بیداری کو صحیح جہت کی طرف لانا ضروری ہے!!!
مسلمانوں میں بیداری کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔وہ اب قوم مسلم کی جان و مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کے لئے حساس نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے خیالات سے بیداری کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔
افکار و خیالات کے تناظر میں مسلمانوں کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1-ایک طبقہ چاہتا ہے کہ موجودہ وقت میں کوئی مسلم پارٹی انتخابی میدان میں نہ اترے,بلکہ سب لوگ مل جل کر سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیں,تاکہ فرقہ پرست قوتیں اقتدار سے باہر رہیں اور مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سلامت رہے۔
2-دوسرا طبقہ چاہتا ہے کہ کوئی مسلم پارٹی بھی انتخابی میدان میں اترے,اور ان کا سپورٹ کیا جائے,تاکہ اسمبلی و پارلیامنٹ میں مسلمانوں کی وکالت کرنے والے بھی کچھ لوگ ہوں اور فرقہ پرست قوتوں کو مسلمانوں پر ظلم و ستم سے روکنے کی کوشش کریں۔
چوں کہ دونوں طبقہ کے مقاصد اچھے ہیں,اس لئے ان کی فکر صالح اور نیت خیر کے ساتھ ان کی بیداری پر ہمیں بہت خوشی ہے۔جب قوم بیدار ہوتی ہے تو وہ غور و فکر کے بعد اس منزل تک پہنچ جاتی ہے,جہاں سے اس کی نجات کی راہ صاف نظر آنے لگتی ہے۔
گرچہ نظریاتی طور پر میں دونوں طبقوں سے جدا ہوں,کیوں کہ دونوں نظریات کا نتیجہ محکومیت اور غلامی ہے۔
پہلی صورت میں مسلمان سیکولر پارٹیوں کے محکوم اور غلام رہیں گے,جب کہ دوسری صورت میں اپنے چند لوگ اسمبلی و پارلیامنٹ میں موجود ہونے کے باوجود مسلمان حکمراں پارٹیوں کے محکوم ہوں گے۔
مسلمانوں پر ظلم و ستم سیکولر پارٹیاں بھی کرتی ہیں اور فرقہ پرست قوتیں بھی۔سیکولر پارٹیاں ہم پر اسی قدر ظلم کرتی ہیں کہ ہم ان کے محکوم اور غلام بنیں رہیں اور فرقہ پرست قوتیں ہمارا نام و نشان مٹا دینا چاہتی ہیں۔
میں بھارت میں بہوجن سیاست کا قائل ہوں,جس میں ہر قوم کو اس کی آبادی کے تناسب سے حصہ داری دی جائے,لیکن فی الوقت سیاسی میدان میں بہوجن سیاست کا مضبوط اور مستحکم وجود نہیں۔
موجودہ وقت میں ہم اس نظریہ کے قائل ہیں کہ مسلم پارٹیاں ہر ریاست میں مسلم اکثریتی علاقوں میں اپنے چند امیدوار ضرور کھڑے کریں۔جہاں مسلم امید وار کھڑے ہوں,سارے مسلمان مل جل کر اسے کامیاب بنائیں اور سیکولر پارٹیوں کے امیدواروں کو ہرگز ووٹ نہ دیں۔
جہاں مسلم پارٹی کا امیدوار نہ ہو,وہاں سیکولر پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیں,تاکہ فرقہ پرست قوتیں پسپا ہو سکیں۔
گرچہ مسلم پارٹی کے چند امید واروں سے ہم حکومت سازی نہیں کر سکتے,لیکن اس کے ذریعہ قوم مسلم میں سیاسی شعور بیدار ہو گا اور خود اعتمادی پیدا ہو گی۔
سیکولر پارٹی کے مسلم امیدوار اپنی پارٹی کے احکام کے تابع ہوتے ہیں۔وہ پارٹی کی سیاست اور حکم سے رو گردانی نہیں کر سکتے۔
یہ اعتراض غلط ہے کہ مسلم پارٹی کے سبب سیکولر پارٹی ہار جاتی ہے۔یہ الزام اس وقت صحیح ہوتا جب کوئی مسلم پارٹی کم از کم پچاس فی صد سیٹوں پر اپنے امیدوار نامزد کرتی۔اس وقت یہ کہنا صحیح ہوتا کہ پچاس فی صد سیٹ پر ووٹ تقسیم ہو گئے تو سیکولر پارٹی ہار گئی۔
جب کہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔مسلم پارٹی صرف پانچ چھ فی صد سیٹ پر الیکشن لڑتی ہے۔ایسی صورت میں سیکولر پارٹی کی شکست کا سبب کچھ دوسرا ہو گا۔
مثال کے طور پر کسی اسمبلی میں کل ایک سو سیٹ ہے۔یہاں حکومت سازی کے لئے صرف اکاون سیٹ پر کامیابی کی ضرورت ہے۔مسلم پارٹی نے صرف پانچ سیٹ پر اپنے امیدوار نامزد کئے تو سیکولر پارٹی کو 95 سیٹ میں سے 51سیٹ پر جیت حاصل کرنا ہے۔
اگر وہ 95 میں 51 سیٹ نہیں لا سکتی ہے تو 100 میں سے 51 کی گارنٹی کہاں سے ثابت ہو گئی۔
سب سے اہم جواب یہ ہے کہ جب مسلم پارٹی نے سیکولر پارٹی کے لئے 95 صد چھوڑ دی تھی تو سیکولر پارٹی نے مسلم پارٹی کے لئے 5 سیٹ چھوڑنے کی ہمت کیوں نہ کی؟ جب مسلمان سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں تو سیکولر پارٹیوں کو بھی مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے۔
ان پانچ سیٹوں پر سیکولر ووٹ اسی لئے تقسیم ہو گئے کہ سیکولر پارٹی نے جان بوجھ کر یہاں اپنے امید وار کھڑے کئے۔
سیکولر پارٹی کو ان پانچ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے,کیوں کہ مسلم پارٹی بھی جیت کر کے سیکولر پارٹی کا سپورٹ کرتی ہے,پھر یہ سیکولر پارٹی کی بی ٹیم ہوئی,نہ کہ بی جے پی کی بی ٹیم۔
نیز یہ بھی بتایا جائے کہ جب غیر مسلم سیکولر پارٹیاں اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں تو اس سے بھی ووٹ منتشر ہوتا ہے اور سیکولر پارٹیاں ہار جاتی ہیں تو وہاں کیوں نہیں کہا جاتا کہ فلاں پارٹی کے سبب سیکولر پارٹی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔سب لوگ مسلم پارٹی کو دیکھ کر کیوں بھونکنے لگتے ہیں؟
ع / کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
جب سیکولر پارٹیوں کی نیت ہی خراب ہو تو وہ مسلم پارٹیوں سے اتحاد کیسے کر سکتی ہیں۔
مسلم پارٹیوں کو چاہئے کہ چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کریں اور ہر ریاست کی دس فی صد اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار نامزد کریں۔مخالفت سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا اختیاری معاملہ نہیں جس پر سب متفق ہوں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:27:نومبر 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں