-----------------------------------------------------------
*🕯اخلاص کی حقیقت اور عمل میں اخلاص کے فضائل🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی) کے علاوہ ہر ایک کی عبادت ( اور اس کی رضا جوئی) سے بری ہو جائے۔
*(مفردات امام راغب، کتاب الخاء، ص۲۹۳)*
کثیر احادیث میں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں، ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :
(1) حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:
’’جس مسلمان میں یہ تین اوصاف ہوں اس کے دل میں کبھی کھوٹ نہ ہو گا: (1) اس کا عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ (2)وہ آئمہ مسلمین کے لئے خیر خواہی کرے۔ (3) اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑ لے۔
*(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۹، الحدیث: ۲۶۶۷)*
(2) حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس امت کے کمزور لوگوں کی دعاؤں، ان کی نمازوں اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اِس امت کی مدد فرماتا ہے۔
*(نسائی، کتاب الجہاد، الاستنصار بالضعیف، ص۵۱۸، الحدیث: ۳۱۷۵)*
(3) حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یمن کی طرف بھیجا تو انہوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ! مجھے کوئی وصیت کیجئے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
اپنے دین میں اخلاص رکھو، تمہارا تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔
*(مستدرک، کتاب الرقاق، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۴)*
*ترکِ اخلاص کی مذمت:*
جس طرح احادیث میں اخلاص کے فضائل بیان ہوئے ہیں اسی طرح ترک ِاخلاص کی بھی بکثرت مذمت کی گئی ہے، چنانچہ ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :
(1) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں شریک سے بے نیاز ہوں، جس شخص نے کسی عمل میں میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کیا میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔
*(مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب من اشرک فی عملہ غیر اللہ، ص۱۵۹۴، الحدیث: ۴۶(۲۹۸۵)*
(2) حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’قیامت کے دن مہر لگے ہوئے نامۂ اعمال لائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: ’’اس اعمال نامے کو قبول کر لواور اس اعمال نامے کو چھوڑ دو۔ فرشتے عرض کریں گے: تیری عزت کی قسم! ہم نے وہی لکھا ہے جو اس نے عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’تم نے سچ کہا، (مگر) اس کا عمل میری ذات کے لئے نہ تھا، آج میں صرف اسی عمل کو قبول کروں گا جو میری ذات کے لئے کیا گیا ہو گا۔
*(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۲۸، الحدیث: ۶۱۳۳)*
(3) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’قیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہو گا، جب اسے لایا جائے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا۔ وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کے شہید ہو گیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے جہاد اس لئے کیا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس شخص کو لایا جائے گاجس نے علم سیکھا، سکھایا اور قرآنِ پاک پڑھا، وہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔پھر اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآنِ کریم پڑھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے اس لیے علم سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآنِ پاک اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال عطا فرمایا تھا، اسے لا کر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی تووہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے یہ سخاوت اس لیے کی تھی کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم کا حکم ہوگا تو اسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
*(مسلم، کتاب الامارۃ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار، ص۱۰۵۵، الحدیث: ۱۵۲(۱۹۰۵)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں