----------------------------------------حیلہ شرعی کا ثبوت
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حیلہ شرعی کرنے کا ثبوت کہاں سے ہے برائے کرم اس کو حل فرمائیں بہت کرم ہوگا
مع حوالہ
بہت کرم ہوگا۔
*سائل: محمد غلام حسین جیلانی حبیبی*
__________💠⚜💠____________
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*📝الجواب اللھم بعون الملک الوہاب ⇩*
آپ نے زکات میں حیلہ شرعی کا ثبوت مانگا ہے
💫لغت میں حیلہ کا معنی یہ ہیں کہ مطلب کو تدبیر سے حاصل کرنا
لسان العرب جلد ۳ /۱۰۰
تدبیر اور مطلوب کبھی دونوں اچھے ہوتے ہیں اور ان کے بر تنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہوتی اور کبھی دونوں یا مقصد برا ہو تو اس کے لئے ضرور ممانعت یے اچھا مقصد اور اس کے لئے اچھی تدبیر قرآن سے ثابت ہے
قرآن مقدس میں ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے کسی بات پر اپنی بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی
تو اللہ تبارک و تعالی نے ان دونوں کی آسانی کے لئے انہیں حکم دیا
*" وخذ بيدك ضغثا فاضرب به ولا تحنث "*
یعنی تم اپنے ہاتھ میں تیلیوں کا ایک گچھا لو جس میں سو تیلیاں ہوں اسی سے اپنی بیوی کو مارو اس حیلہ سے تمہاری قسم بھی پوری ہو جائے گی اور تمہاری بیوی کو بھی تکلیف نہ ہوگی
📑حدیث شریف میں ہے
*" دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيته والبرمة تفور بلحم فقرب اليه خبزو آدم من ادام البيت فقال الم اربرمة فيه لحم قالوا بلى ولكن ذالك لحم تصدق به وانت لا تاكل الصدقة فقال هو عليها صدقة ولنا هدية "*
*( 📕مشكواة المصابيح شريف كتاب الزكاة ج ١/ ص ٣٣٨ )*
💠حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک بار گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ چولہا پر گوشت کی ہنڈیا جوش مار رہی ہے گھر کے لوگوں نے روٹی اور کوئی دوسرا سالن حضور کی خدمت میں پیش کیا آپ نے فر مایا کیا میں گوشت کی ہنڈیا کھولتی نہیں دیکھ رہا ہوں گھر والوں نے کہا حضور وہ ہماری کنیز بریرہ کو کسی نے صدقہ کا گوشت دیاتھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے آپ نے فر مایا ہاں وہ صدقہ وہ صدقہ کا گوشت ضرور تھا لیکن بریرہ جو صدقہ لینے کی اہل ہے جب اس نے قبول کر لیا اور وہ اپنی طرف سے ہم کو دے گی وہ ہمارے لئے ہدیہ ہو گا
👌🏻اس حدیث شریف سے ائمہ اعلام علمائے کرام نے یہ قاعدہ ثابت کیا کہ قبضہ بدل جانے سے مال کا حکم بدل جاتا ہے صدقہ کا گوشت جب تک بریرہ کے کے قبضے میں نہیں آیا تھا اس کا حکم یہی تھا کہ وہ صدقہ کا مال ہے اور جب بریرہ نے وصول کرلیا تو اب وہ اس کی مالک بن گئیں اور جب مالک ہوگئیں تو وہ اپنی طرف سے جس کو بطور تحفہ دیں لینا بھی جائز اور کھانا بھی جائز اگر چہ مالدار ہی کیوں نہ ہو
یہی وہ حیلہ ہے جسے مدرسے کے ذمہ دار بمجبوری کرتے ہیں مجبوری یہ ہے کہ پہلے وقتوں میں اسلامی حکومتیں تھیں جو اپنی طرف سے مدرسوں کا انتظام کرتیں اور ان کے اخراجات کے لئے اوقاف قائم کرتیں جن کی آمدنی سے طلبہ اور مدرسین اور ادارے کا پورا عملہ فائدہ اٹھا تا اور عوام بھی دینی ہمدردی کی بنا پر طلبہ و مدرسین کی کفالت کرتے تھے
اب نہ حکومتیں رہیں اور نہ روسا رہے نہ گذشتہ دنوں کی کے مخلص علمائے کرام رہئے اور اسلام اور مسلمانوں کو باقی رکھنے کیلئے دینی تعلیم کا سلسلہ قائم رکھنا ضروری تھا اس مجبوری کے تحت علمائے اسلام نے زکات کے بیان میں نہایت ہی دیانتداری سے یہ مسئلہ واضح کردیا کہ زکات کے زکات کے حقدار کو دیا جائے اور وہ خود اپنی مرضی سے جس جائز مصرف میں خرچ کرنا چاہئے تو خرچ کرنا جائز ہے اسی کا نام حیلہ شرعی ہے جس کی اصل قرآن و حدیث دونوں میں موجود ہے
*( 📚بحوالہ فتاوی بحر العلوم جلد دوم ص ۱۸۴ /۴۵ )*
*واللہ اعلم بالصواب*
__________💠⚜💠____________
*✍🏻شرف قلم: حضرت علامہ مفتی محمد رضا امجدی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی دارالعلوم چشتیہ رضویہ کشن گڑھ اجمیر شریف مقام ہر پوروا باجپٹی سیتامڑھی بہار۔*
*+919470258177*
*✅لقد اجاب من اصاب: اسرار احمد نوری بریلوی خادم التدریس والافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ۔*
*✅الجواب صحیح المجیب نجیح: حضرت علامہ مفتی محمد امجد رضا امجدی صاحب قبلہ سیتامڑھی بہار۔*
___________💠⚜💠__________
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں