں اور تمہیں موت کا یقین ہوگیا، تمہاری پلکیں بند ہونے سے موت کا گمان یقین میں بدل گیا، زبان تھر تھرا رہی ہے، تیرے بہن بھائی رو رہے ہیں ، تمہیں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا فلاں بیٹا ہے، یہ فلاں بھائی ہے ،لیکن تو کلام کرنے سے روک دیا گیا ہے، پس تو بول نہیں سکتا، تمہاری زبان پر مہر لگ گئی جس کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی، پھر تمہیں موت آگئی اور تیری روح اعضاء سے پوری طرح نکل گئی، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا گیا، اس وقت تمہارے بھائی جمع ہوتے ہیں، پھر تمہارا کفن لاتے ہیں اور تمہیں غسل دے کر کفن پہناتے ہیں۔ اب تمہاری عیادت کرنے والے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور تجھ سے حسد کرنے والے بھی آرام پاتے ہیں، گھر والے تمہارے مال کی طرف متوجہ ہوجاتے اور تمہارے اعمال گروی ہوجاتے ہیں۔ 
*(احیاءعلوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، بیان المواعظ فی ذم الدنیا وصفتہا، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)* 

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں دنیا کی حقیقت کو پہچاننے، اس کے دھوکے اور فریب کاری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وسلم

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے