شیخُ الاسلام حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯شیخُ الاسلام حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* بہاؤالدین زکریا۔
*کنیت:* ابومحمد، ابولبرکات۔
*القاب:* شیخ الاسلام، الشیخ الکبیر، غوث العالمین، بہاؤالحق ِّوالدّین، اسدی ہاشمی، قرشی، ملتانی۔
*پورا نام اسطرح ہے:* شیخ الاسلام غوث العالمین حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ۔
*سلسلہ نسب اسطرح ہے:* حضرت شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی بن شیخ وجیہ الدین بن کمال الدین، بن جلال الدین، بن علی قاضی، بن شمس الدین، بن شیخ حسین خوارزمی، بن مطوف، بن حزیمہ، بن تاج الدین المطوف، بن عبدالرحیم، بن عبدالرحمن، بن ھباء، بن اسد، بن ہاشم، بن عبدِ مناف۔ الیٰ آخرہِ۔ علیہم الرحمۃ والرضوان۔
آپ قریشی ہاشمی ہیں۔ 
والدہ کی طرف سے سلسلۂ نسب مولا علی تک منتہی ہوتا ہے۔ آپ کے اجداد مکۃ المکرمہ سے ہند تشریف لائے تھے۔

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت شبِ قدر،شبِ جمعہ،/27رمضان المبارک 566ھ، مطابق جون/1171ء کو "کوٹ کروڑ" موجودہ "کروڑ لعل عیسن" (ضلع لیہ، پنجاب، پاکستان) میں ہوئی۔

*تحصیلِ علم:* سات سال کی کم عمری میں قرآنِ مجید قرأتِ سبعہ عشرہ سے حفظ کرلیا۔ اس کے بعد درسی کتب کی طرف متوجہ ہوئے۔ 12 سال کی عمر میں والدِ ماجد کا انتقال ہوگیا۔لیکن آپ نے تعلیم کا سلسلہ نہ روکا۔ مزید حصولِ علم کے لئے آپ خراسان، نجف اشرف، بغداد، مکہ المکرمہ تشریف لے گئے۔ وہاں سات سال درس وتدریس میں مشغول رہے، بعد ازاں بخارا آگئے اور وہاں علم کی تکمیل کی،وہاں آپ "بہاء الدین فرشتہ" کے نام سے مشہور ہوئے۔ 
مدینہ منورہ پہنچ کر آپ نے شیخ کمال الدین محمد یمنی سے جن کا شمار محدثین کبار میں تھا، درس حدیث لیا اور اجازت نامہ بھی حاصل کیا۔ آپ نے مدینہ منورہ میں پانچ سال عبادت و ریاضت میں گزارے۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے اکابر علماء و فقہاء و محدثین و مفسرین میں ہوتا تھا۔
مولانا جامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "تکمیلِ علوم کے بعد پندرہ سال تک تدریس کرتے رہے۔ روزانہ ستر عالم وفاضل (مختلف علوم و فنون میں) آپ سے علمی پیاس بجھاتے تھے۔
*(نفحات الانس: 436)*

*بیعت و خلافت:* آپ شیخ المشائخ شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ سترہ روز کے مجاہدہ کے بعد رسول اللہ ﷺکے حکم سے خرقۂ خلافت سے نوازے گئے۔

*سیرت و خصائص:* شیخ الاسلام والمسلمین، غوث العالمین، بہاؤالحق والدین، قطب الاولیاء، قدوۃ الصلحاء، تاجدارِ ملتان، حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ۔ 
آپ مادر زاد ولی تھے۔ آپ کے والدِ ماجد جب قرآن شریف پڑھتے اور آپ آواز سنتے تو آپ فوراً دودھ پینا چھوڑ دیتے تھے اور قرآن شریف سننے میں محو ہوجاتے تھے۔ آپ نے اسلام کی اشاعت کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اشاعتِ اسلام کا سہرا صوفیاء کرام کے سر ہے جن کی مساعیِ جمیلہ سے کفر و شرک کے مستحکم قلعے نیست و نابود ہو گئے۔ ہند کے بُت کدوں کی رونق ماند پڑنے لگی۔ شمعِ توحید فروزاں ہونے سے کفر کی تاریکی چھٹ گئی اور دیارِ ہند میں ہر سو صدائے لا الٰہ الا اللہ گونجنے لگی۔ اس خطۂ ارض میں قدم رنجہ فرمانے والے صوفیاء عظام نے اپنے اعلیٰ کردار کے ذریعے یہاں کے باسیوں کے دل موہ لیے اور وہ جو ق در جوق دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہونے لگے۔

یہ انہی بزرگانِ دین کے قُدوم میمنت لزوم کا اثر ہے کہ آج یہاں کروڑوں مسلمان موجود ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام نے اپنی زندگی تبلیغِ اسلام کے لئے وقف کردی تھی۔ آپ جب ملتان تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا۔جو صدیوں سے ہنود کا مرکز تھی۔ وہ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر واقع برصغیر کے تاریخی مندر "پرہلاد جی" کے سامنے تھی۔ جو ہندو بھی پوجا پاٹ کر کے مندر سے نکلتا اور آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتا تو ضرور متأثر ہوتا اور آپ کی پرکشش شخصیت، آپ کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کی دل موہ لینے والی گفتار کے باعث حلقہ بگوشِ اسلام ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ مندر کی رونقیں ماند پڑگئیں۔ بالآخر ویران ہی ہوگیا، اور آج کل اس کے چند آثار کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ قریب ہی حضرت کا مزار اور مسجد ہے، اور مسجد کی دیوار تو مندر کی دیوار سے بالکل متصل ہے، جہاں ہر وقت قال اللہ اور قال رسول ﷺ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ برصغیر میں اسلام کی نشر و اشاعت کرنے والی اولیاء اللہ کی پاکیزہ جماعت ہے۔

آپ نے اس جگہ "مدرسہ بہائیہ" کی بنیاد رکھی۔ جس میں اس وقت تمام مروجہ علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ساتھ دنیا کی اہم زبانیں بھی سکھائیں جاتی تھیں۔ جس علاقے میں مبلغین کو بھیجنا مقصود ہوتا تھا پہلے اس کو اس علاقے کی زبان و ثقافت کی مکمل تعلیم دی جاتی تھی، پھر اس علاقے کی طرف تاجر کی صورت میں روانہ کر دیا جاتا تھا۔ سامانِ تجارت، اور مکمل سفری اخراجات، اور ان کی حفاظت کا مکمل بند و بست حضرت شیخ الاسلام خود کرتے تھے۔ اور آپ ان کو روانہ کرتے وقت یہ نصیحتیں کرتے تھے۔ 
"سامان کم منافع پر فروخت کرنا۔ لین دین میں اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھنا۔ ناقص چیزوں کو فروخت نہ کرنا، بلکہ فقراء اور مساکین کو مفت دے دینا، خریداروں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا، جب تک لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہو، ان پر اسلام پیش نہ کرنا۔"
اس طرح علمائے ربانیین سوداگروں کے لباس میں سامانِ تجارت لے کر روانہ ہوتے اور انڈونیشیا، ملائیشیا، جاوا، سماٹرا، فلپائن، برما، سندھ، افغانستان دکن، بنگال، بلوچستان، کشمیر، اور چین وغیرہ تک پہنچ کر دوکانیں کھولتے اور دیانتداری سے لین دین کرتے اور ساتھ ہی لوگوں پر اسلام پیش کرتے جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلتا اور لوگ ان کے حسنِ اخلاق، ان کی خدا ترسی، دینداری، دیانت داری اور معاملات میں صفائی ستھرائی دیکھ کر گرویدہ ہو جاتے اور بالآخر اسلام قبول کر لیتے۔ 
آج مشرقِ بعید کے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جو کروڑوں مسلمان نظر آتے ہیں، یہ انہی تاجر مبلغین کی سعیِ مشکور کا نتیجہ ہیں۔

اسی طرح سیاست سے گہری دلچسپی تھی۔ تمام معاملات پر نظر رکھتے تھے۔ آپ کے زمانے میں ملتان پر اسماعیلیوں اور قرامطہ کی حکومت تھی۔ لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف راغب کرتے تھے۔ مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے خیرخواہ تھے۔حضرت شیخ الاسلام نے ان کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا۔بالآخر نتیجہ ان کے اقتدار ختم ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا، اور اسلامی حکومت کی راہ ہموار ہوئی۔ الغرض حضرت شیخ الاسلام کے تبلیغی کام کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔

آپ کا معمول تھا عصر کی اذان سنتے ہی مسجد میں تشریف لا کر عصر باجماعت ادا فرماتے تھے۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لے جاتے۔ قرآن و حدیث کا وعظ فرماتے۔ اس موقعہ پر دور و نزدیک کے لوگ کام چھوڑ کر جوق در جوق آتے اور وعظ سنتے۔ تاثیر اس قدر تھی کہ اگر غیر مسلم شریکِ درس ہوتا تو بغیر اسلام قبول کیے نہ رہتا۔ اور مسلمان سنتا، ضرور متأثر ہوتا تھا اور برے کاموں کو چھوڑ کر زہد و تقویٰ اور نیک اعمال اختیار کرتا تھا۔

حضرت شیخ الاسلام ہمیشہ لوگوں کو یہ وصیت فرماتے تھے: 
"ہر آدمی پر لازم ہے کہ وہ مکمل سچائی اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، ہر ماسوا کا خیال دل سے نکال دے۔ اللہ تعالیٰ سے رسائی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کہ اپنے حال کو درست کرلو۔ اپنے اقوال و افعال کو سنتِ مصطفیٰﷺ سے مزین کرلو۔ تمام معاملات میں بارگاہِ صمد جل جلالہ سے استعانت حاصل کرو۔ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو۔ تاکہ تمہیں نیک اعمال کرنے کی توفیق حاصل ہو"۔

*وصال:* بروز منگل 7/صفرالمظفر 661ھ، مطابق دسمبر/ 1262ء، کو سجدے کی حالت میں ہوا۔ آپ کا مزار مدینۃ الاولیاء ملتان میں منبعِ انوار و برکات ہے۔

*ماخذ و مراجع:* صوفیائے پنجاب۔ الاوراد۔ نفحات الانس۔ تذکرہ علمائے ہند۔ تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. کئی جگہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب اسد بن ہاشم سے نہیں بلکہ اسد بن عبد العزی سے ہے۔اسد بن ہاشم کو مقطوع النسل کہتے ہیں جبکہ ایک جگہ فاطمہ بنت اسد کے بھائی حنین کانام بھی پڑھا ہے۔کوئی صاحب اس معاملے میں مستند حوالہ بتا دیں۔شکریہ
    (پروفیسر صفدر علی شاہ،جھنگ)
    0333-0312--6732552

    جواب دیںحذف کریں

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں