-----------------------------------------------------------
*🕯اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی فضیلت🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 انسان کی زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، کبھی دکھ کبھی سکھ، کبھی رنج و غم اور کبھی راحت و آرام، کبھی عیش و عشرت سے بھرپور لمحات اور کبھی مصائب و آلام سے معمور گھڑیاں الغرض طرح طرح کے حالات کا سامنا ہر فرد ِبشر کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے، دینِ اسلام کا پیروکار ہونے کے ناطے ہر مسلمان کو چاہئے کہ غمی خوشی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور صابر و شاکر رہے، ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی عظمت و فضیلت پر مشتمل چند آیات اور روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ(۲۲) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ(۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‘‘ *(الرعد:۲۲-۲۴)*
*ترجمہ:* اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔ وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالحین ہوں گے (وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے) اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس (یہ کہتے ہوئے) آئیں گے۔تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخرت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔
*(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلائ، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)*
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے۔
*(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴، الحدیث: ۷۳۷)*
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! (دنیا میں ) ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔
*(ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)*
*روئے زمین کا سب سے بڑاعبادت گزار:*
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا، میں روئے زمین کے سب سے بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جس کے ہاتھ پائوں جذام کی وجہ سے گل کٹ کر جدا ہو چکے تھے اور وہ زبان سے کہہ رہا تھا، ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو نے جب تک چاہا ان اَعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا لے لیا اور میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی، اے میرے پیدا کرنے والے! میرا تو مقصود بس توہی تو ہے۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، اے جبرئیل! میں نے آپ کونمازی روزہ دار (قسم کا کوئی) شخص دکھانے کا کہا تھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا، اس مصیبت میں مبتلا ہونے سے قبل یہ ایسا ہی تھا، اب مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اشارہ کیا اوراس کی آنکھیں نکل پڑیں ! مگر عابد نے زبان سے وہی بات کہی ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، جب تک تو نے چاہا ان آنکھوں سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا انہیں واپس لے لیا۔ اے خالق! عَزَّوَجَلَّ، میری امید گاہ صرف اپنی ذات کو رکھا، میرا تومقصود بس توہی توہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عابد سے فرمایا، آئو ہم تم باہم ملکر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر آنکھیں اور ہاتھ پائوں لوٹا دے اور تم پہلے ہی کی طرح عبادت کرنے لگو۔ عابد نے کہا، ہرگز نہیں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا، آخر کیوں نہیں ؟ عابد نے جواب دیا ’’جب میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اسی میں ہے تو مجھے صحت نہیں چاہئے۔
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، واقعی میں نے کسی اور کو اس سے بڑھ کر عابد نہیں دیکھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا، یہ وہ راستہ ہے کہ رضا ئے الٰہی عَزَّوَجَلَّ تک رسائی کیلئے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں۔
*( روض الریاحین، الحکایۃ السادسۃ والثلاثون بعد الثلاث مائۃ، ص۲۸۱)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ ارشد رضا خان رضوی امجدی*
*📱+917620132158*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں